
بلا عنوان!
جمعہ 27 نومبر 2015

حافظ محمد فیصل خالد
چناچہ ایک وقت ایسا آیا کہ قصبے کے سب مکینوں نے سردار کے اس غاصبانہ رویے سے تنگ آکر یہ فیصلہ کیا کہ وہ سردار کے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ اب جب سردار نے حسبِ معمول علاقہ مکینوں پر ظلم و ستم ڈھانے کا ارادہ کیا تو اس مرتبہ عوام نے سردار کے اس فعل کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ متحدہو کر سردار کا مقابلہ کیا۔
(جاری ہے)
جس کے نتیجے سرادرکا کچھ نقصان بھی ہوا۔
اس واقعہ کے بعد سرادر نے اپنے ہم پلہ لوگوں کی ایک میٹنگ بلائی اور اپنا مئوقف پیش کیا۔ محفل میں موجود تمام شرکاء نے سردارکا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔جس کے بعداس قصبہ کے رہائشیوں کی شامت آگئی اور بلا تفریق سب کو خمیازہ بھگتا پڑا۔یہی حال آج کل ہماری نامنہاد مہذب اقوام کا ہے۔ تہذیب کا لبادہ اوڑے یہ درندے خود جسکو چاہیں، جیسے چاہیں ماریں الزام لگائیں پابدیاں لگائیں ، انکو کوئی پوچھنے والا نہیں۔یہ جہاں چاہیں ، جسکو چاہیں دہشتگرد کا لیبل لگا کر سزا دے دیں انکے لئے سب جائز ہے۔ یہ خود انسانیت کے تحفظ کے نام پر انسانی اقدار کی دھجیاں اڑا دیں وہ جائز مگر کسی دوسرے سے کسی جانور کی حق تلفی بھی ہوجائے تو وہ گناہِ کبیرا ٹھرا دیا جائے۔
پہلے انہوں نے ان شدت پسند گروہوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کی جسکی سب سے بڑی مثال افغان طالبان ہیں جو کہ تہذیب کا لبادہ اوڑے ان درندوں کیلئے محترم ہ مکرم تھے کیوونکہ اس وقت ان مہذب جانوروں کو روس کے خلاف ان شدت پسندوں کی ضرورت تھی۔اور جب ضرورت پوری ہوگئی تو یہی لوگ دہشتگرد کہلائے۔ اور ان دہشتدردوں کے خلاف جنگ میں لاکھوں کی تعداد میں عوام مارے گئے ۔
اب یہی مہذب لوگ داعش اور اس جیسی شدت پسند تنظیموں کی معاونت کرتے رہے ہیں اور تا حال کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب دنیا کو دکھانے کیلئے اپنے ان سہولت کاروں کے خلاف شدت پسندی کے خاتمے کے نام پرکئے جانے والے آپریشن میں جانوروں کی طرح انسانوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔
جب یہ لوگ انہی شدت پسندوں کو فنڈنگ کریں تو اس وقت سب جائز مگر جب ان متعلقہ مفاداد پورے ہوجائیں تو یہی دوست پھر دشمن بن جاتے ہیں؟۔ خود یہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو آزدا ظہارِ رائے سے تعبیر کریں اور ڈنکے کی چوٹ پر اسکی اشاعت بھی کریں تو ٹھیک مگر جب اس فعل ابلیس کا ردِ عمل آئے تو پھر انسانی حقوق کو خاطر خواہ رکھنے کا واویلا۔ خودیہ شام، مصر، افغانستان ، عراق، فلسطین اور پاکستان میں کھلے عام دہشتگردی کریں اور سرِ عا#م لوگوں کا قتلِ عام کریں تو سب جائز اور جب اپنے چند افراد مارے جائیں تو انسانیت یاد آجاتی ہے۔ کیاانکے نزدیک یہ ہے انسانیت کا معیار ہے؟ کیا انسانیت محض یورپ اور بالخصوص سفید فام لوگوں سے شروع ہو کر انہی پہ ختم ہو جاتی ہے؟
یہ وہ چند بنیادی نقطے ہیں جو ان مہذب لوگوں کو شاید سمجھ نہیں آتے اور اگر آتے تو وہ انکو کسی خاطرلانا مناسب نہیں سمجھتے ۔اور یہی وہ منافقانہ رویہ ہے جو انسانیت کے یہ نامور ٹھیکیدارعرصہ دراز سے اپنائے ہوئے ہیں۔ اور اب بھی اگر انکی یہی روش رہی تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیاکا امن و امان تباہ کرنے میں ان کا بنیادی کردار ہو گا۔اور انکا حال بھی پھر اس سردار والا ہوگا جو ساری عمر کمزوروں پر ظلم کرتا رہا اور جب اپنی باری آئی تو ایک وار بھی نہ سہ سکا (جسکی حالیہ مثال پیرس حملے ہیں)۔
آخر میں میں کہتا چلوں کہ میں دنیا کے ہر کونے میں ہونے والی شدن پسندی اور دہشتگردی کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور فرانس میں مارے جانے والے افرادسے پہلے میں ان لوگوں کیلئے اظہارِ افسوس کرتا ہوں جو پاکستان، افغانستان، عراق، چام، فلسطین کشمیر و دیگر جگہوں پر بلا جرم و جواز مارے گئے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ محمد فیصل خالد کے کالمز
-
حزب اختلاف سے حزب اقتدار تک
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
ریاستِ مدینہ سے سانحہ ساہیوال تک
پیر 21 جنوری 2019
-
مذہب کارڈ!
پیر 19 نومبر 2018
-
اے قائد ہم شرمندہ ہیں!
بدھ 27 دسمبر 2017
-
وزیرِ اعظم کا استعفی
اتوار 28 مئی 2017
-
اِک زرداری سب پہ بھاری!
پیر 26 دسمبر 2016
-
آخر مذہبی جماعتیں کیوں نہیں؟
منگل 1 نومبر 2016
-
جمہوری حکومت اور سائبر کرائم بِل2016
اتوار 21 اگست 2016
حافظ محمد فیصل خالد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.