
چارہ گر اس کابھی تو کچھ علاج ہو
ہفتہ 27 دسمبر 2014

حافظ محمد فیصل خالد
بد قسمتی سے دورِ حاضر میں ہمارہ معاشرہ بھی ایسے شدت پسندوں سے بھرا پڑا ہے جو معاشرے میں اپنے نظریات کے فروغ اور اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں ۔
(جاری ہے)
مذہبی منافرت کے بعد اب بعض NGOs کی جانب سے ایسے لوگ متعارف کرایا جانا جو بالکل مذہبی انتہاء پسندوں کی طرح نہ صرف سوچ رکھتے ہیں بلکہ اپنے نظریات میں اس درجہ حد تک سخت ہیں کہ کسی دوسرے کو سننے کیلئے تیا ر نہیں ایک افسوسناک عمل ہے اور خاص طور پر ایسے رویوں کو اس وقت پروان چڑہانا کہ جب وطنِ عزیز کو کئی مسائل کا سامنا ہے در اصل ایک لمحہء فکریہ ہے۔یہ وہ نام نہاد پڑہا لکھا طبقہ جو مہذب ہونے کا دعویدار تو ضرور ہے مگر شاید تہذیب وتمدن، روایات اور اخلاقیات سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں رہا۔ مثبت سوچ رکھنے کا دعویدارایہ طبقہ انتقام میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ جن حقوق کے تحفظ کی کل تک یہ بات کرتا تھا آ ج خود ہی ان حقوق کو پامال کئے جا رہا ہے۔ عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ اپنے مئوقف کی تردید سننا تو دور کی بات کسی دوسرے کا جائز مئو قف بھی سن نے کو تیار نہیں۔ منفی رویہ ایسا کہ تصفیہ طلب مسائل کے حل کیلئے گفت و شنید تو دور کی بات، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار نہیں۔اور ستم ظریفی یہ کہ ان سب حرکات کے باوجود خود کو راہِ راست پر تصور کرتے ہیں۔
بے ِحسی کا یہ عالم ہے کہ یہ دونو ں اطراف ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ملک و ملت کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے اپنی تما تر قوت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف کر رہے ہیں۔شرمناک بات یہ کہ اپنے ان مکروہ رویوں کے باوجود معاشرتی اصلاح کے دعویدار ہیں۔ اور اوپر سے بد قسمتی یہ کہ اگر انہیں انکی حرکات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے متعلق حقائق پر مبنی سوال کئے جائیں تو یہ لوگ ان سوالات کے جوابات دینے کو تیار نہیں کیونکہ ایسے سوالات سے شاید ان لوگوں کے مفادات پر کئی سوالیہ نشان اٹھ جاتے ہیں جنکے جوابات ان کے پاس نہیں۔ اور عین ممکن ہے کہ انکی انہی حرکات کی آڑ میں پاکستان مخالف قوتوں نے اپنے مفادا ت کے حصول کو ممکن بنا نے میں کامیاب ہو جائیں۔اور اگر ایسا ہو گیا تو انکو تو شاید انکی فنڈنگ ملتی رہے گی مگر نقصان صرف اور صرف اس پاک دھرتی کا ہو گا۔اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو انکو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ملک و ملت انکو کبھی معاف نہیں کریں گے۔
اور جہاں تک اس معاشرتی اصلاح کا تعلق ہے جس کے یہ دعویدار ہیں تو یقینا یہ لوگ بھول رہے ہیں کہ معاشرتی اصلاح کا بیڑا اٹھانے کیلئے پہلیانفرادی سطح پر اصلاح ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ انفرادی اصلاح کے بغیر معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔ کیونکہ یہ ایک مسلمہ اصول ے کہ جو معاشرہ انفرادی سطح پر بگاڑ کا شکار ہو ایسے معاشرے کی اصلاح حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ محمد فیصل خالد کے کالمز
-
حزب اختلاف سے حزب اقتدار تک
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
ریاستِ مدینہ سے سانحہ ساہیوال تک
پیر 21 جنوری 2019
-
مذہب کارڈ!
پیر 19 نومبر 2018
-
اے قائد ہم شرمندہ ہیں!
بدھ 27 دسمبر 2017
-
وزیرِ اعظم کا استعفی
اتوار 28 مئی 2017
-
اِک زرداری سب پہ بھاری!
پیر 26 دسمبر 2016
-
آخر مذہبی جماعتیں کیوں نہیں؟
منگل 1 نومبر 2016
-
جمہوری حکومت اور سائبر کرائم بِل2016
اتوار 21 اگست 2016
حافظ محمد فیصل خالد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.