زندگی کیا ہے؟در حقیقت ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔زندگی بظاہر رنگینیوں ،خوشیوں ،شادمانیوں اور امنگوں سے لبریزنظر آتی ہے ۔ان خوشیوں میں نغماتی آہنگ اور سرسنگیت نظر آتے ہیں ۔ حضرت ِانسان پوری دل جمعی سے ان نغموں کی زمزمہ پردازی میں مست دکھائی دیتا ہے ۔ زندگی حضرت آدم کے قیامِ جنت سے تاحال رنگینیوں ، رنجیدگیوں ، مسکراہٹوں اورسنجیدگیوں کے تضادات پر محیط ہے۔
زندگی کے ہر گوشے میں امیدوں ، حسرتوں ،امنگوں اور ترنگوں بھرے نغمات ہماری سماعتوں سے ٹکراتے رہتے ہیں ۔ بھولی بھالی انسانی نفسیات ہر نئے موڑ پر ان مدھر سروں کے جادو کا شکار ہو تی رہتی ہے ۔مگر بزبانِ شاعر اس تصویر کا دوسرا رخ در حقیقت زندگی کا حقیقی رُخ ہے:
حسرتوں کی لاش پر ماتم کناں ہے زندگی
درد کی اک چیخ ہے ، نغمہ کہاں ہے زندگی
ہر گھڑی ہے حادثوں کا ایک نیا ہی سلسلہ
لڑکھڑاتی خواہشوں کا کارواں ہے زندگی
زندگی ابتداہی سے حسرتوں اور ارمانوں کا ماتم کر رہی ہے ۔
(جاری ہے)
سراندیپ کے پہاڑوں پر آدم کی اشک ریزی اور جدہ میں اماں حوا کہ گریہ زاری خوشیوں کے نغموں کی پر سوز نغمگی کا واضح ثبوت ہے گویا انسانی تاریخ آغاز ہی سے کسی مسرور نغمے کے بجائے در د کی چیخوں سے لبریز نظر آتی ہے ۔حضرت آدم سے حضرت ایوب ، حضرت ابراہیم و اسماعیل ،حضرت یعقوب ویوسف کی قربانیوں کے قصص ، حضرت ہاجرہ کی صفا مروا کی تنہائیوں میں معصوم جان کے لیے پانی کی طلب میں گونجتی آواز، ہجرت مدینہ کا المیہ یاواقعہ کربلا کا مرثیہ ،سب میں درد و الم کی دل سوز صدائیں سنائی دیتی ہیں ۔
اِدھربرصغیر کی تاریخ میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے ۱۹۴۷ء تک نوے برسوں کے سفرمیں چھپی لہورنگ کہانیاں اور ہجرت کے دل سوز واقعات، جہاں دیکھیں انسانی زندگی میں در د و الم کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔
آج کاجدید دور ، جس میں ہزارہا سہولتیں موجود ہیں مگرجا بجا خوشیوں اور شادمانیوں کے ناعاقبت اندیش طبل بجتے سنائی دیتے ہیں۔ پھیکی مسکراہٹوں اور کھوکھلے قہقہوں کی قوالیوں کا شور سنائی دیتا ہے ۔
ان سب کے پیچھے نسل آدم کی بے بسی کی تصویر تڑپتی دکھائی دیتی ہے ۔موجودہ ترقی یافتہ دور میں مظلوم انسانوں کی تڑ پتی لاشوں،روتی ماؤں کی زخمی آرزووٴں اور معصوم بچوں کی ننھی سسکیوں سے بھری زندگی کی درد ناک کہانیاں قدم قدم پر اس بات کاثبوت فراہم کرتی ہیں کہ
درد کی اک چیخ ہے نغمہ کہاں ہے زندگی
زندگی کے ہر موڑ پر ہونے والے حادثات اس امر کے شاہد ہیں کہ زندگی نغمہ و شادمانی کا نام نہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ درد و غم کی آئینہ داری ہے ۔
اس بستی میں بسنے والے انسان بظاہر چلتے پھرتے ، کھاتے پیتے ، ہنستے مسکراتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی پھیکی مسکراہٹیں زندگی کی درد بھری ہزاروں داستانوں کا ایک گھمبیر دفتر ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دنیا کے ہر شخص کی زندگی در حقیقت ایک درد کہانی ہے تاہم درد کی نوعیت الگ الگ ہے ۔ البتہ ان تمام تر بناوٹی اور مصنوعی کھوکھلے قہقہوں کے پس منظر میں سسکیوں، آہوں اور درد سے لبریز چیخوں کا شور سنائی دیتا ہے ۔
انسانی بربریت کی تاریخ سے دیوارِ چین کی کہانی پڑھیے ،اہرامِ مصر کی تعمیر میں مزدوروں کے جلتے لہو اور سلگتے پسینے کی اڑتی بھاپ دیکھیے ۔اکبری دور کی انار کلی کی بے بس سسکیوں کی آوازیں سنیے۔ دقیانوسی اور نادر شاہی دور کا مشاہدہ کیجئے ۔تاج برطانیہ ،نو آبادیاتی سامراج اور ۱۸۵۷ء کے غدر کی کہا نی پڑھیے۔ مغلیہ خاندان کے زوال کے وقت چادر چاردیواری کی پامالی اور التجا بھری چیخوں کی صدا سنیے۔
دلی اور بغداد کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے ۔ چنگیز خان، ہلاکو خان اورہٹلر سے نریندر مودی تک انسانیت کے دشمنوں کے قصے پڑھیے۔ تقسیمِ برصغیر کے موقع پر ہجرت زدہ ماوٴں، بہنوں اور بیٹیوں کی مظلومیت کا سفر دیکھیے۔ معصوم بچوں کے بہتے لہو اور تڑپتے لاشوں کی صدائیں سنیے ۔زندگی کے ہر روپ ،ہر موڑ اور ہرقدم پر درد کی ہزار ہاچیخیں سنائی دیں گی۔
زندگی کا ہر لمحہ درد وغم کی تصویر لگے گا ۔ فیض نے کیا خوب کہا تھا:
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
ہمار ادکھ ،ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری دنیا میں خوشیوں کے نغموں کا فقدان ہوتا جا رہا ہے۔ہمارا معاشرہ درد و غم کی کہانیوں اور چیخوں سے بھرا جنگل بنتا جارہا ہے ۔ ہماری زندگیاں اندوہ ناک حادثوں اور ہنگاموں کی زد میں ہیں ۔
آئے دن نت نئے واقعات، حادثات اور سانحات ،دہشت گردی اور دھماکوں کی نذر ہونے والے مظلوم انسانوں کے تڑپتے لاشے چیخ چیخ کر،چلا چلاکر اربابِ اختیار کی بے حسی سے اپیل کر رہے ہیں، اِس حسرت کے ساتھ کہ ہے کوئی مسیحا جو نت لٹتی، مرتی، تڑپتی اورسسکتی انسانیت کے درد کا مداواکر سکے ، ہے کوئی ایسا سائبان جہاں امن اور سلامتی کی ٹھنڈی چھاؤں میسر ہو ،ہے کوئی ایسی پناہ گاہ جہاں چھپ کر زندگی کے دن پورے کیے جاسکیں۔ بات لمبی ہورہی ہے ۔ کتنا صادق آتا ہے قصہٴ زندگی پر شاعر کا یہ کلام:
حسرتوں کی لاش پر ماتم کناں ہے زندگی
درد کی اک چیخ ہے ، نغمہ کہاں ہے زندگی
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو…………… اللہ نگہبان
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔