
ڈاکٹر اسرار احمد : اکیسویں صدی کے شاہ نعمت اللہ
منگل 17 اپریل 2018

حافظ ذوہیب طیب
(جاری ہے)
میری ذمہ داری میں ڈاکٹر صاحب کی ٹیلی فون کالز سننا اور ملانا شامل تھا ، اس لئے مجھے انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ان کی زند گی کسی نمو د و نما ئش سے پاک تھی،قرآن اکیڈمی کے ایک کمرے میں رہا ئش پذیر تھے ،ایک اسٹڈی ٹیبل ، صوفہ کم بیڈ اور پرا نا فریج اس کمرے کی کل ملکیت تھا۔آپ کی بے انتہا خو بیوں میں ایک با ت یہ بھی تھی کہ آپ نے اپنے خاندان سے تما م جا ہلی رسو مات کا خا تمہ کیا اور پھر اپنے رفقا ء کار اور تنظیمی سا تھیوں کو بھی ان رسو مات کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دینے کو کہا جس میں آپ کا فی حد تک کامیاب بھی ہو ئے۔جہیز جیسی لعنت کے خاتمے کے لئے آپ نے مو ثر اقدا مات کئے اور مسجد میں نکاح کے لئے لوگوں کو تر غیب دی۔آپ نے اپنی تمام زندگی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ارشادات مبارک کے حکم کے مطابق بسر کی اور لوگوں کو بھی اس کی دعوت دیتے رہے۔ڈاکٹر صاحب کی زندگی اسو ہ حسنہ کا بہترین نمو نہ ہے جس میں قرآن کی محبت کُوٹ کُو ٹ کے بھری تھی۔ڈاکٹر صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ کئی سفید پوش لوگوں کی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے ایسے طریقے سے امداد فر ماتے کہ کسی کو معلوم نہ ہوتا۔ مجھے بھی یہ شرف حاصل ہے کہ زندگی میں سب سے پہلی موٹر سائیکلکی رقم ڈاکٹر صاحب نے اپنی جیب سے دی۔
ڈاکٹر اسرار احمدکی شخصیت اسی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے جنہوں نے اپنی ساری زند گی قال اللہ و قال الر سول ﷺ کی صدائیں لگا تے لگا تے اور لوگوں کو کتاب ہدایت(قرآن حکیم)کی طرف بُلاتے گذار دی۔آپ جب قرآن کی تفسیر بیان کر تے تو مجھ جیسے بہت سے لوگوں کے زنگ آلودہ دل ،خشیت الٰہی سے موم ہو جا تے ،عجب سی پُر کیف سکو نت طاری ہو جا تی ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی پر ورش ایسے دینی گھرا نے اور ماحول میں ہو ئی جہاں اسلام سے محبت اور قرآن حکیم سے شغف معمولات زند گی کا حصہ تھا،اسی گھریلو ماحول اور خاندانی پس منظر کا کما ل تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایم۔اے اسلا میات کر نے کا فیصلہ کیا۔1965ء میں کرا چی یونیورسٹی سے اس امتحان میں اول پو زیش حا صل کر کے گولڈ میڈل حا صل کیااور اس کے بعد قرآن اور اقبال کو گہری نطر سے پڑھنا شروع کیااوران دو اہم علوم کی تحصیل کے لئے جُت گئے اور اسی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے مرکزی انجمن خدام القرآن کی بنیا د رکھی جس کے پلیٹ فام سے قرآنی دروس کا لا متنا ہی سلسلہ شروع کیا ۔جس کا مقصدعوام با لخصوص نو جوانوں کو عر بی زبان اور قرآنی تعلیمات سے روشناس کر انا تھا۔ڈاکٹر صاحب کا انداز علمی اور استدلال انتہائی معقول اور منطقی ہو تا تھا جس کی وجہ سے اللہ جی کے خصوصی کرم کی بدو لت قرآنی دروس میں روز بروز اضافہ ہو تا چلا گیا اورملک عزیز کے طول و عرض میں اس کے ثمرات دیکھنے کو ملے جس کے نتیجے میں ڈاکٹر صاحب نے میڈیکل پر یکٹس کو خیر باد کہہ کر اپنا تمام وقت اس تحریک کو دینا شروع کر دیا اور ساتھ ہی غلبہ دین کے لئے تنظیم اسلامی کا قیام بھی عمل میں لا ئے اور دین حق کو قا ئم کر نے کی جدو جہد کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر اسرار احمد کی نما یا ں خصوصیت قرآن سے وابستگی ہے ،قرآن کی تعلیمات کو عام کر نے میں جو لگن انہوں نے ظا ہر کی وہ کچھ ہی لوگوں کے نصیب میں ہو تی ہے ۔قرآن کا درس دینے میں جو محنت اور تسلسل انہوں نے دکھا یا بر صغیر کی تا ریخ میں سب سے نما یاں نام انہی کاہے ۔ آپ ایک صاحب کردار اور قلندرانہ اوصاف کے انسا ن تھے۔جس چیز کو حق جانا بلا خوف و خطر اس پر ڈٹے رہے،اپنی بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی اور اس کے نتیجے میں آنے والے مصائب اور مشکلا ت کی پرواہ نہیں کی،اور اس کے لئے جو قر با نی دینی پڑی اسے دینے سے گریز نہیں کیا۔ان کی تقا ریر اور خطبا ت میں علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کے اشعار نگینوں کی طرح چمکتے ہیں،ملت اسلامیہ کی شو کتِ رفتہ پر اقبال نے جن جذبات کا اظہا ر کیا اور اسے دوبارہ پا لینے کا جو حسین خواب دیکھا تھااس کے لئے بشا رتیں سنا ئیں،امید کی کر نیں بکھیریں اور سوئے ہوئے لوگوں کو جگا نے کے لئے نغمہ سرا ئی کی،اقبال کے اسی مشن کو ڈاکٹر صاحب آگے لے کر بڑھے اور سچ تو یہ ہے کہ اس کا خوب حق ادا ء کیا۔میرے نزدیک ڈاکٹر صاحب کا شمار اکیسویں صدی کے شاہ نعمت اللہ کے طور پر ہوتا ہے ۔ آپ نے عالم اسلام کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ پورا ہو تا دیکھائی دے رہا ہے اور بالخصوص عالم عرب کے حوالے سے لفظ با لفظ واقعات حقیقت میں تبدیل ہوتے نظرآرہے ہیں جس کا واضح ثبوت حالیہ دنوں میں سعودی ولی عہد کا یہ بیان ہے کہ جو اسرائیل کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور یہی چیز اہل عرب کو لے بیٹھے گی ۔
وفات سے ایک دن پہلے آپ نے جو دعا منگو ا ئی اس میں سوز و کر ب میں لپٹے الفاظ تھے جو دل کی گہرا ئیوں سے نکل کر آنسوؤں کی صورت آپ کی لرزتی زبان سے نکل رہے تھے وہ الفاظ یہ تھے”کُل حمد،کُل شکر،کُل تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں ہدا یت بخشی،اور ہم ہر گز ہدایت یا فتہ نہ ہوتے اگر اللہ ہمیں ہدا یت نہ دیتا۔کبھی بادشاہ پر احسان نہ کر نا کہ تم اس کی خدمت کر رہے ہو ،بلکہ با دشاہ کا احسان مانو کہ اس نے تمہیں اپنی خد مت کے لئے قبول کیا۔اے اللہ!جو ہدا یت تو نے ہمیں بخشی ہے اس پر ہمیں استقا مت نصیب فر ما،اے اللہ!اپنے ہر اس بندے کی مدد فر ما جو تیرے دین کی خدمت کر رہا ہے،خواہ وہ کو ئی بھی ہو اور کہیں بھی ہو۔اے اللہ!ہمیں اپنی پناہ میں رکھ،ہما رے گنا ہوں کو معاف فر ما،ہماری خطا ؤں کو در گزر کر۔اے اللہ!اپنی جناب میں اس طرح حا ضر کر کہ تو ہم سے راضی ہو۔آمین“۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ ذوہیب طیب کے کالمز
-
وزیر اعلیٰ پنجاب کی بہترین کارکردگی اور بدرمنیر کی تعیناتی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
دی اوپن کچن: مفاد عامہ کا شاندار پروجیکٹ
منگل 26 اکتوبر 2021
-
محکمہ صحت پنجاب: تباہی کے دہانے پر
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
سیدہجویر رحمہ اللہ اور سہ روزہ عالمی کانفرنس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
جناب وزیر اعظم !اب بھی وقت ہے
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی لائق تحسین کار کردگی !
ہفتہ 2 جنوری 2021
-
انعام غنی: ایک بہترین چوائس
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
ہم نبی محترم ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے؟
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
حافظ ذوہیب طیب کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.