حکومت ،عدالت اور فوج

جمعرات 23 جنوری 2020

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

جیومیٹری کی تعریف کی جائے تو یہ لفظ یونانی لفظ جیو اور میٹرو سے مل کر بنا ہے۔ جیو کے معنی زمین اور میٹرو کا مطلب پیمائش کرنا ہے جیومیٹری کی ابتدائی اشکال تین ہیں ۔پہلی شکل خط مستقیم ہے ،جسے سیدھے خط کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسری شکل زاویہ ہے۔ جب دو غیر متوازی خطوط کسی ایک نقطہ پر ملتے یا ٹکراتے ہیں تو زاویہ بنتاہے۔ تیسری بنیادی شکل مثلث ہے، جو تین خطوط کے باہم متصل ہونے پربنتی ہے۔


زمینی تقسیم ہو یا زمینی حقائق جیومیٹریکل اشکال کی کئی شکلیں بنتی ہیں اور اپنی انتہائی صورت میں گول دائرہ کی شکل میں ڈھل جاتی ہیں۔ یوں تقسیم در تقسیم زمین گول نظر آتی ہے۔اردو کے معروف سفر نامہ نگار ابن انشا نے ’ ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں‘ دنیا کی سیر کا پروگرام بنایااور سند جاری کر دی کہ ’ دنیا گول ہے‘ ۔

(جاری ہے)

جیومیٹریکل حقائق کے تناظر میں پاکستان کے حالیہ حالات جیومیٹری کی پہلی تین اشکال سے متصل دکھا ئی دیتے ہیں ۔

جیومیٹریکل انداز میں دیکھا جائے توحکومت ،فوج اور عدالت اگر ایک پیج پر ہوں تو اسے جیومیٹری کی زبان میں خط مستقیم، جب کہ عربی زبا ن میں اس عمل کو صراط مستقیم کہیں گے۔ خط مستقیم سیدھی راہوں کا ادراک ہے، خوبصورت رشتوں اورخوشگوار تعلقات کی علامت ہے ،مشکلات اور رکاوٹوں سے پاک راستہ ہے لہٰذا حکومت فوج اور عدالت ا گرایک ہی سمت رواں دواں رہیں توریاستیں مشکلات اور رکاوٹوں سے محفوظ ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں رہتی ہیں۔


 جیومیٹری کی دوسری شکل زاویہ ہے ،جب دو خطوط مستقیم باہم غیر متوازی ہو جائیں توآ خرش کسی نقطے پر ٹکرا جاتے ہیں بعینہ کسی ریاست میں ،جب حکومت اور فوج باہم ٹکرا جائیں ، فوج اور عدالت ٹکرا جائیں یا عدالت اور حکومت ٹکرا جائیں تو سیاسی و صحافتی، ملکی و قومی زاویہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ان حالات میں ہر ذی شعور و بے شعور کوئی نہ کوئی زاویہ پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔

کوئی حادہ زاویہ میں بات کرتا ہے ، کوئی قائمہ زاویہ میں تبصرہ کرتا ہے تو کوئی منفرجہ زاویہ میں بڑھک دے مارتا ہے۔ یوں ’ جتنے منھ اتنی باتیں‘ شروع ہو جاتی ہیں۔ بھانت بھانت کے زاویے دیکھنے سننے کو ملتے ہیں،جن کے زیرِ اثر غلط فہمیا ں پیدا ہوجاتی ہیں کبھی تصادم تو کبھی صلح جوئی کا کوئی زاویہ اُبھرتا ہے مگر اضطراب ہر صورت پیدا ہوتا ہے۔

ہر بندے کا فنگر پرنٹ ،جس طرح منفرد ہوتا ہے بندے بندے کا زاویہ ٴ نظر بھی الگ الگ ہوتا ہے ۔ یہ زاویے ، جب حکومت ،عدالت اور فوج کی سماعتوں اور فکروں سے ٹکراتے ہیں تو اداروں کے مابین تصادم کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔
 جیومیٹری کی تیسری شکل مثلث ہے۔ یہ تین خطوط مستقیم سے بنتی ہے ۔کسی بھی ملک کی تشکیل و ترتیب مثلث کی ترتیب پرقائم ہوتی ہے لیکن اس مثلث کا مساوی الاضلاع ہونا ضروری عمل ہے ۔

اگر مثلث مختلف الا ضلاع اور مساوی الساقین ہوگی تو نظامِ حکومت غیر مستحکم اور متزلزل ہو جائے گا ۔کسی مملکت کی انتظامی تکون کے تینوں خطوط حکومت، فوج اور عدالت باہم متوازن ہوں توملک کی مضبوطی اور پختگی کو دنیا کی کوئی طاقت ہلا نہیں سکتی ۔کسی بھی ملک کے معتدل نظام کے لیے انتظامی مثلث کے تینوں خطوط کا سیدھا اور باہم متوازن ہونا ناگزیر ہے کیوں کہ انتظامی تکون کے باہمی توازن سے بے چینی ، انارکی اور داخلی انتشار ختم ہو جاتے ہیں ۔


المیہ یہ ہے کہ ملک میں کچھ گروہ مختلف الا ضلا ع مثلث کے مزاج کے ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش تینوں اداروں کو مختلف مقامات پر رکھنے کی ہوتی ہے ۔وہ صریح غلطی پر ہوتے ہیں۔اسی طرح کئی ناعاقبت اندیش مثلث مساوی الساقین کی طرح کوئی سے دو اضلاع کو برابر اور تیسرے کو چھوٹا یا بڑا دیکھنا پسند کرتے ہیں ۔ایسے جیومیٹریکل تقاضوں سے زمینی حقائق او ر ریاستی نظام عدم توازن کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

جیومیٹریکل مباحث میں یہ امر طے شدہ ہے کہ کسی بھی ملک کی مثلث کے تینوں خطوط یعنی عدالت، حکومت اور فوج کے مزاج کا باہم متوازن ،برابر اور مستقیم ہونا لازم ہے۔ ان کاعدم توازن بلاشبہ ملکی عدم استحکام کے مترادف ہے ۔ ۔
 جیومیٹریکل تغیرات ہر نئی صبح کروٹ لیتے ہیں ۔یہ ایک فطری عمل سہی مگر اس میں ملک کے افراد اور اربابِ اختیار کا خاص حصہ ہوتا ہے ۔

’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘کے مصداق دیگر ملکوں کی مثلثیں مساوی الا ضلاع ہیں یا نہیں ہم انھیں مساوی یا غیر مساوی نہیں کر سکتے مگر جہاں وطنِ عزیز کی بات ہے تو اس میں ہم مقدور بھر حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اربابِ اختیار اور قوم کے افراداپنے شعور اور مثبت اظہار کی صورت میں وطن کی مثلث کو مستحکم کر سکتے ہیں ۔یہ قانونِ فطرت ہے یا کردارِ سیاست کہ اداروں کا ٹکراوٴ شرو ع دن ہی سے پیدا ہوتا رہا ہے۔

سکندر مرزا ،صدر ایوب،جنرل یحییٰ خان،ذوالفقار علی بھٹو،جنرل ضیاء الحق، جنرل کیانی ،بے نظیر ، نواز شریف سے پرویز مشرف تک کیا کیا نہیں ہوا ۔ایک طویل تبصرہ ممکن ہے مگر بقول شاعر :
ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی
گزشتہ کئی ایام سے تاحال آئین کا آرٹیکل ۶ زیرِ بحث ہے ۔۱۷ دسمبر۲۰۱۹ء سابق جر نیل پرویز مشرف کی چالیس برس کی خدمات کا صلہ یا جرم کی سزا کا مسودہ تیار کیا گیا ۔

خصوصی عدالت کے جج وقار سیٹھ کے تعاقب میں حکومت مستعد ہوئی ، جس نے فوج کے جرنیل کی لاش کو گھسیٹنے اور ڈی چوک میں لٹکانے کانا قابل فہم فیصلہ داغ دیا ۔ایک زنجیر چلتی رہتی ہے ۔ عدالت منصف ،کبھی حکومت توکبھی فوج ،چند روز پہلے موجودہ سپہ سالار کی اضافی خدمات ( Extention of service) چیلنج ہوئیں اور آرٹیکل ۲۴۳ زیر بحث آیا ،تین سال کا اضافہ سکڑ کر ۶ ماہ میں تک آ پہنچا۔

اقبال نے بھلے کچھ اور معنوں میں کہامگر کیا خوب کہا :
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
پرویز مشرف سزا کے فیصلے میں عدالت منصف، حکومت وکیل ِصفائی اور فوج نشانہ سزا بن گئی ۔ازاں قبل افتخار چودھری اور پرویز مشرف کی پنجہ آزمائی میں عدالت ملزم، حکومت منصف اور فوج کی حادثاتی شمولیت دیکھنے کو ملی۔

پرویز مشرف کی سزاپر حسبِ عادت تبصرے شروع ہو گئے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا؛ بہت اچھا ہوا ،کیا فیصلہ ہے ،کیا عدل ہے ۔بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے شرم سے سر جھک گیا کچھ کا کہنا تھاکہ جج سیٹھ وقار نے ایک مقدس ادارے پر شب خون مارا ہے اس کے خلاف ریفرنس دائر کرنا واجب ہے ۔ بعض چلائے حکومت خاموش ہے ۔بعض گرجے فوج اپنے جرنیل کی خاطر تہس نہس کر دے گی ۔

بعض اُچھلے عدالتیں اور جج جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ کوئی سپریم کورٹ تو کوئی پارلیمنٹ کو سب سے بڑی عدالت سمجھنے لگا ۔
 کسی ملک کے استحکام کے لیے فوج عدالت اور حکومت تینوں کو سو فیصد پذیرائی کی ضرورت ہوتی ہے مگر بد قسمتی سے پاکستان میں باہمی چپقلش اور داخلی انتشار کی وجہ سے انتظامی تکون کا کوئی بھی ادارہ ۳۳ فی صد سے زیادہ کی سطح عبو ر نہیں کر پا تا۔

سادہ لوح عوام سازشیوں کی ڈھولک پر دھمال ڈالنے کے لیے ہر وقت تیاررہتے ہیں۔ ذاتی اختلافات سے قطع نظر وہ نہیں سوچتے کہ اداروں کے آپس کے ٹکراوٴ سے ملک کبھی مضبوط نہیں ہوتے۔
 پرویز مشرف کی لاش کو گھسیٹنے کے غیر فطری اظہار پرسرحد پار جھانکنے کی ضرورت تھی کہ ایک جج کے واشگاف لفظوں سے دشمن کی کھوپڑی میں کون سی فلم چل رہی ہو گی۔ ایک فوجی جر نیل چہ جائے کہ ریٹائرڈ ہے اس کی تین دن لٹکتی لاش اور ڈی چوک میں پھانسی کی نمائش فقط ایک شخص کی گردن کو متاثر کرے گی یا ایک قومی ادارے کے تقدس سے جا ٹکرائے گی ۔

لفظوں کی تقسیم کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔کسی سیانے کا قول ہے :
’ لفظوں کے وار تلوار وں سے زیادہ زخمی کرتے ہیں ‘
 خصوصی عدالت کے جج وقار سیٹھ کی سطحی سوچ یاکم نصیبی کہ معتبر مسند پر بیٹھ کر اپنے درست فیصلے کے لیے درست لفظوں کا انتخاب نہ کر پائے ،لااُبالی پن میں ایسالاو ا اُبلا کہ ایک تہلکہ خیز فیصلہ روئی کے گالوں کی طرح حیرانی کی فضا میں بکھر کر گم ہو گیا ۔


ہائیکورٹ نے فیصلے کی نزاکت کو محسوس کیا، اس سے پہلے کہ سازشی عناصر اور دشمن کو دلی تسکین ہو تی ،ہائی کورٹ نے بلاتاخیرفیصلہ صادرکیا اور خصوصی عدالت اور اس کے فیصلے کو ہمیشہ کے لیے کالعدم قرار دے دیا ۔اس سے پہلے کہ فوج کی حمایت یا مخالفت میں حکومت اور عدالت کا ٹکراوٴ پیدا ہوتایافوج اور عدالت دست وگریباں ہوتے ہائی کورٹ کا فیصلہ کسی نعمت سے کم نہیں سمجھا جانا چاہیے ۔

ملکہ ترنم نے خوب گنگنایا تھا
میریا ڈھول سپاہیا
تینوں رب دیاں رکھاں
 حکومت ،اپوزیشن اور تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے سیاسی مفادات سے قطع نظر کیا خوب یکجائی نظر آئی ۔ بحری، بری اورفضائی جرنیلوں کی مدتِ ملازمت پراتفاق رائے نے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیے ۔سرحد پار بازگشت پہنچی کہ بھلے لاکھ اختلافات ہوں وطن کے محافظوں کے لیے پوری قوم ایک پیج پر ہے ،ایک مزاج پر ہے ۔

مگر کیا کیجیے اس الھڑ شوخ سیاست کا ،جس کے سطحی سوچ میں قومی مفاد کا ادراک نہیں ۔ یعنی فیصل واوڈا نامی وفاقی وزیر نے کاشف عباسی نامی اینکر پرسن کی عدالت میں فوج کا’ بوٹ‘ لاکھڑا کیا اور حسنِ سلوک یا تعاون کے بدلے میں اپوزیشن کے ماتھے پر منافقت کا سہرالٹکا دیا ۔ پرائم منسٹر اور پیمرا جاگے۔کاشف عباسی پر دو ماہ ،وزیر موصوف پر دو ہفتے ٹی وی پروگرامز میں پابندی کی سزا جاری ہوئی ۔

اہلِ زباں بولے ’چار دن کی چاندنی ،پھر اندھیری رات‘ ۔نصرت فتح علی خاں کی روح گنگنائی :
آ جا تینوں اکھیاں اڈیکدیاں
’بوٹ بٹاک ‘ کی بیہودگی سے قطع نظر بہر صورت عدالت ،فوج اور حکومت کے مابین توازن کی فضا قائم ہے ۔ تمام سوالیہ نشانات خاموش ہیں ۔ سرحد پار جانے والا پیغام ایک وفاشعار ،ایک عظیم قوم ،ایک عظیم سوچ کا عکاس ہے ۔

بھلے اس کے پس منظر میں لاکھوں تشنہ لب سوال ہیں ،جو شاید اپنا جواب ڈھونڈتے رہیں گے لیکن، جب وطن کی سلامتی کا معاملہ ہو عزت کا سوال ہو،سارے فیصلے ،سارے تقاضے ، سارے حقوق فراموش کیے جاسکتے ہیں مگر وطن کی طرف اُٹھنے والی ہر میلی آنکھ اور دشمن کے تمام ناپاک عزائم کا جواب قومی اتحاد اور یگانگت ہی سے دیا جاتا ہے ۔کسی قوم کا سب سے طاقتور ہتھیار اتحاد ہی ہوتا ہے۔


اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ جب ملکی انتظامی تکون کے تینوں خطوط یعنی حکومت ،عدالت اور فوج ایک پیج پر ہوں تو ملک کا استحکام کبھی متزلزل نہیں ہوا کرتا ۔ سیاسی اختلافات و مفادات اپنی جگہ مگر تمام سیاسی جماعتوں کو عظیم قومی مفادات پر ایک ہونے پر مبارکباد
نعرہ تکبیر اللہ اکبر
پاک فوج زندہ باد
پاکستان پایندہ باد
سیاسی اتحاد پایندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :