ان پڑھ جاہل

پیر 13 اپریل 2020

Hamza Latif

حمزہ لطیف

پاکستانی قوم کا ایک بڑا حصہ ان پڑھ ہے۔یہاں کی شرح خواندگی 70 فیصد ہے۔اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کو محض
اپنا نام لکھنا آتا ہے۔پاکستان کے 30 فیصد لوگ وہ ہیں جن کو نام بھی لکھنا نہیں آتا اور نہ ان کا پڑھنے لکھنے سے کوئی تعلق ہے نہ ان کو آتا ہے۔اس کے بعد اس میں وہ لوگ آتے ہیں جو پڑھے لکھے ہیں۔جو صرف ڈگری لینے کے لئے پڑھتے ہیں ان کی پڑھائی کا ان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا اس کی مثال ہم ایسے لے سکتے ہیں کہ جسے ہی پاکستان میں بھی کورنا کی وبا نے جنم لیا اور تیزی سے پھیلنے لگی تو اس کے پیش نظر پاکستان میں لاک ڈاؤن لگا دیا گیا۔

ہم نے چونکہ اس وبا کو سنجیدگی سے نہیں لیا اس کا مذاق اُڑانے لگے اور طرح طرح کی حرکتیں کرنے لگے اس میں ہمارے پڑھے لکھے طبقے کی ذمہ داری تھی کہ ان کو سمجھائے جو یہ کام کر رہے ہیں مگر ہمارے پڑھے لکھے طبقے نے اس کے برعکس کام کیا۔

(جاری ہے)

یہاں میں ان کو آکے پڑھا لکھا جاہل کہوں گا کیوں کے تعلیم کا جو فائدہ ہوتا ہے وہ ان میں نظر نہ آیا۔اس کے بعد ان کو کہا گیا کہ سب سماجی فاصلہ رکھیں کیوں کہ یہ وبا ہے ایک سے دوسرے کو لگتی ہے۔

تو اس پر لوگوں کا بازاروں میں رش لگ گیا، ایک دوسرے کے گھر دعوتیں ہو رہی ہیں اور حکومت نے جو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو کہا ہے اس کی سنجیدہ نہیں لیا جا رہا ہے۔اس میں ذیادہ تر لوگ سوشل میڈیا پر من گھڑت خبریں پھیلاتے ہیں اور اس سے مزید خوف پھیلا رہے ہیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے علاج بھی بتا رہے ہیں۔
ہماری نوجوان نسل جو کسی بھی قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ، اب تو وہ بالکل فارغ ہیں ان کوچاہیے کہ اس وقت کو اچھے سے استعمال کریں۔

جو ان میں خامیاں ہیں ان کو فارغ وقت ملا ہے اس میں اسکو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔اس میں کتابیں پڑھیں، خود کو جاننے کی کوشش کریں اس میں کوئی نہ کوئی نیا ہنر سیکھ سکتے ہیں۔
آج کل دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں نے فری آن لائن کورسز کا اجراء کیا، ہمیں چاہیے کہ اس سے فائدہ اٹھا ئیں اور اگر حکومت کوئی بات کر رہی ہے تو اس میں ہمارا ہی فایدہ ہے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :