ایسی ہوتی ہے زندہ قوم

ہفتہ 22 دسمبر 2018

 Hammad Hassan

حماد حسن

دوسری جنگ عظیم اختتام کو پہنچی تو زمین کے سینے پر ٹوٹے اسلحے اور لاشوں کے انبار پڑے تھے۔ جس پر بھوک اور غربت اپنی تمام سفاکی کے ساتھ ناچ رہی تھی۔ تمام متاثرہ ملکوں کے پاس صرف دو آپشن تھے ایک یہ کہ بڑھتے ہوئے مہیب موت کے قدموں میں اپنی زندگیاں بچھا دیں یا موت کے خوف پر زندگی کی عمارت کھڑی کر دیں۔آپ جنوبی کوریا کی مثال لیں اس نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا یعنی موت کے گریبان پر ہاتھ ڈالا اور زندگی کو تھپکی دی۔

جنوبی کوریا کو احساس تھا کہ ملک کی ساری زمین پتھریلی اور پہاڑی ہے۔ تیل اور معدنیات سے زمین اور پہاڑ کے پیٹ خالی ہیں۔اس لئے اس نے اپنے فطری اثاثے کاریگری پر توجہ مرکوز کردی۔ جنوبی کوریا ہنرمندوں یعنی ترکھانوں اور لوہاروں کی قوم تھی اور یہی وہ واحد اثاثہ تھا،جس سے اُسے اُمیدیں بھی وابستہ تھیں اور جسے وہ عالمی مارکیٹ میں بیچ بھی سکتا تھا۔

(جاری ہے)

جنوبی کوریا نے سب سے پہلے انہیں ترکھانوں اور لوہاروں کو پورے ملک سے اکٹھا کیا اور چھوٹی چھوٹی کنسٹرکشن کمپنیاں بنا کر انہیں کام پر لگا دیا،اس ذریعے سے غریب ہنرمندوں کو روزگار بھی ملا اور ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر بھی چل پڑا لیکن اہم ٹارگٹ تجربے کا حصول تھا۔ چند سال کے اندر اندر یہ کنسٹرکشن کمپنیاں تجربے کی انتہا کو چھو گئیں،اب انہیں کمپنیوں کے انجینئر اور کاریگر کسی لق و دق صحرا کے کنارے کھڑے کر دئیے جاتے تو وہ ایک چھوٹے سے کاغذ پر لمحوں میں نقشہ بنا کر کام میں لگ جاتے اور پھر بگولے اُڑاتے صحرا کو شاندار ہوٹلوں، پارکوں،ہسپتالوں،یونیورسٹیوں،پلوں اور روڈوں سے مزین شہر میں الہ دینی چراغ کی مانند تبدیل کر کے رکھ دیتے، محنت،تجربہ اور کام دنیا کی نظروں میں آیا،تو تمام ممالک جنوبی کوریا کے دروازے پر دستک دینے لگے۔

چھوٹی چھوٹی کنسٹرکشن کمپنیوں کو باہم ملا کر بڑی بڑی کنسٹرکشن کمپنیاں بنائی گئیں۔اور کوریائی کاریگر دنیا کی طرف نکل پڑے۔ فطرت کا قانون ہے کہ اخلاص ہو تو برکت بہت آتی ہے۔ساٹھ کے عشرے کے آتے آتے دنیا چونک پڑی کہ عرب ممالک کے سلگتے ہوئے ریگزاروں کے نیچے تیل کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ اس انکشاف کے ساتھ ہی عرب سربراہوں کی گردنیں جنوبی کوریا کی جانب مڑیں تو کوریائی کاریگر یاجوج ماجوج کی مانند عرب صحراؤں میں پھیل گئے۔

دولت کی اس فراوانی سے جنوبی کوریا اپنی محنت کا وافر حصہ وصول کرتا گیا۔ یہاں پر جنوبی کوریا کے وژن نے ایک اور انگڑائی لی اور پیسے کو صنعت (انڈسڑیلائزیشن) کی طرف موڑ دیا۔اس وقت جنوبی کوریا کا پچاس فیصد جی ڈی پی صرف ایکسپورٹ پر ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ صرف 2016 ء میں جنوبی کوریا نے 495 بلین ڈالرز کا مال دنیا کو بیجا۔ اور وہ بھی کن ممالک کو؟ چین اس وقت جنوبی کوریا کا سب سے بڑا ایکسپورٹ پارٹنر ہے،اس کے بعد امریکہ،جاپان،سنگاپور،اور ہانگ کانگ جیسے ممالک کا نمبر آتا ہے جو اپنے بھاری چیک بک لئے کوریا کے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں، اور الیکٹرک مشینری، گاڑیاں،شپس،سٹیل اور کنسٹرکشن مشینری کے سودوں کے لئے بھاؤ تاؤ بھی کرتے ہیں اور خوشامد بھی، اس وقت اگر انڈسٹرئلائزیشن کے ٹریک پر برق رفتار چین کے ساتھ کوئی واحد حریف پوری توانائی کے ساتھ دوڑ رہا ہے تو وہ صرف جنوبی کوریا ہے، ورنہ باقی ممالک تو کب کے اس ٹریک کے کناروں پر بیٹھ کر ہانپ رہے ہیں۔

آپ گنتے گنتے تھک جائیں گے کہ دو ہزار سولہ سے دو ہزار بیس تک جنوبی کوریا کا متوقع جی ڈی پی ڈیڑھ ہزار بلین ڈالرز ہے۔ اب میں یہ سوال قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ پاکستان کے پاس وسائل کی بہتات ہے، چترال سے وزیرستان تک پہاڑ انتہائی قیمتی ذخائر سے بھرے پڑے ہیں، پنجاب کے میدان زرعی حوالے سے دنیا کی بہترین زمینوں میں سے ایک ہیں، بلوچستان اور سندھ کے ریگستانوں اور پہاڑوں میں قدرت نے ہمارے لئے کیا کیا خزانے بھر دئیے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ان انتہائی قیمتی وسائل کا وہ فائدہ اُٹھایا ہے جو جنوبی کوریا نے اپنے بے قیمت وسائل،ترکھانوں اور لوہاروں کا اُٹھایا، اگر جواب نفی میں ہے تو مجرم کون ہے؟اور ھاں صرف ملی نغموں کی حد تک تو یقینا ھم زندہ قوم ہیں لیکن کیا حقیقت میں بھی ایسا ھی ھے یا ھم وہ گدھ بن چکے ہیں جو ایک دوسرے کی لاشوں پر جھپٹتے اور بد بودار بوٹیاں نوچنے کو اپنا ھنر بھی سمجھتے ہیں اور کمال بھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :