میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے حصے کی شمع روشن کر جاؤں

پیر 16 مارچ 2020

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بظاہر ہماراجس بد تمیزاور نااہل پولیس اہلکار سے سامنا ہوتا ہے ، اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں کبھی ہم نے اس بارے غور نہیں کیا۔ دیہاتوں سے نکلنے والے یہ نوجوان میٹرک پاس کر کے پولیس میں بھرتی ہوجاتے ہیں اور یوں پھر پوری زندگی اس سسٹم کا حصہ بن کر صبح سے رات اور رات سے صبح تک اپنے فرائض میں اس قدر مصروف ہوجاتے ہیں کہ انہیں ، ان کے لئے بھی وقت نہیں ملتا۔

میٹرک پاس نوجوان کی کسی قسم کی اخلاقی تربیت نہیں ہوتے اور جو محکمے میں ٹریننگ کے دوران ہلکی پھلکی ٹریننگ ہوتی ہے وہ بھی دوران سروس بھول جاتی ہے جس کی بڑی وجہ سخت ڈیوٹی اوقات، گرم اور سرد موسم کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں ، چوراہوں اور تھانوں میں کھڑے ہوکر اپنی ریٹائرمنٹ کے دن گن رہے ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

تھانوں اور پولیس لائنز میں انہیں زندگی گذارنے کے لئے جن مشکل حالات کا سامنا ہوتا ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاتا۔

گندے واش رومز جہاں نہ ٹوٹی ہوتی ہے اور نہ فلش، دسیوں دفعہ ویلڈ ہوئی صدیوں پرانی چار پائی اور مچھروں، مکھیوں اور مختلف حشرات الارض کی موجودگی والا ٹینٹ ،جو اپنی عمر پوری کر کے کئی جگہوں سے بوسیدہ ہو کر پھٹ چکا ہوتا ہے۔ایسے حالات میں ہر 15کی کال پر فوری طور پر پہنچنا اور اپنے فرائض منصبی سر انجام دیتے ہوئے یہ لوگ چڑ چڑے نہ ہوں، ان کے مزاج میں ترشی نہ آئے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ نہ کریں ؟ یہ کیسے ممکن ہے ۔

جن لوگوں کو اوائل عمری سے ہی زندگی گذارنے کے لئے اس قدر سخت ماحول میسر آیا ہو اور پھر دوران ملازمت بھی تقریباََ ان جیسے معاملات سے واسطہ رہے تو پھر ان لوگوں سے ہم یہ امید کریں کہ یہ بہت قابل، احترام کر نے والے اور محبت میں گوندگے ہونگے تو یہ ہماری خام خیالی ہے ۔ مزید ظلم تو یہ ہے کہ یہ جس پوزیشن پر بھرتی ہوتے ہیں تا ریٹائرمنٹ اسی پر براجمان رہتے ہیں جسکی بڑی وجہ ان کی تعلیمی قابلیت ہے اور ماضی میں محکمے کی جانب سے بھی اس کے لئے کوئی واضح پالیسی تشکیل نہ دی گئی ہے ۔


اس اور اس جیسے دوسرے معاملات کو باریک بینی سے سمجھ کر اور ان زیادتیوں کا ازالہ کر نے کے لئے آئی ۔جی پولیس پنجاب کو کوئی واضع حکمت عملی بنا نے کی ضرورت ہے اور اپنی نگرانی میں شعبہ ٹرینگ اور تمام پولیس لائنز میں میں ہی ایک ونگ ایسا تشکیل دینا چاہئے جو چھوٹے ملازمین کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کوئی پروگرام تشکیل دیں اور ان کی قابلیت کی بنا ء پر انہیں آگے ترقی بھی دی جائے۔

بلا شبہ دور حاضر میں شعیب دستگیرنے پنجاب پولیس کو ”عوام دوست“ پولیس فورس بنا نے کے لئے کئی اہم اقدامات کئے ہیں اور سونے پر سہاگہ بالخصوص لاہور پولیس کے چیف ذوالفقار حمید بھی اس بارے کاوشوں میں مصروف عمل ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ ڈی۔آئی۔جی آپریشنز رائے بابر سعید ،ڈی۔آئی۔جی انوسٹی گیشن ڈاکٹرانعام وحید اور ایس۔

ایس۔پی ایڈمن کیپٹن (ر) لیاقت علی ملک جیسے لوگ ایک ٹیم کی مانند پویس اصلاحات کے لئے کاوشوں میں مصروف عمل ہیں۔ کچھ دنوں میں سیکڑوں لوگ بشمول سپاہی سے لیکر سب انسپکٹرز کی ترقیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ثمرات نیچے ٹیم تک جارہے ہیں اور ایک ڈی۔ایس۔پی لیول کا افسر اپنے تئیں لوئر کلاس سے تعلق رکھنے والے پولیس ملازمین کو علم کی شمع سے فیضیاب کروانے میں ممد و معاون ثابت ہو رہا ہے ۔

ڈی۔ایس۔پی عمر فاروق کے مطابق اب تک سیکڑوں ملازمین کو وہ اپنی مدد آپ کے تحت میٹرک، انٹر اور بی۔اے کرواچکے ہیں جبکہ کئی لوگوں کو ماسٹر اور سی۔ایس۔ایس کے امتحانات کی تیاری کے لئے بھی آمادہ کرتے ہیں اور ان کے کہنے پر کئی لوگ اس راہ کے مسافر بنے ہیں ۔
ڈی۔ایس۔پی عمر فاروق بلوچ کی ان کاوشوں کی وجہ سے جہاں پولیس ملازمین کی شعوری سطح بلند ہوئی ہے وہاں انہیں محکمے میں جاری ترقیاتی عمل کی وجہ سے پرموشن بھی ملی ہے جس کی وجہ سے امید کی جا سکتی ہے کہ ان کی محرومیاں ختم ہو جائیں گی ۔

بطور نفسیات اور علم بشریات کے طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میں اس بات کو یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ جب انسان کی محرومیاں، خوبیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں تو پھر اس کے اندر سے تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے اور جب ایک پولیس والا تبدیل ہوتا ہے ، اس کے اندر مثبت تبدیلی آتی ہے تو پھر اس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑتے ہیں اور جس کے نتیجے میں پولیس اور عوام کے درمیان جو بڑھتا ہوا فرق ہے وہ خود اپنی موت مر جاتا ہے اور میرے خیال میں عمر فارق بلوچ جیسے لوگوں نے اس راز کو پالیا ہے جس کی وجہ سے وہ دیوانوں کی طرح اپنے حصے کی شمع جلاتے ہوئے اپنے طور پر پولیس اصلاحات میں مصروف عمل ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :