قومی ہیرو

ہفتہ 8 فروری 2020

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

 انسانی فطرت کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی ایک خصوصیت باغیانہ روش بھی ہے ،جس کے تابع ایک انسان احتجاج کی اپیلوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے، بے بسی اور مظلومیت کی دیواریں پھلانگ کر ،بغاوت کے میدانوں میں پڑاوٴ ڈالتا ہے اور اپنے نامکمل ارمانوں اور حسرتوں کی تکمیل کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کی ٹھان لیتا ہے۔ اس کے دل گردے جوان گھوڑے کی طرح جھرجھری لینا شروع کر دیتے ہیں، جس طرح کسی گھوڑے کو اصطبل کی لگاموں سے کھجلی ہونے لگتی ہے اسی طرح انقلابی سوچوں کے حامل شخص کودنیامیں رائج نظاموں سے حساسیت ہونے لگتی ہے ۔

وہ قید و بند کی زنجیروں کو توڑ کر آزادمیدانوں میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے کی اُمنگ پیدا کر لیتا ہے ۔غیرت مند امیدوں کے خوبصورت تصورات اسے بحرِ ظلمات میں کود جانے کا جذبہ عطا کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اس کی نگاہوں کے سامنے ان دیکھی فتوحات کے لاتعداد جھنڈے لہرا رہے ہوتے ہیں ۔ وہ الٰہ دین کے چراغ یاکسی جادوکی چھڑی سے آنکھ جھپکتے میں دنیا کے باطل نظام بدل دینا چاہتا ہے۔

اس کے سامنے کامیابیوں کے دیپک جلتے ہیں اوروہ چکا چوند روشنیوں میںآ سمانی بجلیوں سے آنکھ لڑانا شروع کردیتا ہے۔
اس کے سامنے زندگی کے بجاے موت افضل شے ہوتی ہے ۔وہ مخالف قوتوں سے ٹکراوٴ اور پنجہ آزمائی کو لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ سمجھتا ہے۔ اس کی کل کائنات اس کی قومی حمیت و غیرت ہوتی ہے ۔ اسے اوروں کی زندگی کی بقا کے لیے اپنے فنا ہوجانے میں حقیقی لذت محسوس ہوتی ہے۔

اس کی نظر میں کشتیاں جلانازندگی کا زادِ راہ اور حقیقی منزل ہو تا ہے۔ انسانی آبادیوں میں ایسے مزاج کے لوگوں کو عرفِ عام میں ’ قومی ہیرو‘ کہا جاتا ہے ۔قومی ہیرو کی عملی زندگی کومکمل طور پر سمجھنے کے لیے انسانی زندگی میں ہوش کے بجائے جوش کی ضرورت کا فلسفہ دکھائی دیتا ہے۔ شاید اسی لیے جوش ملیح آبادی بلبلا اٹھے تھے کہ: زندگی جوش سے ہے ہوش ہے ایوانوں میں 
یہاں اگر ایک سوالیہ نشان یہ بنا لیا جائے کہ قومی ہیرو کسے کہتے ہے یا لغت ِ غریب و امیر میں قومی ہیرو کی تعریف کیا ہے تو ہر شخص فوری طور پر اپنا اپنا نقطہ نظر پیش فرمادے گا ۔

اس طرح تعریفوں کی کثرت سے قومی ہیرو کی حقیقی تعریف تک پہنچنا آسان ہو جائے گا ،لہٰذا اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ایک سروے کر لیا جائے اور رائے عامہ سے فیصلہ کرلیا جائے کہ قومی ہیرو کے حق میں کو ن سی تعریف بہتر ہے ۔
اسی تناظراور جستجو میں مَیں نے خیالوں اور تصورات کے شہر کے ہر چوراہے پر’بیلٹ باکس ‘رکھ دیے ۔ شام کو کھولنے پر کئی ’روشن آرا‘ہاتھ لگیں۔

کئی لوگوں کی راے یہ تھی کہ اس طرح کے سوالوں کا دور ہی گزر چکا ہے ،لہٰذا ایسے سوالوں سے اجتناب کیا جائے مگر بعض باہمت ساتھیوں نے اس انتخابی عمل میں حصہ لیا اور اپنی اپنی راے سے نوازا،جن میں سے بعض کا کہنا تھا کہ قومی ہیرو انسانی زندگی کا سب سے خوبصورت کردار ہوتاہے ۔ پہلے زمانے میں اس کی خاصی تعداد پائی جاتی تھی ،آج کل خال خال ہے یا پھر پوشیدہ اور خاموش ہے۔

بعض کا قول یہ تھا کہ قومی ہیرو کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتا ہے ۔کسی نے رائے دی ایک تحریک، جذبے اور اُمنگ کا نام قومی ہیرو ہے ۔ کسی نے دشمن اور کسی نے باطل قوتوں کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے والے کو قومی ہیرو قرار دیا ۔کسی نے حق اور قوم کے حقوق کی خاطر مر مٹ جانے والے کو قومی ہیرو کے لقب سے سرفراز فرمایا۔
 جہاں تک عام مشاہدہ کی بات ہے توجابجا بھانت بھانت کے قومی ہیر و دکھائی دیتے ہیں۔

کسی نے اپنے پیرو مرشد ،کسی نے سیاسی لیڈر ، کسی نے اپنے اشتہاری بھائی اور کسی نے اپنے تھانیدار چچا کو قومی ہیرو کے اعزاز سے نواز رکھا ہے ۔ کوئی اپنے مسلک کے قائد کو توکوئی اپنے آستانے کے کسی مست ملنگ کو قومی ہیرو گردانتا ہے ۔ کہیں کو ئی دماغی مریض اعلان فرماتا ہے کہ وہ قومی ہیرو ہے توکہیں کوئی سائیں باباجمال دھما ل ڈال کر نعرہ لگاتا ہے کہ یہ شرف صرف اور صرف اسے حاصل ہے ۔

سیاست کے ایوانوں میں جھانکا جائے تو کئی قسموں اور نسلوں کے قومی ہیرو دکھائی دیتے ہیں ۔کبھی دبئی کے محلات سے بازگشت سنائی دیتی ہے تو کبھی لندن کی سیاسی پناہ گاہوں سے قومی ہیرو کے دعوے نازل ہو جاتے ہیں۔
الغرض جابجا قومی ہیرو بنانے کی فیکٹریاں رواں نظر آتی ہیں ، ہر ایک کا فکری جواز اپنی اپنی جگہ مضبوط تر دکھائی دیتا ہے ،مگر دل و دماغ اس حوالے سے حضرت عمر فاروق، حیدرِ کرار، خالد بن ولید،طارق بن زیاد،محمد بن قاسم،سلطان صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی ، سلطان محمد غوری، فتح علی ٹیپو سے محمد علی جناح اور غازی علم الدین شہید ایسے معروف ناموں کے حصار سے باہر نکلنے کا نام نہیں لیتے۔

 البتہ بعض ابن الوقت سوداگروں کے نزدیک وقت کا تقاضا ہے کہ کسی بھی وقت کے بادشاہ کو سلام کرنے کا ہنر آزمالیا جائے اور اسے بلا شرکت ِغیرے قومی ہیرو قرار دے دیا جائے تو دولت ودنیا کے بازاروں میں خاصی ’واہ جی وا‘ ہو جاتی ہے ۔تجزیہ کیا جائے تو اس شعبہ سے وابستہ کئی طفیلیے خاصے آسودہ حال دکھائی دیتے ہیں۔
 بزرگوں کا ایک معروف قول ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے ،مگر جانے کیوں یہ قول روز بروز ضعیف ہوتا چلا جارہا ہے اوراگر کوئی صاحب اس قول کو زندہ کرنے کی ہمت کر بیٹھتا ہے توانسانی معاشرے میں پوشیدہ بدرُوحیں ملی بھگت کا مظاہرہ کر کے اسے بدنام ِ زمانہ کر کے رکھ دیتی ہیں۔

اس طرح نہایت آسانی سے باطل قوتوں کے منفی رویوں سے قومی ہیرو نام کے لوگوں کا انجام ہو جاتا ہے ۔ اس انجام کی بازگشت سے درو دیوار لرزنا شروع کر دیتے ہیں اور قومی ہیرو کا جنم عرصہ دراز کے لیے محض ایک حرفِ تمنا بن کر رہ جاتاہے ۔اس کی پیدائش اور صورت دیکھنے کے لیے انسانی آنکھیں محرومِ تماشا ہوکر رہ جاتی ہیں ۔
دوسرا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ منافقت کی بنجر کھیتیوں میں میر جعفر اور میر صادق ایسی جڑی بوٹیوں کی نرسریاں اُگنے اور پروان چڑھنے لگتی ہیں اورسامراجی قوتوں کی خوشامد ،بے جاطرف داری ، منافقت ،ذاتی مفادات اور حرص و طمع کے گندے پانیوں سے تناور درخت بنتی چلی جاتی ہیں ۔

یوں دُور دُور تک کسی قومی ہیرو کا اظہار غیر یقینی ہو جاتا ہے اوریوں کوئی معاشرہ قومی ہیرویا ہیرا تراشنے میں بری طرح ناکام ہو جاتا ہے۔ 
اس مختصر مگر فکر انگیز بحث کے بعدکچھ توجہ طلب سوالیہ نشانات جنم لیتے ہیں مثلاً تاریخ کا چہرہ مسخ کیوں ہوتاہے ؟دھرتی بانجھ کیوں ہوتی ہے ؟قوم اپنا شان دار ماضی کس طرح اپنے ہاتھوں دریا بُرد کرتی ہے ؟شعورکی طاقت کس طرح مفتوح ہو جاتی ہے ؟ضمیر کیوں کرمردہ ہوتے ہیں اور قوموں میں ہیرو یا ولی اللہ پیدا کیوں نہیں ہوتے ؟
بلاشبہ اس طرح کے سوالیہ نشانوں کے جوابات دینا بظاہر مشکل محسوس ہوتاہے ،لیکن اس سلسلے میں کسی طبیب کو بلانے کے ضرورت نہیں ، کیوں کہ یہ معاملہ اتنامشکل نہیں ، جتنا ہم نے بنا رکھا ہے ۔

ان سوالوں کا آسان جواب تلاش کرنے کے لیے اگر ہم کسی تنہا جگہ بیٹھ کر اپنے گریبان میں جھانک لیں توہمیں ہمارے قول و فعل کے تضاد کی پوٹلی سے اس کا علاج مل جائے گا اور ہمارے جھوٹے حلفیہ بیان ہماری منافقت کی وضاحت کردیں گے ،جب ہمارے مزاجوں میں خود احتسابی کا حوصلہ پیدا ہو جائے گا تویقینایہ روگ ختم ہوجائے گا۔
ایک حقیقت ذہن میں رہنی چاہیے ، جس طرح لگڑ بھگڑوں کے بطن سے شیر کے بچے پیدا نہیں ہوا کرتے اسی طرح، جس معاشرے اور قوم میں میر جعفر اور میر صادق ایسے غدار پیدا ہونے شروع ہو جائیں تو وہاں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کی آفرینش ناممکن ہو جایا کرتی ہے اور قومی ہیرو ناپید ہو جایاکرتے ہیں۔

یاد رکھیں !جب ہمیں لالچ اور حرص کے مردار نوچنے سے نفرت ہو جائے گی تو زندگی غیرت کے سانچے میں ڈھل جائے گی ،ہماری کشتِ ویراں میں قومی ہیروپیدا ہونے لگیں گے اور تاریخ اپنے آپ کو دہرانے میں دقت محسوس نہیں کرے گی ۔یہ مشکل ہے نہ ہی ناممکن ،مگر بقول فیض احمد فیض
 ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :