پولیس کی قابل تعریف کاوشیں لیکن !

منگل 7 مارچ 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بھلا یہ کیسے ممکن ہے جب آپ کسی ادارے کو بہتر بنا نے کا عہد کر لیں تو اس کے مثبت ثمرات برآمد نہ ہوں۔ پھر انسان کے ساتھ کائنات کی تما م تر قوتیں بھی ،عالی شان عزم میں،اس کی امداد کے لئے مصروف ہو جاتی ہیں ۔ لیکن ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہمیشہ بڑے بڑے دعوے کر نے والے، خود کچھ نہ کرنے کی قسم کھا کر صرف وقتی طور پر عوام اور میڈیا کی توجہ حاصل کر نے کے لئے، ایسی یسی بے پر کی چھوڑتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔

لیکن لاہور پولیس کے افسران قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے چھوٹے چھوٹے دعووں کے ساتھ بہت بڑے بڑے کام سر انجام دئیے ہیں اور عشروں سے لوگوں کے دلوں میں پلتے پولیس کے نفرت انگیز روئیے کو پوری حد تک ختم کرنے میں نہ سہی لیکن کافی حد تک کم کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں ۔

(جاری ہے)


پولیس اور عوام کے درمیان نفرتوں کے رشتے کو محبتوں میں تبدیل کرنے کے لئے لاہور پولیس کے سی۔

سی۔پی۔اور کیپٹن امین وینس، ڈی۔آئی۔جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف اور ایس۔ایس۔پی ایڈمن رانا ایاز سلیم کی انتھک محنتیں شامل ہیں ۔ حالیہ دنوں میں خوف و دہشت کے ماحول میں پی،ایس۔ایل کر کٹ کے فائنل میچ کو لاہور میں منعقد کرا نے کے لئے ،سر توڑ کاوشوں کے ذریعے ا،ہلیان وطن کے چہروں کو ہسنتا مسکراتا اور دلوں کو تازگی اور ولولہ پہنچانے کا سہرا بھی لاہور پولیس کے ان افسروں اور جوانوں کے سر سجتا ہے ۔

بہترین سیکورٹی انتظامات ، جامع حکمت عملی اورموثر پلاننگ کی روشنی میں ایک ایسی انہونی ، جس کے بارے میں ہمارے بعض سیاسی قائدین بھی شک میں مبتلا تھے اور کھلے عام اپنے خدشات کا ظہار کر رہے تھے کو بخیر و خوبی پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بلاشبہ لاہور پولیس کے اقدامات کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔
جہاں تک بات ہے شہر میں موجود دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی نشا ندہی اور ان کے خلاف کاروائی کی تو اس بارے میں بھی پولیس کے ذمہ داران کافی حد تک مستعد اور متحرک دکھائی دیتے ہیں جس کے لئے ایسے عوامل کی نشان دہی کے لئے عام آدمی کو افسران تک رسائی دینے کے لئے ”لو کل آئی “ کے نام سے موبائل ایپلیکشن کا آغاز بھی کیا گیا ہے ۔

جس کے تحت عوامی نمائندوں اور شہریوں کو پولیس افسران کی دستیابی ،اعلیٰ افسران تک شہریوں کی شکایت کے لئے فوری رسائی اور ایمرجنسی کال کے ذریعے ہنگامی نوعیت کے مسائل کو افسران تک با آسانی پہنچا یا جا سکتا ہے ۔ اس ایپ کی تیاری میں بھی امین وینس ، ڈاکٹر حیدر اشرف اوررانا ایاز سلیم کی شب وروز محنت شامل ہے ۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر پولیس پیچ، وٹس ایپ گروپ او ایس۔

ایم ۔ایس کے ذریعہ شکایات کے فوری ازالہ کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی وجہ سے بھی پولیس سسٹم میں خاطر خواہ بہتری دیکھنے کو ملی ہے ۔
لیکن !افسران کی ان تما م تر کاوشوں کے بعد جب کچھ حرام خور اور ضمیر فروش پولیس ملازمین اپنی کمینگی ظاہر کرتے ہوئے عوام کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں تو یہ تما م کاوشیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں ۔

گذشتہ دنوں میں دو ایسے واقعات سامنے آئے کہ جس کی وجہ سے طبیعت میں موجود تلخی و افسردگی کے ملے جلے احساسات جان نہیں چھور رہے ۔ سانحہ ڈیفنس میں شدید زخمی ہونے والے انوارالحق ،اپنے تین چھوٹے چھوٹے بچوں اور بوڑھے والدین کا پیٹ پالنے کے لئے اس بد قسمت ریسٹورنٹ میں ویٹر بھرتی ہوا تھا ، جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کیپٹن مبین اور زاہد گوندل کی طرح اپنے معصوم بچوں کو اکیلے چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

شام 6بجے سے لیکر اگلے دن دوپہر 2بجے تک اس کے لواحقین لاش کے حصول کے لئے پولیس والوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے رہے ، بھلا ہو خاتون پولیس افسر ، انوش مسعود کا جس نے میری درخواست پر فی الفور ایکشن لیتے ہوئے ، اپنے پیارے کی لاش کے حصول کی خاطر کئی گھنٹوں سے ذلیل ہوتے لوگوں کی داد رسی کی ۔ ایسا ہی ایک واقعہ فائنل میچ سے ایک دن پہلے سامنے آیا جب نوشہرہ سے ، کر کٹ جنون اپنے سروں پر سوار کئے دو نواجوانوں ، جن کے پاس شناختی کوائف مکمل تھے اور جن کے مقامی رشتے دار بھی تھانے پہنچ چکے تھے، کو شیرا کوٹ تھانے کے اہلکاروں نے 4گھنٹے محبوس رکھا ۔

یہاں بھی بالآخر متعلقہ ایس۔پی صاحب نے ان بے چارے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو آزاد کرایا۔
میں سمجھتا ہوں ایسے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ،کیپٹن امین وینس ، ڈاکٹر حیدرا شرف اور رانا ایاز سلیم کی شب و روز انتھک محنتیں خاک میں مل جاتی ہیں اور پھرسے محبتوں کے رشتے نفرت میں تبدیل ہو کر تن آور درخت کی مانند ہو جاتے ہیں پھر جس پر کوئی بات اثر نہیں کرتی ۔ اگر پولیس افسران حقیقی معنوں میں پولیس اور عوام کے درمیان محبت اور اعتماد کارشتہ بر قرار رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضرورت ہے ایسے کمینے اور گھٹیا ملازمین کے خلاف فی الفور ایکشن لیتے ہوئے عوام میں اعتماد کے رشتے کو مزید توانا کیا جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :