اپنے بچوں کو وقت دیں....

ہفتہ 8 جنوری 2022

Hamza Bin Shakil

حمزہ بن شکیل

اگر ہم ماضی میں نظر دوڑایں تو ایک زمانہ ایسا تھا کہ مائیں دودھ پیتے بچے کو بہلانے کے لیے لوری سنایا کرتی تھیں، بڑے بزرگ پریوں، شہزادیوں اور بادشاہوں کی چھوٹی چھوٹی دلچسپ کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ پیار بھرے انداز میں بچوں کو کبھی چاند کبھی پھول کبھی تارے نیز طرح طرح کے خوبصورت ناموں سے پکارا کرتے تھے کہ سننے والے کا بھی دل واری ہو جاتا تھا اور اس طرح بچوں کو والدین کی محبت کا احساس ہوتا تھا۔

اپنائیت بڑھتی تھی، عزت و احترام میں اضافہ ہوتا تھا اور باتوں باتوں میں بچے بہت سی نئی چیزیں سیکھ جاتے تھے پر دور حاضر کے بچّے کاغذی کشتیوں کو پانی میں بہانے، کھلونوں سے دِل بہلانے، تتلیوں کے پیچھے دوڑنے یا ریت کے گھروندے بنانے والے نہیں اور نہ ہی یہ پریوں سے متعلق گھڑی گئی داستانوں اور قصوں پر یقین کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب بیشتر والدین اپنے بچوں کو مناسب وقت نہیں دیتے اور اپنی ذاتی مصروفیت میں مگن ہو کر انھیں ایسی عادتوں پر لگا دیتے ہیں جو انھیں عمر بھر کی معذوری میں مبتلا کر دیتی ہیں۔

ادھر بچے نے رونا شروع نہیں کیا اور ادھر موبائل فون ان کے ہاتھ میں تھما دیا گیا۔ یہ بات یاد رکھیں شاید اس وقت تو آپ یوں اپنی جان چھڑا کر پُرسکون طریقے سے اپنے کام میں‌ مگن ہو جائیں گے مگر آپ کا بچہ ضدی اور موبائل فون کے استعمال کا عادی بن جائے گا جس کی وجہ سے اسے بہت سے نفسیاتی، ذہنی، جسمانی اور سماجی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔


ایسے ماحول میں پلنے والا بچہ جب ذرا بڑا ہوتا ہے تو والدین کے ساتھ اس کا تعلق روایتی نہیں رہتا۔ انس، اپنائیت اور محبت کا وہ عالم نہیں ہوتا جس کے نظارے ہمارے بچپن میں دیکھنے کو ملتے تھے۔
موبائل فون یقینا آج کل کے دور کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے لیکن اصل مسئلہ اس کے استعمال کا ہے۔ کسی شے کے استعمال کا غلط یا درست طریقہ ہی اسے مفید یا مضر بناتا ہے۔ آپ بے شک جدید دور کی تمام ایجادات اور سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں لیکن خدارا بچوں کو ان کا فطری ماحول فراہم کریں اور ان کی طرف سے غافل نہ رہیں۔ پیار اور توجہ دے کر آپ اپنی اولاد کو نیک، صالح، اپنا فرماں بردار، اور معاشرے کے لیے بھی مفید اور کارآمد بنا سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :