اپنے حصے کا چراغ جلانے والے لوگ

منگل 20 مارچ 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ہمارے معاشرے میں پچھلے کئی سالوں میں جہاں بہت سی چیزیں ہم سے روٹھ گئی ہیں وہاں خوشیاں بھی ناپید ہوتی جارہی تھیں۔ خود خوش رہنے اور دوسروں میں خوشیاں تقسیم کر نے کا جو سلسلہ ہماری روایت ہو تی تھی وہ روایت دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کی جگہ خود مایوس رہنا اور دوسروں میں مایوسی اور نا امیدی تقسیم کر نا ہمارا قومی وطیرہ بن چکا تھا۔

بھلا ہو امید کی دولت تقسیم کر نے والے ان لوگوں کو جو مایو سی اور نا امیدی کے اندھیر دور میں اپنے حصے کا چراغ روشن کئے رکھے ۔ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق لوگوں میں خوشیاں تقسیم کرتے رہے ، ان میںآ سانیاں بانٹتے رہے ، ان کا خیال کرتے رہے جس کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر میرے ملک کا شمار خوشیاں تقسیم کر نے والے لوگوں میں ہونا شروع ہو گیا ہے ۔

(جاری ہے)


اقوام متحدہ کے 2018کے خوشی انڈیکس میں 156ممالک کی فی کس آمدنی،سماجی سپورٹ ، صحت مند زندگی ، سماجی آزادی ،فراخ دلی اور شفافیت جیسے شعبوں کا جائزہ لیا گیا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کا شمار ایشیا کے تما م ممالک کی فہرست میں اول آیا ہے ۔ انسانی مسرت اور خوشی کی عالمی درجہ بندی میں اس سال پاکستان نے بھارت کو اٹھاون درجے پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔

اقوام متحدہ کے جاری کردہ خوشی کے عالمی انڈیکس میں پاکستان 75ویں پوزیشن اور بھارت 133ویں پوزیشن پر آیاہے ۔
قارئین کرام !خوشیاں تقسیم کر نے والے لوگوں کے ممالک میں صف اول میں کھڑے ہونے کا اعزاز ہمیں صرف ایسے لوگوں کی بدولت ہوا ہے جو اپنے مال میں دوسروں کا حق رکھتے ہیں ۔ جو کسی کے دکھ اور درد کو محسوس کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ ایسے کئی ہیرے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو نیکی کے کاموں میں اربوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن اپنا نام بھی ظاہر کر نے کی خواہش نہیں رکھتے ۔


یہی وجہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 60فیصد ایسے غریب اور سفید پوش لوگ ہیں جن کے بچوں کے تعلیمی اخراجات ، علاج و معالجہ اور دیگر ضروری خرچے مخیر حضرات پورا کرتے ہیں ۔ ایسے ہی ایک شخص کا نام گوہر اعجاز ہے جو اپنے والد گرامی شیخ اعجاز احمدکے نام پر ایک ٹرسٹ چلا رہے ہیں اور جس کے تحت گردوں کے مرض میں مبتلا مریضوں کو مفت ڈائیلیسز کی فائیو سٹار سہولیات فراہم کی جارہی ہیں ۔

یہ بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے کہ جب ان کے والد گرامی کو دنیا کی تما م نعمتوں کے اور ماہانہ 50ہزار فیس اداء کر نے کے باوجود بھی ڈائیلیسیزکے لئے علی الصبح خالی پیٹ انتظار کرنے کی وجہ سے جس کرب سے گذرنا پڑتا تھا اور پورا گھر بھی اس اذیت کا شکار ہوتا تھا۔ اسی کرب واذیت کو دیکھتے ہوئے گوہر اعجاز نے ایک ایسا ڈائیلیسز سنٹر بنا نے کا عزم کیا جہاں غریب مریضوں کو ایسی کربناک صورتحال کا سامنا نہ کر نا پڑے ۔

یہاں علاج کی بہترین سہولیات فراہم کی جاسکیں ۔ اللہ نے ان کی نیک نیتی اور سچے جذبے کو دیکھتے ہوئے ان کے خواب کو تعبیر بخشی اور 2006میں صرف 16مشینوں سے شروع ہونے والا سفر اب 50مشینوں تک جا پہنچا ہے ۔ یہاں تین سو غریب مریض زیر علاج ہیں جن کے ماہانہ بنیادوں پر 12ڈائیلیسز کئے جاتے ہیں اور اب تک 50ہزار سے زائد ڈائیلیسز مکمل ہو چکے ہیں ۔ یہاں تعینات عملے اور ڈاکٹروں کی خوش اخلاقی اور پروفیشنل ازم کا یہ حال ہے کہ ڈائیلیسز کرانے والے مریضوں کی زیادہ تر تعداد2012سے زیر علاج ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ ان کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اکثر مریض ڈاکٹروں کے روئیوں ، پرانی مشینوں اور کربناک صورتحال کی وجہ سے چند مہینوں بعد ہی خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں ۔


قارئین محترم !شیخ اعجاز احمد ٹرسٹ کا یہ بھی خاصہ ہے کہ یہ ہر کچھ مہینوں بعد اپنے تما م سٹاف میں جو مخلوق خدا کی اچھے طریقے سے خدمت کر رہے ہیں میں اچھی کار کردگی دکھانے والے لوگوں میں کیش انعامات بھی تقسیم کرتے ہیں جس کی وجہ سے سٹاف میں پہلے سے کئی زیادہ خدمت انسانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس سال سے 100 مستحق طالبعلم جن کا نام میڈیکل کالجوں میں آیا ہوا ور وہ فیس دینے کی سکت نہ رکھتے ہوں ایسے تمام طالبعلموں کی فیس شیخ اعجاز احمد ٹرسٹ ادا ء کیا کرے گا ۔

اس کے علاوہ کئی مفلوک الحال اور بے آسرا لوگوں کے لئے آسانیاں اور خوشیاں تقسیم کر نے کا سہرا بھی گوہر اعجاز کے سر جاتا ہے ۔
قارئین محترم ! اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی کا عمل ضائع نہیں کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ مدینہ ثانی ملک پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنا نے اور اس کے باسیوں میں خوشیاں تقسیم کر نے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں اس کے نتیجے میں جہاں ملک خوشی انڈیکس میں اولین نمبروں پرا ٓیا ہے وہاں ان لوگوں کے کا روبار ، عزت ، دولت اور شہرت میں بھی بے پناہ اضافہ ہو تا ہے ۔

کیا ہی اچھا ہو کہ ہم لوگ بھی گوہر اعجاز جیسے لوگوں کا دست و بازو بنیں اور خوشیاں تقسیم کر نے والے ایک عظیم کام میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیں ۔ امید کی جاسکتی ہے کہ جس کے نتیجے میں 2019کے انڈیکس میں پاکستان کا نام سب سے پہلے ہو ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :