بھیڑیے اور میمنے کی کہانی

بدھ 4 مارچ 2020

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

گاؤں کے قریبی جنگل میں ایک ندی بہتی تھی ، ندی کنارے ایک میمنا کھڑا پانی پی رہا تھا ۔تھوڑا پرے ایک بھیڑیا بھی پانی کومنھ لگائے کھڑا تھا ۔ بھیڑیے نے میمنے کو کھانے کامنصوبہ سوچا ۔ بھیڑیا بولا :’گستاخ میمنے تم پانی کو گدلا کررہے ہو ،دیکھ نہیں رہے، میں پانی پی رہا ہوں ، اندھے ہوکیا ؟ میمنا چونکا ،بولا : چاچا جی پانی تو آپ کی طرف سے میری جانب آرہا ہے ۔

بھیڑیا کھسیانا ہوکر بولا : اچھا اچھا تم نے مجھے پچھلے سال گالیاں دی تھیں۔میمنا بولا : انکل میں تو پچھلے سال پیدا ہی نہیں ہوا تھا ۔شرمندگی پروف بھیڑیا ڈھٹائی سے بولا : اچھا اچھا ،وہ تیری ماں نے پچھلے سال مجھے گالیاں دی تھیں اور تو اس کے پیٹ میں تھا،لہٰذا لازم ہے کہ تجھے موت کے گھاٹ اتار ا جائے اور تیری بوٹیاں چبائی جائیں ۔

(جاری ہے)

کوئی حد ہوتی ہے ،منھ پھٹ ہونے کی ، بدتمیز میمنے میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔

بھیڑیے نے یہ کہا اور میمنے پر حملہ کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اور اسے کھانے میں مست ہو گیا ۔بھیڑیا دل ہی دل میں خوش تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ اس نے کچھ غلط نہیں کیا کیوں کہ اس نے پہلے میمنے کا جرم ثابت کیا ہے ،پھر اسے مارا اور کھایا ہے ، لہٰذا میمنے کا خون اسے معاف ہے ۔
دنیا ایک ندیا ہے ،پیاس ایک ضرورت ہے ۔ ہر ذی روح کو اس پر آنا پڑتا ہے ۔

اس دنیا میں، جہاں میمنے رہتے ہیں وہاں بھیڑیے بھی رہائش پذیر ہیں ، جہاں بکریاں ہیں وہاں شیربگھیلے بھی رہتے ہیں ،جہاں کبوتر ہیں وہاں عقاب بھی ہیں ، جہاں خوشیاں ہیں وہاں عذاب بھی ہیں ، جہاں زندگی کی چاشنی ہے وہاں موت کے ذائقے بھی ہیں ۔
یہ دنیا دورخی تصویر کی مانند ہے ۔اس میں امن ہے توخوف بھی ہے،محبت ہے تو نفرت بھی ہے ،کمزوری ہے توطاقت بھی ہے،یہاں پھول بھی ہیں اور کانٹے بھی ، خوشیاں بھی اور تلخیاں بھی ، آسائشیں بھی اور غربتیں بھی ، قہقہوں کا ارتعاش بھی ہے تو آنسوؤں کی رم جھم بھی ، یہاں بھائی ،دوست، حاسد اوردشمن ہرقسم کے رشتے موجود ہیں۔

یہاں اپنے اور پرائے بھی ہیں،سگے اور سوتیلے بھی ہیں ۔ یہ دنیا ایک ایسی ندیا ہے ،جس میں لاکھوں رنگ کا پانی بہتا ہے ۔ ایک ایسابازار ہے ،جس کی مارکیٹوں میں لال مرچ سے لہو تک ہر جنس فروخت ہوتی ہے ۔یہاں مکان بکتے ہیں، حیوان بکتے ہیں ، شیطان بکتے ہیں ،انسان بکتے ہیں، ضمیر بکتے ہیں ،کردار بکتے ہیں، معیار بکتے ہیں ،پیار بکتے ہیں ،یار بکتے ہیں۔

دنیا کے ہر موڑ پر ’ ہر مال دودو روپے ‘ کی صدائے بے لگام گونجتی سنائی دیتی ہے ۔ انسانیت کے خوانچہ فروشوں کی چاندی ہے ۔ شرافت لوہے کے بھاؤ بِک رہی ہے ۔
 نو سیاروں کے جھرمٹ میں زمین کے نام سے کائنات میں پایا جانے والا یہ واحد سیارہ ہے ،جو رنگ و روپ اور رونقوں کا استعارہ ہے ۔یہی وہ سیارہ ہے ،جہاں جینے کو جی چاہتا ہے ۔یہی وہ سیارہ ہے ،جہاں ہر پل مرنے کی تمناپیدا ہوتی ہے۔

یہی وہ سیارہ ہے ،جہاں نت نئی کہانیاں بنتی اور چھپتی ہیں ۔ایک ورسٹائل اداکار کی طرح اس سیارے میں کروٹ کروٹ نیاسٹائل، نئی امنگ ،نیاجنوں،نیا فسوں کارفرما ہے ۔یہ دنیا ہے یا کیا ہے ۔ اس میں رہنے والوں کو بھی اس کا کچھ پتا نہیں ۔ لاکھوں علوم و فنون کا سلسلہ چلا،بے حساب ایجادات ہوئیں۔ بے حساب انسان پیدا ہوئے ، ہزاروں کردار پیدا ہوئے۔

لاکھوں فن اور فنکار پیدا ہوئے ۔ کہیں ستم گرتو کہیں غمخوار پیدا ہوئے ۔ دانشور ، لکھاری،سائنسدان، جادوگر، سوداگر ،بازی گر،ماندری، پادری، پنڈت ، وید ،حکیم ،ڈاکٹر،مسیحا،عالم ، فاضل ،جاہل ، کاہل، ظالم ، قابل ، قاتل ، ڈاکو ،ڈاکٹر، حاکم، محکوم،بادشاہ ، غلام، مزدور، مجبور،معذور، مخمور اورمہجورہر قسم کا مال اس دنیا کے کارخانے میں ہمیشہ تیار حالت میں دستیاب رہا ہے ۔

بھانت بھانت کے مزاج اورسماج یہاں کی معاشرت کا حصہ ہیں ۔ یہاں ہرقسم کے پھل اور سبزیاں اُگائی جاتی ہیں۔ یہاں طرح طرح کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں اور کاٹ کر کھائی جاتی ہیں ،ذخیرہ کی جاتی ہیں ، پھر اُگائی جاتی ہیں ۔دنیا کی کاشت کاری میں عام طور پر جیسا بیج ڈالا جاتا ہے ویسی ہی فصل پیدا ہوتی ہے ، مگر کبھی کبھی بیج کوئی اور ڈالا جاتا ہے اور فصل کوئی اور پیدا ہوجاتی ہے ، جس پر کاشت کار حیران ہوتا ہے ۔

تنہائی میں اپنے آپ سے پوچھتا ہے ،ایسا کیوں ہوا ۔اس کے بعد وہ زمین پر شک کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ لیکن ایسے واقعات کے باوجود مثل یہی مشہور ہے ’جو بووٴ گے وہی کاٹو گے‘۔اہلِ ادب ایسے موقعوں پر ’جیسا کر و گے ویسا بھرو گے‘ کی مثل بھی استعمال کرتے ہیں ۔
 دنیا کی ہر تصویر کے دورُخ ہیں مگر انسان کے سو رُخ ہیں ۔ بعض گورے رنگ کے لوگ اندر سے کالے اور بعض کالے اندر سے گورے ہیں۔

بعض چیزیں دکھائی کچھ دیتی ہیں لیکن ذائقہ کچھ دیتی ہیں۔ بعض چھوٹے قد کے بڑے لوگ اور بعض بڑی قامت کے بونے دنیا کی مارکیٹ کا حصہ ہیں ۔ یہی وہ مارکیٹ ہے ،جہاں رنگ ،نسل ،برہمن شودر ، امیر غریب ، بڑے چھوٹے ،عربی عجمی ، ہندو ،بدھ، یہودی ، انگریز،عیسائی، مسلمان ، صوفی وملا ، منافق و سچیار ، مومن و کافر ،مشرک ومُوَ حِّد،پیر و مرید وغیرہ کے ناموں سے موسوم کئی اقسام کے انسان پائے جاتے ہیں۔

یہی وہ سرزمین ہے ،جس پر مندر، گرجے اور مسجدیں تعمیر کی جاتی ہیں مگر انسان مارے جاتے ہیں ،دل توڑے جاتے ہیں۔ یہی وہ سیارہ ہے ،جہاں عام انسانوں سے ولیوں،نبیو ں اوررسولوں تک اعلیٰ سے اعلیٰ مخلوق کو مبعوث کیا گیا ہے۔ یہی وہ ٹھکانہ ہے، جہاں نت نیا فسانہ رقم ہوتا ہے ، نت نیا ناول چھپتا ہے ، نت نئی تہذیب جنم لیتی ہے ۔نت نیا کردار اُبھرتا ہے ۔

یوں ہر نئی صبح کوئی تغیر وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ محسوسات اور جذبات میں شدت آتی اور مٹ جاتی ہے۔ ہر کہانی کے بعد کوئی نئی کہانی جنم لیتی ہے ۔
الغرض کہانی در کہانی اس دنیا کا سفر جاری ہے ۔ ہر گھاٹ پہ کوئی بھیڑیا کسی میمنے کے دَرپے َہے۔ ہر میمنا خطرے اور خوف کی زد میں ہے ۔ جنم کا جرم ہے یا بدنصیبی کی گھمبیرتا ، ایک جانب جرم ضعیفی کومرگِ مفاجات لاحق ہے تو دوسری جانب طاقت کے نشے کا خمار انسانی نفسیات پر ناچ رہا ہے ۔

کوئی ہنستا نہیں تھکتا تو کوئی اشکوں کے دریا بہائے چلے جارہا ہے ۔ایک دلنشیں پنجابی کہاوت ہے:
جگ ماہی دا وَسے
کوئی رووے تے کوئی ہَسے
بات چل نکلی ہے تو چلتے ہیں خلیج کی جانب، جہاں لکھی جاتی ہے نت نئی کہانی،اور ہر کہانی میں شامل ہوتا ہے کسی میمنے کا لہو ،جہاں بپھرا ہوا ہے لہو آشام بھیڑیے کا مزاج ، کون مجرم ہے ،کون صوفی ، تیل کی پیداوار کا علاقہ ایران عراق کے بعد دوسرا اسلامی ملک ہے ،جس نے ایک عرصہ سے امریکا سے نوک جھوک اور لفظی گولہ باری کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے ۔

ایران پاکستان کے بعد ایٹمی ٹیکنالوجی کی طرف گامزن دوسرا اسلامی ملک ہے، ’جو کھٹکتا ہے چشمِ امریکا میں کانٹے کی طرح‘ ،امریکا کے دل میں چھپے انتقام اور اپنے انجام سے یکسر نابلدو ناآشنا ایران اس میمنے کی طرح ہے ، جو درحقیقت اتنا بڑا مجرم ہے یا نہیں مگر امریکا کے ریڈار پر ایک گستاخ میمنا ضرورہے ، جو اسے ہر پل نظر آرہا ہے ۔ تھوڑا عرصہ ہوگزرا ہے، 3جنوری 2020ء ایران کے ایک معروف ومتحرک جنرل قاسم سلیمانی کو عراق کی سرزمین پر امریکی راکٹ حملے میں قتل کردیا گیا۔

کیوں قتل کیا گیا ،بس یونہی،جی چاہا کہ کسی میمنے کو نوالہ بنایا جائے ،منھ کا ذائقہ بدلا جائے ۔ امریکا نے فرمایا ان عجمیوں نے آج سے کئی سال پہلے ہمارے لوگوں کو یرغمال بنایا تھا ۔ متوفی جنرل قاسم سلیمانی بھی ہمارے خلاف پروگرامر تھا،لہٰذااسے ختم کرنا بنتا تھا ،سو کردیا اور بس ،مردِ اول یعنی صدرِ امریکا کا ان دنوں ٹویٹ چھپا ،جس پر صرف امریکا کا جھنڈا تھا ،جس کے خاموش متن میں تھوڑا عرصہ پہلے عراق میں امریکی جھنڈا جلائے جانے کے انتقام کی بُو لہرا رہی تھی ۔


 ایران نے ’مرگ بر امریکا ‘کا نعرہٴ مستانہ بلند کیا ، چندروز کے اندر سخت بدلہ لینے کی دھمکی داغی ،8 جنوری 2020ء جنون وجوش میں یوکرائن انٹرنیشنل ائیر لائن کا ایک مسافر طیارہ پی ایس 752 اُڑا ڈالا ،جس میں عملے کے نو ،چار افغان ،تین برطانوی ،تین جرمن ،دس سویڈش،گیارہ یوکرائن،تریسٹھ کینیڈین اور بشمول بیاسی ایرانی مسافروں کے، کل 176بے گناہ مسافر لقمہ ٴ اجل بن گئے ۔

ایران نے تکنیکی خرابی کاجھوٹ بولا مگر جلد اعترافِ جرم کرتے ہوئے انسانی غلطی کا عنوان اپنے نام کیا ۔ بہر صورت شرمندگی اور جگ ہنسائی کا اہتمام ہوا ۔ دوسرے جانب عراق میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ، مگرکچھ ہاتھ نہ آیا ۔ سراسیمگی اور مایوسی کے سائے تلے جنرل قاسم سلیمانی کی روح ایران آتی ہے ۔اپنے قاتلوں کے بارے میں پوچھتی ہے اور چپ چاپ چلی جاتی ہے ۔

شاید اسے آج تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا ۔ سنا ہے جنرل صاحب کی روح نے مزید نہ آنے، کچھ عرصہ مایوسی میں گزارنے کے بعد اپنے قاتلوں کو معاف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ اسے اپنوں سے گلا ہے نہ ہی بیگانوں سے کچھ شکایت ہے ۔غالب نے میر تقی میر کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا :
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہوغالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
 عراقی صدر صدام حسین ، جنرل قاسم سے کہیں بڑی قامت کا آدمی تھا ،جس کے مردہ مجسموں کی ہیبت زندہ لوگوں کے دلوں پر مسلط رہتی تھی ۔

#کویت پر قابض ہوا،امریکا سے ’ تو تو، میں میں‘ ہوگئی۔ امریکی صدر جارج بش نے نفرت کے بارود کو پُش کیا ۔ صدام حسین نے گستاخ میمنے کاروپ دھارا۔ سکڈ میزائل داغے ، امریکا کے پرانے پالتو اسرائیل کا تل ابیب تک جل اٹھا۔لوگوں نے صدام کی جواں مردی کو سلام کیا ، گلیوں،بازاروں،دیواروں پر پوسٹر لگائے گئے۔فوری طور پر نئے بچے پیدا کیے گئے اور اسامہ بن لادن کے نام کی طرح ان نومولودوں کے نام صدام حسین کے نام پر رکھ کر گھر گھر میں صدام حسین کے زندہ مجسمے متحرک کردیے گئے مگر انجام کار بھیڑیے اور میمنے کی لڑائی پر منتج ہوا۔

صدام حسین کو 30 دسمبر2006ء، عید قربان کے موقع پر خلافِ معمول برہنہ رُخ پھانسی کے پھندے پر قربانی کے بکرے کی طرح لٹکا دیا گیا ۔ عراق کی سرزمین آج تک اپنے مضبوط صدر کے قاتل کے رحم و کرم میں الجھی ہوئی ہے ۔ دو دہائیوں سے زیادہ عراق پر حکمرانی کرنے والے صدام حسین کے انجام سے عبرت زدہ عراقی قوم سر جھکائے ،جس طرح زندگی کے دن گزار رہی ہے ،ایک اندوہ ناک کہانی ہے مگریہ کہانی پھر سہی ۔


لیبیا کے انقلابی سیاست دان اور سیاسی نظریہ نگار ایک کرنل قذافی ہوا کرتے تھے ۔لوگ ان کی راہوں پر مرتے تھے ، چڑیا پر نہیں مارتی تھی ، عوامی بغاوت کا بھیڑیا بپھر ا اور ۴۲ سال راج کرنے والا کرنل قذافی نالیوں کے پائپ میں چھپنے پر مجبور ہوا ، ’ براہِ کرم گولی نہ چلا نا ‘ ، ’ خدا اس سے منع کرتا ہے ‘ وغیرہ ایسی اپیلیں التجائیں کرنے کے باوجود کرنل قذافی کو2اکتوبر 2011ء زندہ پکڑ لیا گیا اورکسی مذبوح میمنے کی طرح گلیوں میں گھسیٹا جانے لگا ۔

لہولہان چہرے اور خون آلود لباس پر کسی بادشاہِ وقت کی بے بسی کی دا ستاں لکھی جارہی تھی ۔ آسماں دیکھ رہا تھا ، زمیں کا ذرہ ذرہ خاموش تماشائی اور عینی شاہد بنا ہوا تھا ۔ کاش کوئی جانے کہ برا وقت بادشاہوں پر بھی آجائے تو تاج و تخت کا احترام بھول جایا کرتا ہے ۔
 بھیڑیے اور میمنے کی کہانی میں بھیڑیا اور میمنا، طاقت اور کمزوری کا استعارہ ہیں ۔

دنیا میں کوئی شخص طاقت ور نہیں ہوتا ،جب تک کوئی اپنی کمزوری نہیں دکھاتا ، دنیا میں سب سے بڑا جرم ناتوانی اور کمزوری ہے ،جسے عرفِ عام میں شرافت کانام دیا جاتا ہے ، دنیا میں سمجھی جانے والی سب سے بڑی طاقت بے حیائی اور بے شرمی ہے ،جس کو اپنانے والا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ پوری دنیا کا مختارِ کل ہے ، سب سے بڑا طاقتور ہے ، اس سے بڑا کوئی نہیں ۔

پنجابی والے ایسے شخص کے لیے ’ لُچا سب توں اُچا ‘ کی پنجابی کہاوت استعمال کرتے ہیں یعنی بے حیا سب پر بھاری ہوتا ہے ۔
بھیڑیے اور میمنے کی کہانی محض ایک کہانی نہیں ہے ۔ ایک ایسا الف لیلوی داستانی سلسلہ ہے ، جس میں ہر کہانی سے ایک نئی کہانی جڑی ہے ۔ دنیا میں بھیڑیے اور میمنے کی کہانیوں کی پٹاری کھولیں تو پوری انسانی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے ۔

دنیا میں کتنے شداد، ہامان، نمرود، فرعون، قارون ،مرحب ،عنتر ،یزید، چنگیز ، ہلاکو اور ہٹلر نام کے بھیڑیے آئے اور چلے گئے ۔ کتنی مظلوم انسانیت ان کے ظلم و استبدادکا شکار رہی ۔ کتنے میمنے نما انسان مولی گاجر کی طرح کٹ مرتے رہے اوران بھیڑیوں کے دندانِ آز کا نشانہ بنتے رہے ۔جس طرح ہر فلم کا اختتام ہوتا ہے اسی طرح ہر بھیڑیے اور میمنے کی کہانی کا بھی انت ہوتا ہے۔

موت برحق ہے ، میمنے کی موت تو یقینی ہے مگر بھیڑیے کو بھی موت سے استثنا نہیں ۔
 انسانی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ اسے ہر دور میں ظلم اورظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ ملکوں کی تاریخ بھیڑیے اور میمنے کی لڑائیوں سے بھری پڑی ہے ۔ عراق، ایران ، بوسنیا ، چیچنیا ، شام، فلسطین ،افغانستان کی تاریخیں جنگ و جدل سے بھری پڑی ہیں ۔ کشمیر پر بھارت اور فلسطین پر اسرائیل اور برماکے روہنگیا مسلمانوں پربدھوں کے رونگٹے کھڑے کر دینے والے مظالم ، عراق ، افغانستان ،ایران پر امریکی جارحیت ، کشمیر اور اندرون انڈیا آسام ، نئی دہلی وغیرہ میں مسلمانوں سے ناکردہ گناہوں کا بدلہ بعینہ بھیڑیے اور میمنے کی لڑائی کاعالمی و عملی اظہار ہے۔


سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں میمنا کس نے بنایا ، کیا ہم پیدائشی میمنے تھے ، کیا ہمیں ہمارے حالات نے مجبور کیا ،کیا ہم شوقیہ میمنے بنے ۔ آخر دنیا کے بھیڑیے ہمارے تعاقب میں کیوں ہیں ، ہمیں جابجا غراتے کیوں ہیں ۔ کیا یہ بھیڑیوں کی طاقت ہے یا ہمارا میمنا صفت کردار اس کا پیش خیمہ ہے ۔ہم شریف ہیں، کمزورہیں ،کم ظرف ہیں یا کچھ اور ۔آخر ہم کیا ہیں ، طاغوتی طاقتیں ہمارے تعاقب میں کیوں ہیں ۔

کیا ہم ان بھیڑیوں کے دانت توڑنے سے واقعی عاجز و بے بس ہیں ۔اگر ہے تو اس درد کی دوا کیا ہے ؟ سوال تو پیدا ہوتا ہے ۔
اصل میں ہم لوگ سہل پسند طبیعت ، غفلت اور سکون کی نیند سونے والے لوگ ہیں ۔ ہم محنت کے بجائے عطیات پسند کرنے والے بھکاری ہیں ۔ ہم قرعہ اندازی کی ردی سے عمرے کا ٹکٹ ڈھونڈکر حاجی کہلوانے کے شوقین پارسا ہیں ۔ہم عبادت و ریاضت کے بجائے جلسوں جلوسوں سے جنت کی کنجی کے حقیقی حق دار بننا چاہتے ہیں ۔

ہم خانقاہی نظام کی ترویج کے لیے پینا فلیکس چادروں پر شیخ السلام اور شیخ القرآن کے القابات لکھوانے والے مجاہدِ ملت ہیں ۔ ہم سادہ لوح لوگوں کو لوٹ کرمقبرے اور محلات تعمیر کرنے والے روحانی پیشوا ہیں ۔ ہم انسانوں کے دل توڑ کر مسجدیں اور مندرتعمیر کرنے کے رسیا ہیں ۔ ہم نمازوں کے بجائے وعظوں کو فرضِ عین سمجھنے والے عابد و زاہد ہیں ۔ ہم چوری، ڈاکے، لوٹ مار ، ملاوٹ اور بددیانتی کے پیسے سے قربانی کا مہنگا جانور قربان کرنے والے دیوانگانِ اسلام ہیں ۔

ہم معاشرے کے نادار اور بے بس انسانوں کو میمنا بنا کر چبا جانا چاہتے ہیں۔ دکھ اس امر کا ہے کہ مظلومیت اور شرافت کی ماری کمزور انسانیت کے لیے ہم بھیڑیے ہیں لیکن طاقتور اقوامِ عالم کے سامنے ہم سب خرد بینی میمنے ہیں ۔ہم اپنے مفاد کے لیے سب جائز سمجھتے ہیں ، حرام کو حلا ل گردانتے ہیں ، مگر دوسروں کے لیے ہمارے قانون اور ہوتے ہیں ۔ ہم ہر چور کے ہاتھ کٹے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں مگر اپنے بدقماش، چور، ڈاکو بیٹے یا بھائی کے ہاتھ بچانے کے لیے کروڑوں کے مچلکے جمع کرادیتے ہیں ۔

ہم کیسے دوغلے ہیں ،ہم کتنے دورخے ہیں ۔ شاید یہی وہ گنہ ہے ،جس کی سزا پوری مسلم اُمہ بھگت رہی اور جہاں کہیں ہے وہاں بھگت رہی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ انسانیت کا خون پینے والی کوئی آسمانی آفت نہیں بلکہ یہ خون آشام بلا خود انسان ہے ۔انسان ہی انسان کا قاتل ہے۔انسان ہی انسان کا دشمن ہے ۔ انسانوں کے اس جنگل میں انسان ہی بھیڑیا ہے انسان ہی میمنا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :