
پولیس کی قابل تعریف کاوشیں لیکن !
منگل 7 مارچ 2017

حافظ ذوہیب طیب
(جاری ہے)
پولیس اور عوام کے درمیان نفرتوں کے رشتے کو محبتوں میں تبدیل کرنے کے لئے لاہور پولیس کے سی۔
جہاں تک بات ہے شہر میں موجود دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی نشا ندہی اور ان کے خلاف کاروائی کی تو اس بارے میں بھی پولیس کے ذمہ داران کافی حد تک مستعد اور متحرک دکھائی دیتے ہیں جس کے لئے ایسے عوامل کی نشان دہی کے لئے عام آدمی کو افسران تک رسائی دینے کے لئے ”لو کل آئی “ کے نام سے موبائل ایپلیکشن کا آغاز بھی کیا گیا ہے ۔ جس کے تحت عوامی نمائندوں اور شہریوں کو پولیس افسران کی دستیابی ،اعلیٰ افسران تک شہریوں کی شکایت کے لئے فوری رسائی اور ایمرجنسی کال کے ذریعے ہنگامی نوعیت کے مسائل کو افسران تک با آسانی پہنچا یا جا سکتا ہے ۔ اس ایپ کی تیاری میں بھی امین وینس ، ڈاکٹر حیدر اشرف اوررانا ایاز سلیم کی شب وروز محنت شامل ہے ۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر پولیس پیچ، وٹس ایپ گروپ او ایس۔ایم ۔ایس کے ذریعہ شکایات کے فوری ازالہ کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی وجہ سے بھی پولیس سسٹم میں خاطر خواہ بہتری دیکھنے کو ملی ہے ۔
لیکن !افسران کی ان تما م تر کاوشوں کے بعد جب کچھ حرام خور اور ضمیر فروش پولیس ملازمین اپنی کمینگی ظاہر کرتے ہوئے عوام کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں تو یہ تما م کاوشیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں ۔ گذشتہ دنوں میں دو ایسے واقعات سامنے آئے کہ جس کی وجہ سے طبیعت میں موجود تلخی و افسردگی کے ملے جلے احساسات جان نہیں چھور رہے ۔ سانحہ ڈیفنس میں شدید زخمی ہونے والے انوارالحق ،اپنے تین چھوٹے چھوٹے بچوں اور بوڑھے والدین کا پیٹ پالنے کے لئے اس بد قسمت ریسٹورنٹ میں ویٹر بھرتی ہوا تھا ، جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کیپٹن مبین اور زاہد گوندل کی طرح اپنے معصوم بچوں کو اکیلے چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ شام 6بجے سے لیکر اگلے دن دوپہر 2بجے تک اس کے لواحقین لاش کے حصول کے لئے پولیس والوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے رہے ، بھلا ہو خاتون پولیس افسر ، انوش مسعود کا جس نے میری درخواست پر فی الفور ایکشن لیتے ہوئے ، اپنے پیارے کی لاش کے حصول کی خاطر کئی گھنٹوں سے ذلیل ہوتے لوگوں کی داد رسی کی ۔ ایسا ہی ایک واقعہ فائنل میچ سے ایک دن پہلے سامنے آیا جب نوشہرہ سے ، کر کٹ جنون اپنے سروں پر سوار کئے دو نواجوانوں ، جن کے پاس شناختی کوائف مکمل تھے اور جن کے مقامی رشتے دار بھی تھانے پہنچ چکے تھے، کو شیرا کوٹ تھانے کے اہلکاروں نے 4گھنٹے محبوس رکھا ۔ یہاں بھی بالآخر متعلقہ ایس۔پی صاحب نے ان بے چارے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو آزاد کرایا۔
میں سمجھتا ہوں ایسے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ،کیپٹن امین وینس ، ڈاکٹر حیدرا شرف اور رانا ایاز سلیم کی شب و روز انتھک محنتیں خاک میں مل جاتی ہیں اور پھرسے محبتوں کے رشتے نفرت میں تبدیل ہو کر تن آور درخت کی مانند ہو جاتے ہیں پھر جس پر کوئی بات اثر نہیں کرتی ۔ اگر پولیس افسران حقیقی معنوں میں پولیس اور عوام کے درمیان محبت اور اعتماد کارشتہ بر قرار رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضرورت ہے ایسے کمینے اور گھٹیا ملازمین کے خلاف فی الفور ایکشن لیتے ہوئے عوام میں اعتماد کے رشتے کو مزید توانا کیا جائے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ ذوہیب طیب کے کالمز
-
وزیر اعلیٰ پنجاب کی بہترین کارکردگی اور بدرمنیر کی تعیناتی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
دی اوپن کچن: مفاد عامہ کا شاندار پروجیکٹ
منگل 26 اکتوبر 2021
-
محکمہ صحت پنجاب: تباہی کے دہانے پر
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
سیدہجویر رحمہ اللہ اور سہ روزہ عالمی کانفرنس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
جناب وزیر اعظم !اب بھی وقت ہے
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی لائق تحسین کار کردگی !
ہفتہ 2 جنوری 2021
-
انعام غنی: ایک بہترین چوائس
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
ہم نبی محترم ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے؟
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
حافظ ذوہیب طیب کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.