قصور کی بے قصور زینب اور حکمرانوں و میڈیا کی غفلت

منگل 16 جنوری 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

یہ میرے دس سالہ صحافتی کیرئیر میں پہلی دفعہ ہورہا ہے کہ جب بھی لکھنے بیٹھتا ہوں تو الفاظ میسر نہیں آرہے ۔ قصور کی بے قصور زینب کے بارے سوچتا ہوں تو وہ میری نظروں کے سامنے آکر اپنے قصور کے بارے دریافت کرتی ہے ؟ لیکن میرے پاس اس کے کے کسی سوال کا جواب نہیں ہوتا لیکن ان دنوں میں یہ سوچ کر اس کرب و دکھ سے ضرور گذر رہاہوں کس بے دردی کے ساتھ ظالم درندے نے اپنی شیطانی حوس کو پورا کر نے کے لئے چاند جیسی زینب کے دمکتے چمکتے چہرے کو اداس کر کے رکھ دیا۔

گھر کی رونق کو بے رونق کر دیا۔ باپ سے اُس کی محبت اور ماں سے اُ س کی ممتا کو چھین لیا ۔ کروڑوں لوگ جس کی وجہ سے اضطراب میں مبتلا ہیں ۔
قارئین !مجھے یہ بات بڑے افسوس کہ ساتھ لکھی پڑ رہی ہے کہ ہما رے معاشرے کا شمار ایسے معاشروں میں ہوتا ہے جہاں ادارے حادثات رونما ہو نے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے بعد پھر قانون سازی کی جاتی ہے ۔

(جاری ہے)

ویسے تو میں جمہوری اقدار کا حمایتی ہوں لیکن جنرل ضیا ء الحق کے دور آمریت میں کئے جانے والے ایک فیصلے کوبڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس کی وجہ سے کئی سالوں تک ایسا اور کوئی واقعہ رونما نہ ہوا۔ 1977کے آخری دنو ں کی بات ہے کہ لاہور کے تاجر کے اکلوتے بیٹے کو اس کے ڈرائیور نے زیادتی کے بعد قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کی خبر اخبار میں شائع ہوئی تو ضیا ء الحق نے فوری طور پر اس وقت کے پنجاب کے مار شل لا ایڈمنسٹریٹرکو ہدایات جاری کیں اور مجرموں کو فوری گرفتار کر نے کے احکامات صادر کئے ۔

مجرمان کو گرفتارکیاگیا اور ان کا کیس فوجی عدالت میں چلایا گیاجس کا فوری فیصلہ سنا دیا گیا۔ فیصلے کی روشنی میں تین مجرموں کو سزائے موت اور تین کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھا م کے لئے مجرموں کو نشان عبرت بنا نے کے لئے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ سر عام پھانسی کا فیصلہ کیا گیا اوریوں کیمپ جیل لاہور کے باہر تینوں مجرمان کو لاکھوں لوگوں کے سامنے پھندے سے لٹکا دیا گیا۔

رات گئے تک مجرمان کی لاشیں لٹکتی رہیں اور خبر رکھنے والے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس کے بعد مار شل لا کے دور میں اس طرح کا کائی واقعہ رونما نہیں ہوا۔
قارئین کرام ! ہمارے حکمران ، ادارے اور قانون سب کے سب اس قدر کمزور اور مصلحت پسند ہیں کہ اول تو معاشرے میں بگاڑ بننے والے افراد حکمرانوں کے تعلق، سفارشوں اور قانون نافذ کر نے والے اداروں کی نااہلیوں کی وجہ سے قانون کے شکنجے میں نہیں آتے اور جو کچھ آتے ہیں وہ قانون کے رکھوالوں اور متوالوں کی وجہ سے باعزت رہا ہو جاتے ہیں ۔

اس کی تازہ مثال پچھلے سال قصو ر میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا سیکنڈل اور اس کے بعد مجرمان کی با عزت رہائی ہے ۔ ایک مصدقہ رپورت کے مطابق پاکستان میں روزانہ دس بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اور کتنے ہی ایسے ہیں جو منظر عام پر نہیں آتے ۔ ایک اور ایسی رپورٹ کے مطابق پچھلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 768واقعات پیش آئے جن میں سے 68ضلع قصورسے رپورٹ ہوئے ہیں ۔


افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتی اداروں میں صوبائی یا وفاقی سطح پر اس قسم کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں جس میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مستند معلومات اور اعدادوشماراکھٹے کئے جائیں۔
قارئین محترم !اگر پہلے ہی مجرمان کو سزا دے دی جاتی تو بیسیوں واقعات رونما نہ ہوتے ۔ خبر کے مطابق ڈی۔این۔اے کی رپورٹ کی روشنی میں 13میں سے 8کا مجرم ایک شخص ہی ہے جو ضرورت سے زیادہ چالاک ہے اور یہی وجہ ہے کہ کئی روز گذر جانے کے بعد بھی وہ قانون کے شکنجے میں نہ آسکا ہے ۔

بلا شبہ اس میں جہاں قصور پولیس کی ناقص کار کردگی کھل کھل کر سامنے آئی ہے کہ پچھلے ایک سال میں جنسی سیکنڈل کے بعد بھی بیسیوں واقعات رپورٹ ہوئے لیکن پولیس ٹس سے مس نہ ہوئی اور نہ ہی مجرموں کا تعین کیا جا سکا اور بالآخر مجرمان اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ معصوم بچیوں کو سر عام اپنی حوس کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ مجرموں کی عدم گرفتاری میں جہاں حکمرانوں اور قانون نافذ کر نے والے اداروں کی نااہلی سامنے آرہی ہے وہاں میڈیا کے چند لوگوں کی غفلت اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ نے مزید کام خراب کیا ہے ۔

مجرم کی سی۔سی۔ٹی۔وی فوٹیج نشر کر کے اسے چھپنے کا موقع دیا گیا اور کئی ایسی چیزیں تھیں جنہیں ابھی آف ریکارڈ رہنا چاہئے تھا انہیں بھی نشر کر نے سے گریز نہ کیا گیا اور یوں کیس طوالت کا باعث بن رہا ہے ۔ صرف اس کیں میں ہی نہیں بلکہ کئی ایسے کیسز میں چند نا عاقبت اندیش رپوٹروں کی رپورٹنگ کی وجہ سے مجرمان فائدہ اٹھا جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انوسٹی گیشن کی جدید ٹیکنالوجی کو اس قدر واضح کر دیا ہے کہ اب جرائم پیشہ لوگ مو قع واردات پر ایسی کوئی بھی چیز لانے سے گریز کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ قانون کے شکنجے میں آسکیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کر نے والے ادارے جدید ٹیکنالوجی کے باوجود بھی ایسی کسی بھی واردات کو ٹریس کر نے میں کامیاب نہیں ہو پاتے ۔


اگر ہم تیزی سے بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے ایسے واقعات کو روکنا چاہتے ہیں تو ضروت اس امر کی ہے کہ ایسے تما م مجرمان کو سر عام پھانسی کی سزا سنائی جائے اور حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا اپنا کردار اداء کرتے ہوئے فی الفور ایسی اطلاع پر بغیر کسی سفارش و سیاسی تعلقات کے ایسے لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کریں اور میڈیا سمیت تما م ادارے اپنا اپنا فرض ادا کرتے ہوئے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسی کسی بھی قسم کی رپورٹنگ سے گریز کریں جو مظلوم کی بجائے ظالم کے حق میں جاتی ہو اور جس کا فائدہ معصوم زینب کے قاتل اٹھائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :