خادم حسین رضوی

پیر 23 نومبر 2020

Hamza Latif

حمزہ لطیف

خادم رضوی کا انتقال 20 نومبر 2020 کو ہوا جو کہ ان کا دو روز فیض آباد کے دھرنے بعد کی حالت پر ہوا وہ دھرنے میں بھی بیمار تھے اور طویل عرصے سے  ۔ رضوی صاحب بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک  خطیب تھی جو کی عموماً ایک امن پسندمسلک کی طور پر یاد کیا جاتا ہے ۔ رضوی  صاحب کی تحریک کے بعد یہ تاثر یکسر تبدیل ہوتے ہوئے نظر آتا ہے۔

رضوی صاحب کے اس موقف رکھنے والے سامنے آتے ہیں ۔ایک وہ جو کہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مسلمان امت کو ایک نیا جزبہ بخشا ہے اور ایک آواز دی جو کہ ظالم کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر حق کی بات کہتے ہیں اور دوسری رائے یہ پائی جا رہی ہے کہ وہ ایک امن پسند مسلک کو شدت پسندی کی طرف کے گئے ہیں ۔
اور دوسری رائے یہ ہے کہ انہوں نے امت کو ایک کردیا ہے جس کہ یہ کہ ان کی وفات پر ہر ایک منسلک سے ان کے حق میں بیان آئے ہیں اور ان سب کا کہنا تھا کہ امت مسلمہ ایک نڈر آواز سے محروم ہو گیا ہے ۔

(جاری ہے)


رضوی صاحب اور پاکستان تحریک لبیک کی تاریخ اور شہرت زیادہ پرانی نہیں ان کی شہرت ممتاز قادری کو پھانسی ، اسیہ بی بی ، اور ناموس رسالت قانون اور اب فرانس کے خلاف مظاہرے اور دھرنوں کے بعد سامنے آئی ۔
اور پاکستان کی اقلیتوں کے خلاف آواز کی وجہ سے ان کو عوام میں مقبولیت اور ان کا نام زاد عام ہوا ۔
یہ ایک تحریک تھی جو مزہبی شدت پسند کے بعد سامنے آئی اوراوردیکھتے ہی دیکھتے ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہوتے ہوئے  دیکھائی دی ۔


اس بات کا تعجب پایا جاتا ہےکہ پاکستان کی ایلکشن کمیشن نے کیونکر اس طرح کی شدت پسند جماعت کو رجسٹرڈ کیا اور اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے یہ پاکستان کی پانچویں بڑی جماعت وٹونں کے لحاظ سے سامنے آئی اور اس نے تقریباً کوئی 22 لاکھ کے قریب ووٹ لئے جو کہ پہلی بار لڑنے والی جماعت کے لئے بہت زیادہ تھے اور انہوں پنجاب میں ہر حلقے اپنے امیدوار کھڑے کیے۔

۔
فیض آباد دھرنے سے شہرت پانے والی اس جماعت جو کہ اب قومی سالمیت کے لئے کا ایک خطرہ ثابت ہورہی تھی اورریاست میں ایک ادارہ ان کے ساتھ  جم کر کھڑا رہا اور ان پر طاقت استعمال کرنے سے گریز کیا اور نتیجتاً  حکومت ان کے سامنے  ہار مانتے نظر آئی یہاں حکومت کی زمہ داری تھی کہ وہ کو ریاست کا بتائے کہ ریاست ان کے خلاف کیا ایکشن کے سکتی اور ان کو ایک کاؤنٹر رائے دے سکتی تھی مگر ریاست کمزور نظر آئی  اور اس طرح ریاست کے ایک وزیر کے استعفے نے ان کو مزید طاقت بخشی اس کے بعد آسیہ بی بی کے کیس پر یہ دوہفتے فیض آباد جو یرغمال بنا کر بیٹھے ریاست کمزور نظر آئی اس کے بعد ریاست نے اسکو ختم کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام نظر آئی اس کی تازہ مثال یہ ہے اس سال ہونے والا فیض آباد دھرنا ہے جو ایک ریلی کی صورت میں شروع ہو کر ایک دو دن کے دھرنے اور اسلام آباد کو دوبار پرغمال بنانے کی صورت میں ختم ہوا اور یہ رضوی صاحب کی آخری ریلی اور دھرنا تھا  ۔


اور اسکے بعد ان کے جنازے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اپنا نظریہ کیسے لوگوں میں پیوست کر گئے اور تقریبا 5لاھ کے قریب لوگ ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا بیانیہ کتنے لوگوں کے اپنا لیا ہے اور کتنے لوگ اس سے عقیدت رکھتے ہیں اور شدت میں اضافہ ہوا اس کے اس کے بعد ان کے بیٹے سعد رضوی نے کمان سنبھالی ہے اور انہوں بھی کہاکہ وہ اپنے والد کی  طرح ہے ان کی بیانیہ کی حفاظت کرینگے اور یہ وہ بیٹے ہیں جو کہ ان ہی مدرسے میں آخری سال کے طالب علم ہے اور آخری ریلی انہوں نے کی اور جماعت کے نئے امیر ہیں اور اب وہ 2مہینے حکومت اور ان کی جماعت کو دیکھے گے اور ااس کے بعد وہ اپنے سلیکشن کو ثابت کرنے کے لئے وہ دوبارہ آسلام آباد کا رخ کر سکتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ سعد رضوی والد کے مشن کو جاری رکھیں گے ۔

اور اب اس بار حکومت کے لئے اپنی رٹ قائم کرنا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ اس بار ان میں مزید غم و غصہ ہو گا اور سعد رضوی اپنا لوہا منوانے کی پوری کوشش کرے گا جو ریاست کو مزید مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
ہر مسلمان کا  محمد کا آخری نبی ہونے پر یقین کامل ہے ۔
اور دوسری صاحب کیا چھوڑ کے جارہے ہیں
ان کے بعد ایک 15سالہ لڑکے نے ایک احمدی ڈاکٹر کا قتل کیا اور اس کے ساتھ ساتھ تین اور لوگوں کو گولی ماردی ۔


ان کی طرف سے قوم میں غصہ ، عدم برداشت ، دوسر مزاہب کے لئے نفرت اور مزہبی شدت پسندی میں افافہ ہوگا اور ایک مزاہب کے لوگ دوسرے کے خلاف مرنے مرانے پر اتر سکتے ہیں اور انسانیت کو خطرات لاحق اور جنونیت  حاوی ہوگی ۔اورتنگ نظری اور اسلام کے نام کو استعمال کر کے لوگ آنے سیاسی مفادات حاصل کرینگے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اب انہوں نے ایک طرح سے دوسرے لوگوں کو بھی راہ فراہم کر دیا ہے کہ کوئی بھی آسکتا ہے اور ملک کے دار الحکومت کو یرغمال بنا سکتا ہے اور کوئی اپنے سیاست کو چمکا سکتا ہے اور اس کے لئے حکومت چائیے کہ آں ایک ایسا ادارہ بنائے جو کہ اسلام کا اعتدال والا بیانیہ پیش کریں تا کہ  دوسرے قوموں ،مزاہب اور ہم سے مختلف لوگ آزادی سے سانس لے سکیں اگر ایسا نہ ہوا تو اس میں نقصان جس کا نقصان سراسر آسلام اور پاکستان کو ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :