
قصور کی بے قصور زینب اور حکمرانوں و میڈیا کی غفلت
منگل 16 جنوری 2018

حافظ ذوہیب طیب
قارئین !مجھے یہ بات بڑے افسوس کہ ساتھ لکھی پڑ رہی ہے کہ ہما رے معاشرے کا شمار ایسے معاشروں میں ہوتا ہے جہاں ادارے حادثات رونما ہو نے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے بعد پھر قانون سازی کی جاتی ہے ۔
(جاری ہے)
قارئین کرام ! ہمارے حکمران ، ادارے اور قانون سب کے سب اس قدر کمزور اور مصلحت پسند ہیں کہ اول تو معاشرے میں بگاڑ بننے والے افراد حکمرانوں کے تعلق، سفارشوں اور قانون نافذ کر نے والے اداروں کی نااہلیوں کی وجہ سے قانون کے شکنجے میں نہیں آتے اور جو کچھ آتے ہیں وہ قانون کے رکھوالوں اور متوالوں کی وجہ سے باعزت رہا ہو جاتے ہیں ۔ اس کی تازہ مثال پچھلے سال قصو ر میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا سیکنڈل اور اس کے بعد مجرمان کی با عزت رہائی ہے ۔ ایک مصدقہ رپورت کے مطابق پاکستان میں روزانہ دس بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اور کتنے ہی ایسے ہیں جو منظر عام پر نہیں آتے ۔ ایک اور ایسی رپورٹ کے مطابق پچھلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 768واقعات پیش آئے جن میں سے 68ضلع قصورسے رپورٹ ہوئے ہیں ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتی اداروں میں صوبائی یا وفاقی سطح پر اس قسم کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں جس میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مستند معلومات اور اعدادوشماراکھٹے کئے جائیں۔
قارئین محترم !اگر پہلے ہی مجرمان کو سزا دے دی جاتی تو بیسیوں واقعات رونما نہ ہوتے ۔ خبر کے مطابق ڈی۔این۔اے کی رپورٹ کی روشنی میں 13میں سے 8کا مجرم ایک شخص ہی ہے جو ضرورت سے زیادہ چالاک ہے اور یہی وجہ ہے کہ کئی روز گذر جانے کے بعد بھی وہ قانون کے شکنجے میں نہ آسکا ہے ۔ بلا شبہ اس میں جہاں قصور پولیس کی ناقص کار کردگی کھل کھل کر سامنے آئی ہے کہ پچھلے ایک سال میں جنسی سیکنڈل کے بعد بھی بیسیوں واقعات رپورٹ ہوئے لیکن پولیس ٹس سے مس نہ ہوئی اور نہ ہی مجرموں کا تعین کیا جا سکا اور بالآخر مجرمان اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ معصوم بچیوں کو سر عام اپنی حوس کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ مجرموں کی عدم گرفتاری میں جہاں حکمرانوں اور قانون نافذ کر نے والے اداروں کی نااہلی سامنے آرہی ہے وہاں میڈیا کے چند لوگوں کی غفلت اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ نے مزید کام خراب کیا ہے ۔ مجرم کی سی۔سی۔ٹی۔وی فوٹیج نشر کر کے اسے چھپنے کا موقع دیا گیا اور کئی ایسی چیزیں تھیں جنہیں ابھی آف ریکارڈ رہنا چاہئے تھا انہیں بھی نشر کر نے سے گریز نہ کیا گیا اور یوں کیس طوالت کا باعث بن رہا ہے ۔ صرف اس کیں میں ہی نہیں بلکہ کئی ایسے کیسز میں چند نا عاقبت اندیش رپوٹروں کی رپورٹنگ کی وجہ سے مجرمان فائدہ اٹھا جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انوسٹی گیشن کی جدید ٹیکنالوجی کو اس قدر واضح کر دیا ہے کہ اب جرائم پیشہ لوگ مو قع واردات پر ایسی کوئی بھی چیز لانے سے گریز کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ قانون کے شکنجے میں آسکیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کر نے والے ادارے جدید ٹیکنالوجی کے باوجود بھی ایسی کسی بھی واردات کو ٹریس کر نے میں کامیاب نہیں ہو پاتے ۔
اگر ہم تیزی سے بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے ایسے واقعات کو روکنا چاہتے ہیں تو ضروت اس امر کی ہے کہ ایسے تما م مجرمان کو سر عام پھانسی کی سزا سنائی جائے اور حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا اپنا کردار اداء کرتے ہوئے فی الفور ایسی اطلاع پر بغیر کسی سفارش و سیاسی تعلقات کے ایسے لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کریں اور میڈیا سمیت تما م ادارے اپنا اپنا فرض ادا کرتے ہوئے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسی کسی بھی قسم کی رپورٹنگ سے گریز کریں جو مظلوم کی بجائے ظالم کے حق میں جاتی ہو اور جس کا فائدہ معصوم زینب کے قاتل اٹھائیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ ذوہیب طیب کے کالمز
-
وزیر اعلیٰ پنجاب کی بہترین کارکردگی اور بدرمنیر کی تعیناتی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
دی اوپن کچن: مفاد عامہ کا شاندار پروجیکٹ
منگل 26 اکتوبر 2021
-
محکمہ صحت پنجاب: تباہی کے دہانے پر
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
سیدہجویر رحمہ اللہ اور سہ روزہ عالمی کانفرنس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
جناب وزیر اعظم !اب بھی وقت ہے
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی لائق تحسین کار کردگی !
ہفتہ 2 جنوری 2021
-
انعام غنی: ایک بہترین چوائس
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
ہم نبی محترم ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے؟
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
حافظ ذوہیب طیب کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.