ہمارا معاشرہ اور خواجہ سرا

منگل 15 جون 2021

Hamza Bin Shakil

حمزہ بن شکیل

اصطلاع میں "ٹرانسجینڈر" یا "خواجہ سرا" عام طور پر ان افراد کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جو پیدائش کے وقت تفویض کردہ جنسی تعلقات کی نشاندہی نہیں کر سکتے یا جن کی جنس شناخت کے ساتھ مماثل نہیں رکھتی۔
خواجہ سرا اکثر اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں امتیازی سلوک کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کو اپنے اہل خانہ کی جانب سے بھی مساوی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کے نہایت ہی تکلیف کا باعث بنتا ہے۔

ظلم کی انتہا دیکھیں کہ اکثر اوقات انھیں ان کے رشتہ دار اور عزیز و اقارب بھی اپنا کہنے سے انکار کرتے ہوے گھروں سے بے دخل کر دیتے ہیں۔
ان افراد کو معاشرے میں اپنا نمایاں مقام بنانے کے لیے بے وجہ کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔

(جاری ہے)

ناکامیوں اور لوگوں کے تلخ رویوں کی وجہ سے ان کی موجود صلاحیتیں دبتی چلی جاتی ہیں۔ یہ افراد اپنی زندگی گزارنے کے لیے مختلف پیشے اپناتے ہیں جیسے شادی بیاہ کے پروگرامز میں ڈانس کرنا ، گلیوں بازاروں میں بھیک مانگنا اور کچھ تو باحالت مجبوری جسم فروشی کے گنوانے فعل کی طرف لگ جاتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ انہیں با عزت طریقے سے رزق کمانے نہیں دیتے۔ یہ رویہ ان کی ساری خوشیوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے اور ان کو اندر سے خالی کر دیتا ہے۔
یہ زیادتی بہت سارے خواجہ سراوں کے لئے شدید پریشانی اور ذہنی اذیت کا سبب بنتی ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر ان حقائق کا سامنا کرتے کرتے منشیات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں یا خود کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد کو تعصب اور ذہنی صحت سے متعلق مسائل کا سامنا کرنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
انسانوں میں ساری تفریق خود انسان کی پیدا کردہ ہے۔ اللہ پاک کے آگے سب انسان برابر ہیں اگر کوئی بلند درجہ رکھتا بھی ہے تو اپنے نیک اعمال کی وجہ سے۔ خواجہ سرا بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور ان کے حقوق کی بھی پاسداری کی جانی چاہیے۔

موجودہ حکومت کو چاہیے کہ ان کو روزگار کے مواقع فراہم کرے، ان کے لئے ووکیشنل ادارے بناۓ جائیں جہاں یہ کوئی اچھا ہنر حاصل کر سکیں۔ ساتھ ہی ایسے لوگ جو ان کو جگہ جگہ پر ہراساں کرتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ان کے خلاف سخت سلوک روا رکھا جائے۔
ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے اندر آگاہی لاتے ہوئے اس بات کا احساس دلائیں کہ یہ افراد بھی معاشرے کا حصہ ہیں اور انہیں تسلیم کیا جائے۔ پبلک اور دوسرے مقامات پر ان کا مزاق نہ بنایا جائے، ان کو عام لوگوں کی طرح تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ یہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :