وزیر ریلوے کا قابل تحسین اقدام۔۔لیکن!

جمعہ 31 جنوری 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اب تو کان ترس گئے تھے کہ کہیں سے کوئی اچھی خبر سننے کوملے،آنکھیں کرپشن در کرپشن کی لمبی چوڑی فہرستیں پڑھ پڑھ کے پتھرا سی گئی اورنظام سیاست میں بہتری کی امید اپنی آخری سانسوں پر تھی کی پچھلے دنوں روزنامہ نئی بات میں شائع خبر نے دم توڑتی امید کو ایک دفعہ پھر جلا بخشی، پتھرائی ہوئی آنکھوں میں ایک بار پھر امید کے دیپ روشن ہو نا شروع ہوئے اور کانو ں نے مدتوں بعد ایسی خبر سنی جس کے ساتھ ہی پورے وجود میں شادمانی و شادابی کے احساسات رچ بس گئے ہیں۔خبرکے مطابق گذشتہ پانچ برس سے مسلسل خسارے میں چلنے اور سابق وزیر کی طرف سے اپنے کاروبار کو وسعت اور فروغ دینے کی خاطر تباہی وبربادی کے دہانے پر کھڑے پاکستان ریلوے میں بالآخر بہتری آنا شروع ہو گئی ہے ۔ ماہ جون سے سے دسمبر2013تک پاکستان ریلوے نے 9ارب 18کروڑ 20لاکھ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے ۔

(جاری ہے)

ادارے نے بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے عوام کے سامنے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بہتر کیا ہے جس کا تنیجہ یہ ہے کہ اگست،ستمبر اور اکتوبر2013کے دوران ملک بھر میں چلنے والی ٹرینوں میں سفر کر نے والے مسافروں کی تعداد 61لاکھ 21ہزار 786ہے جبکہ سال 2012کے اسی دورانئیے میں مسافروں کی تعداد 46لاکھ37ہزار618تھی۔اس کے علاوہ ٹرینوں کی آمدو رفت میں 42سے 52فیصد تک بہتری کے ساتھ کئی مقامات پر قبضہ مافیا سے ریلوے کی قیمتی اراضی بھی وارگزار کرائی گئی ہے۔ اس بات میں کسی بھی قسم کا کچھ شک نہیں ہے کہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران ملک کے دوسرے اہم اداروں کی طرح پاکستان میں ریلوے میں کرپشن کا بڑھتا ہوا ناسور کچھ زیادہ ہی تیزی کے ساتھ پھیل رہا تھا۔یہی وجہ تھی کہ ریلوے بیڈ گورننس ،بد انتظامی ،کرپشن اور بحرانی کیفیات کا شکار ہوکے نہ صرف اپنی شناخت کھو بیٹھا تھا بلکہ اسے چلانا بھی ایک عذاب کی مانند دکھا ئی دیتا تھااور اس کی حالت اس مریض کی سی ہو گئی تھی جو آکسیجن کیمپ میں زندگی اور موت کی کشمکش میں آخری سانسیں لے رہا ہو۔برس ہا برس کی بد انتظامی و بد عنوانی اور مجر مانہ غفلت نے وطن عزیز کے اس ادارے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا تھا۔ان مشکل ترین حالات میں مسائل کی دلدل میں پھنسے اس ادارے کے حالات کو درست کر نے اور اسے قومی تقاضوں کے مطابق بنانے کی ذمہ داری خواجہ سعد رفیق کو سونپی گئی جنہوں نے مر بوط حکمت عملی کے تحت ریلوے کے مالی وسائل پر ڈاکہ ڈالنے اور بد انتظامی میں ملوث لوگوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت کی جس کے نتیجے میں ماہانہ کروڑوں روپے کی بچت شروع ہوئی جو بڑھ کے اب اربوں تک جا پہنچی ہے۔خواجہ صاحب نے ریلوے کے انتظامات سنبھالتے ہوئے جن مصمم ارادوں کا عہد کیا تھا ان پر سختی سے کار بند رہتے ہوئے یہ اپنے ہر قول پر عمل کرتے سر خرو ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔
قارئین !وزیر اعظم میاں نواز شریف بلا شبہ حقیقی معنوں میں پاکستان کو مسائل کے گرداب سے باہر نکالنے میں پر عزم نظر آتے ہیں ۔ سخت ترین پریشر اور گھمبیر ہوتے حالات میں ایک دفعہ پھر طالبان کو امن مذاکرات کی دعوت دینا ایک جر اتمندانہ اقدام ہے ۔ کرپشن سے پاک پاکستان کے حوالے سے کی جانے والی کاوشیں جس میں محکمانہ بنیادوں پر بڑھتی ہوئی کرپشن کی روک تھام کے لئے فیڈرل سیکرٹریوں کو لکھے گئے خط اور ریلوے کے تباہ کن حالات کو سنوارنے کے لئے خواجہ سعد رفیق جیسے نڈر اور بے باک انسان کا چناؤ ا ن کی سیاسی بصیرت کا عکاس ہے۔ لیکن انہیں ریلوے کی طرح ملک کے دوسرے اداروں میں بھی اپنوں کو نوازے جانے والی پالیسی کو جس نے اداروں کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے، کو ختم کر تے ہوئے بلند کردار والے افراد جو عرف عام میں ”کھڈے لائن“ لگے ہوئے ہیں کو ذمہ داریاں سونپنی چاہئیں۔ بالخصو ص میں یہاں اس بات کا بھی ذکر کر نا چاہوں گا کہ پنجاب میں مسلم لیگ کے ایم۔پی۔اے اور ایم ۔این۔اے حضرات کی اپنے حلقے کے عوام سے دوری بھی ایک نئے بحران کو جنم دے رہی ہے ۔ اہل حلقہ کسی کام کے سلسلے میں اپنے منتخب نمائندے کو فون کر نے کی جسارت کر ہی لیں تواکثر ان کے موبائل بند پائے جاتے ہیں اور کبھی قسمت سے فون مل بھی جائے تو دوسری طرف سے صاحب بہادر کاڈرائیور، چمچہ یا گن کسی دیہاتی تھانیدار کی طرح ایسی کرخت زبان میں تفتیش کا آغاز کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے آپ قتل،چوری اور ڈکیتی میں ملوث اشتہاری مجرم ہیں۔ ان میں سے تو بعض ایسے بھی ہیں جو اپنے فرائض سے بے پرواہ ، لوگوں کے مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور اپنے آپ کو پنجاب کا وزیراعلیٰ سمجھتے جو چاہے آپ کا کرشمہ حسن ساز کرے کے مصداق اداروں کوتباہ کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں بھی امن و امان سمیت ایسے بہت سے معاملات تباہی کی جانب جاتے دکھائی دے رے ہیں اور جس کی وجہ سے ”شعور “ کی منازل طے کرتی پاکستانی قوم میں اہل اقتدار اور طاقت کے نشے میں مست ان افرادکے خلاف نفرت اور غصہ ایک قدرتی عمل ہے جو روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں وزیر ریلوے کے قابل تحسین اقدامات ہوں یا وزیر اعظم کی سیاسی بصیرت یہ سب اُس غصے کے آگے دب جاتے ہیں جب انسان اپنی ہی محرومیوں کی آگ میں سڑتے غضبناک حالت میں صرف ایک چنگاری کا انتظار کر رہے ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :