پیپلزپارٹی نے باپ سے حمایت مانگ کر سب کو مایوس کیا ہے

ہفتہ 3 اپریل 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

بڑے بزرگو ںنے غلط نہیں کہا، کمزور کو اگر تھپڑ ماریں گے تو وہ تھپڑ کے جواب میں گالی ہی دے گا، عوام اور پاکستان پر بھونکنے والوں کو اللہ ہی سمجھا سکتا ہے لیکن ،آواز ِ سگاں کم نہ کنند رزق گدارا، بہتر ہے کہ سیاسی نابالغوں اور شیطان صفت بد زبانوں سے بے پرواہ ہو کرکہ محب ِ وطن خاموشی سے ترقی کا سفر جاری رکھیں ۔ اس لئے بھی کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں اور جو برستے ہیں وہ گرجتے نہیں ! مسلم لیگ ن اپنے اعمال کے شعلوں میں جل گئی لیکن بل نہیں گئے، عمران خان کو یوٹرن خان کہنے والے سابق صدر آصف علی زرداری نے تحریک ِ انصاف کی حکمرانی سے پہلے کہا تھا کہ ن لیگ سے کئے ہوئے معاہدے اور وعدے قران و حدیث کی طرح مقدس نہیں حالات کی تبدیلی کے ساتھ ان میں تبدیلی کی جا سکتی ہے، اس لئے کے ایک زرداری سب پہ بھاری ہے۔

(جاری ہے)


دنیا جانتی ہے کہ زرداری اگر اپنی خواہشات کے احترام میں اپنے عزیز رشتوں کا احترام بھول سکتے ہیں تو ان کی نظر میں مسلم لیگ ن کی کیا حیثیت ہے، بلاول زرداری نے جب نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اور جھک کر مریم نواز کو بہن کہا تو جیالے پریشان ہو کر اس لئے بول پڑے تھے کہ اگر راہرو اپنے گھمنڈ میں اندھا ہو ،سامنے کنواں ہو تو خامو شی بڑا جرم ہے!
ممتاز کالم نگار حسن نثار نے کیا خوب لکھا ہے کہ بھٹو اور شریف خاندان میں زمین آسمان کا فرق ہے بے نظیر بھٹو نے میدان خالی نہیں چھوڑا ، شریف خاندان والے مشکل کی گھڑی میں اپنے چاہنے والوں کو چھوڑ کر کھبی جدہ اور کھبی لندن بھاگ جاتے ہیں بلاول بھٹو نے لاہور کے ایک خاندان کے سلیکٹڈ ہونے کی تاریخی حقیقت پر سے پردہ اٹھایا ہے تو غلط نہیں کہا۔

بھٹو خا ندان نے ظالم اور جابر کے ہاتھوں مرنا پسند کیا لیکن مٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا اس لئے کہ ”
 ” جو دھج سے مقتل جاتا ہے تو شان سلامت رہتی ہے،،،یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں۔
 حسن نثار لکھتے ہیں کہ بے نظیر کے دادا سر شاہنواز بھٹو جونا گڑھ کے دیوان تھے لیکن حسن نثار نے یہ نہیں لکھا کہ مریم نواز کے پردادا گل فروش تھے
  بی بی سی کے لئے عاصمہ شیرازی اپنے کالم میں لکھتی ہیں حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔

وقت اور حالات میں سمجھوتہ صرف وقت کی چال سمجھنے والے ہی کر سکتے ہیں۔ چال چلنے کے وقت کا تعین اور قدم ا ±ٹھانے کا اختیار ہی راستہ دکھاتا ہے۔گذشتہ کچھ عرصے میں سیاست کی چالوں نے وقت نہیں دیکھا، حالات نہیں دیکھے اور نہ ہی انداز بدلا ہے۔ پی ڈی ایم اپنی موت آپ مر گئی۔ ’مرحومہ پی ڈی ایم‘ نے مرنے سے پہلے حفیظ شیخ کو رخصت ضرور کیا ہے مگر ساتھ ہی منقسم اپوزیشن نے حکومت کو معاشی محاذ پر ک ±ھل کر کھیلنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے کسے معلوم تھا کہ اپوزیشن کا قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے بنایا جانے والا اتحاد محض سینیٹ کے قائد حزب اختلاف کی ایک نشست پر ہی منتج ہو گا۔

یہ کسی نے کبھی نہیں سوچا تھا۔
 سیاسی بہن بھائی کے راستے الگ ہو گئے تو مریم صفدر بیمار ہو گئیں اور مریم اورنگ زیب ان کی تیمارداری میں لگ کر خاموش ہو گئیں البتہ شاہد خاقان عباسی اور اح احسن اقبال کے سیاسی زخموں سے خون رسنے لگا ہے اس لئے کہ اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیوں میں نیا تنازعہ شروع ہو گیا ہے وہ یہ کہ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ماننے سے انکارکر دیا ہے، توپیپلزپارٹی نے کہا کہ اگر ن لیگ اور جے یو ا ٓئی سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر نہیں مانتے تو ہم بھی قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو اپوزیش لیڈر تسلیم نہیں کرینگے، در اصل پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں پیپلزپارٹی کے رویہ سے مایوس ہیں۔

ان کا کہنا ہے پیپلزپارٹی نے باپ سے حمایت مانگ کر سب کو مایوس کیا ہے۔ اس لئے اب ن لیگ اپنے سیاسی
مستقبل کے لئے تانگہ پارٹیوں پر مشتمل مائنس پیپلز پارٹی انتخابی اتحاد کا سوچنے لگی ہیں لیکن میاں محمد نواز شریف کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے خلاف اس مقام تک نہ جایا جائے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :