کورونا وائرس اور اللہ والی گلی

جمعرات 26 مارچ 2020

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

انسان دنیا کی سب سے اعلیٰ مخلوق کا استعارہ ہے ۔ یہ خدا کا نائب اور پیغمبرانِ خدا کی تعلیمات کا امین ہے ۔ اس کے دم سے دنیا کا نظام چل رہا ہے ۔ یہی وہ انسان ہے، جس کی خاطر دنیا کی تخلیق کی گئی اور تخلیق کے بعد اسے شانِ خداوندی کا وہ عطیہ عطا کیا گیا ، جس کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا تھا یعنی آفرینش ِ آدم کے موقع پر رب نے اپنے نوری فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے آدم کو سجدہ کرو ۔

وہ آدم جو نور سے بنا نہ نار سے بلکہ مٹی سے بنا یا گیا ۔ اِس خاکی شرف انسان کے نصیبوں کے کیا کہنے کہ نوریوں کے لیے مسجودِ تعظیمی قرار پایا ۔ وہ فرشتے جو آدم کی تخلیق پر معترض تھے اور اپنے رب سے عرض گزار تھے کہ مالک یہ خاک زادہ دنیا میں دنگا فساد کرے گا ۔ کیا ہم تیری عبادت کے لیے کافی نہ ہیں تو رب نے فرمایا :’ اے میرے ملائکہ ! جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ۔

(جاری ہے)


تخلیقِ آدم مکمل ہوگئی ۔’ میرے آدم کو سجدہ کرو۔‘ رب نے تمام فرشتوں کو حکم دیا ۔ شیطان کے بھیجے میں تعصب کھٹکا ،سجدے سے معترض ہوا۔ کہاں میں نوریوں کا سردار اور کہاں یہ مٹی کا باوا آدم، رب نے پھر فرمایا: ’عزازیل! سجدہ کرو ، یہ میرا حکم ہے۔‘ عزازیل بولا :’میرے رب مجھے یہ تو قبول ہے کہ تجھے سجدہ کرو ں مگر آدم کو ہرگز نہیں ۔ عزازیل نے دنیا میں پہلی سرکشی کا اعلان کیا ۔

رب کاحکم نہ ماننے کی پاداش میں رب کے عتاب کا نشانہ بنا اورہمیشہ ہمیشہ کے لیے راندہٴ درگا ہ ہوا ۔کائنات کے چپے چپے پر رب کو سجدے کرنے والے فرشتوں کے اِس سردارکا جرم کیا تھا ؟ تکبر ۔ تکبر ایسی خصوصیت جو ماسوائے خدا کسی کو زیبا نہیں ،جس نے ذرا تکبر سے سر اٹھایا ،منھ کے بل اوندھا گرا ۔ جانے کیا سوچ کے اہلِ جہان ، یہ مٹی کے انسان تکبر میں حد سے بڑھے جاتے ہیں ۔

انھیں کیا معلوم کہ دنیا میں کتنے لوگ خدا بننے کی کوشش میں تباہ و برباد ہوگئے ،نیست و نابود ہوگئے ۔ وہ ایسے لوگ تھے، جو آج کے انسان سے کہیں زیادہ طاقتور تھے ۔ آج ان کا نام ونشان تک باقی نہیں رہا ۔ کاش آج کے انسان کے دماغ کا کیڑا مر جائے اور وہ خدا کے عذابوں سے عبرت حاصل کرے اوروہ تقدیرِ خداوندی سے ٹکرانے کا ارادہ ختم کردے ۔ کاش آج کا انسان دنیا کے تمام متکبرین کے سردار شیطان کے انجام سے سبق سیکھے ۔

شیخ سعدی نے کیا خوب آشکار کیا :
تکبر عزازیل را خوار کرد
بزندانِ لعنت گرفتار کرد
(تکبر نے عزازیل یعنی شیطان کو خوار کیا اور لعنت کی جیل میں گرفتار ہوا)
ابلیس کے ساتھ جو ہوا ،سو ہوا ۔مگر اُس نے رب سے مقابلے کی ٹھان لی ۔ بولا: ’ اے رب کائنات! میں قیامت تک تیرے بندوں کو بھٹکاؤں گا ۔ رب نے فرمایا :’جو میرے بندے ہوں گے وہ تیرے فریب میں ہرگزنہ آئیں گے۔

‘ تب سے اب تک رحمن اور شیطان کے پیروکار اپنے اپنے اعمال میں مصروفِ عمل ہیں۔
آج کا انسان ،جس کے تعارف کی چنداں ضرورت نہیں ۔ روزِ روشن کی طرح چمک رہا ہے ۔ کسی سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں ۔ تخلیقِ آدم سے تاحال آدم زادوں نے وہ کچھ کر ڈالا کہ فرشتوں سے انسانوں تک دنیا کی کسی بھی مخلوق کے لیے ان کے کرتب کسی حیرت انگیز کرشمہ سے کم نہیں۔
حضرتِ انسان نے عبادت کی تو ایسی کی کہ نوری فرشتوں کو حیران کر دیا۔

نیکی، بھلائی ، اخوت و بھائی چارے کی وہ مثالیں قائم کیں، جو فرشتوں کی عبادت سے کہیں بڑھ کر عظیم تر قرار پائیں ۔دنیا میں آکر آدم کے بیٹوں نے اپنے سجدوں اور جبینوں سے رب کی زمینوں کو مسجد بنا کر رکھ دیا ۔ قربانی کی وہ مثالیں قائم کی کہ نوری فرشتوں کو اِن کے لہو کے پاکیزہ قطروں کے نیچے پر بچھاتے ہوئے فخر محسوس ہونے لگا ۔ نسلِ آدم نے عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ انسانیت سے محبت اور احساس کی وہ مثالیں قائم کیں، جنھوں نے فرشتوں کو ورطہٴ حیرت میں ڈال دیا ۔


 شیطان شرمندہ و پشیماں ہوا کہ رب کے بندوں کا تو کوئی توڑ نہیں ، کوئی جوڑ نہیں ۔وہ سرگرداں ہوکر، جس بھی رب کے بندے کے پاس گیا ،شرمندہ ہوکے لوٹا۔ ابراہیم و اسماعیل کو ورغلانے میں ناکام ہوا، امامِ حسین سے عبدالقادر جیلانی تک اللہ کے بندوں کے سامنے ناکام و نامراد ہوا ۔ مشرق ومغرب ،شمال و جنوب بھاگا ۔ اُسے کہیں نظام الدین اولیا تو کہیں بابافرید الدین گنج ِ شکر دکھائی دیے ، کہیں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری  تو کہیں معین الدین چشتی اجمیری نے اُس کا منھ کالا کیا ، کہیں سلطان باہو تو کہیں بہاء الدین زکریا ملتانی  سے شکست کھائی ۔

کہیں جنید بغدادی سے پنجہ آزما ہوا توکہیں مجدد الف ثانی کی حق گوئی سے پسپا ہوا۔ کہیں رومی،کہیں رازی ، کہیں غزالی توکہیں بلھے شاہ نے اس کو کھری کھری سنادی۔
شیطان ،جس بھی رب کے بندے کے پاس گیا ،شرمسار ہوا ،لاچار ہوامگر ضدی کہیں کا رُکا نہیں ، ٹِکا نہیں ۔قولِ زریں ہے کہ تلاش کا سفر جاری رہے تو منزل مل ہی جاتی ہے۔ الغرض شیطان نے اپنے بندے تلاش کرنے شروع کر دیے ۔

اس کی ملاقات شداد سے ہوگئی ، فرعون سے ہوگئی ، قارون اور نمرود سے ہوگئی۔ وہ تلاش کے اس سفر میں ابولہب اور ابو جہل کی جہالت سے سرفراز ہوا۔ یزید اورشمر ذی الجوشن سے ملا ۔ ناچا اور ہنسا۔ اس نے اپنے مزید نمایندے بنائے ۔ اُس نے آدمی کوآدمی کا شیطان بنا کر اپنی ذمہ داریوں کو کم کر لیا ۔ اس نے دنیا میں اپنا نیٹ ورک وسیع تر کر لیا ۔ اس نے اپنی پٹاری سے انسانوں کے لبادے میں انسانوں کو ڈسنے والے ناگ نکال کر دنیا کی تماشا گاہ میں پھینک دیے ۔


 اب شیطان کا دھندا وہی نسلِ آدم سرانجام دے رہی ہے ،جس کے بابا کو سجدہ کرنے سے شیطان نے گستاخی کی حد تک انکار کر دیا تھا ۔ انسان کی فطرت کا خطرناک المیہ ہے کہ یہ باطل قوتوں کو اپنے ہاتھوں تقویت دیتا ہے اور اِس کے بعد ساری زندگی اپنے کیے پر ندامت کے آنسو بہاتا رہتا ہے۔ شیطان کے لیے انسان نے کتنا کام کیا ہے ،شاید اعداد و شمار شرمندہ ہوں ۔

شیطان ایک تھا ، تاقیامت کتنے میدان مار لیتا ۔افسوس تو اس امر کا ہے کہ حضرتِ انسان نے شیطان کا ستر فیصد کام خود ہی سرانجام دیا اور اپنے کیے کا الزام شیطان کے سر تھوپ دیا ۔
 تکبر اور سرکشی کی وجہ سے قوموں پر خدا کے عذاب نازل ہوتے رہے ۔عاد و ثمود پر عذاب کی آندھیاں اور طوفان انسانوں کو سلجھا نے آئے مگر انسان جوں کا توں رہا ۔ قومِ نوح اور قوم لوط نے عذاب الٰہی کا سامنا کیا ،مگر کچھ نہ سیکھا۔

حضرت شعیب ،حضرت صالح او قومِ اسرائیل کے انجاموں سے انسانی تاریخ کے اوراق کالے ہوئے پڑے ہیں ۔یہ عذابوں کی چند مثالیں ہیں ۔ کتنی ہی قومیں اپنے گناہوں کی پاداش میں بندروں ، ریچھوں ،سوٴروں اور قبیح جانوروں کی شکلوں میں مسخ ہوتی رہیں ۔مگر انسان نے کچھ نہ سیکھا ۔ خدا کے عذابوں کے ساتھ ساتھ انسانی ارتقا کا عمل جاری رہا ۔ انسان نے علوم و فنون میں حیرت انگیز حد تک ترقی کرلی ۔

انسان نے مریخ اور چاند تک پھدکنے کی باربار کوشش کی ۔اپنے میزائلوں کے منھ آسمانوں کی طرف کر کے آسمانی مخلوق کو اپنی طاقت کا اندازہ کرانا شروع کردیا ۔ جہازوں میں اُڑانیں بھر کر عقابوں اور فرشتوں کو ورطہٴ حیرت میں ڈالنے کی کوشش کی ۔ بارود اور اسلحہ سے قیامت برپا کرنے کی کوشش میں اپنی ہی تباہی کا سامان تیار کر لیا ۔ اپنی حرصِ شکم مٹانے اور لذتِ دندانِ آز کی خاطرمارخور سے گدھوں ، کتوں اورچمگادڑوں کے گوشت کھانے اور سوپ پینے تک سے باز نہ آیا ۔

سانپوں اور بچھوؤں کے پکوڑے بنانے لگا ۔ اِس نے وہ کچھ کرنا شروع کر دیا، جسے سوچتے ہی کسی ذی شعور کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں ۔
حضرتِ انسان کچھ ایسا حد سے بڑھا کہ اِس نے خدا کے کاموں میں دخل دینا شروع کردیا ۔اس نے تقدیر پر بحث شروع کردی ۔ اس نے بت تراش کر خدا بنانے اور پوجنے شروع کر دیے ۔ اس نے خدائی دعوے داغ کر عذابِ الٰہی کے ہزاروں اہتمام کر ڈالے ۔

اس نے فطرت سے پنجہ آزمائی شروع کرکے خلافِ معمول اور خلافِ فطرت کرتب دکھانے شروع کر دیے ۔ اس نے رب کی اطاعت اور پیغمبروں کی تعلیمات سے انحراف کی ٹھان لی ۔ اِس نے مظلوم انسانیت کا خون پینا شروع کردیا۔منافقت کے مصافحے معانقے کرنے لگا۔ کینے اور بغض کی چادر اوڑھ کر لوگوں سے گلے ملنے لگا ۔ یہ اونچے مینار اور بڑی بڑی مسجدیں اور مندر بنانے لگا ۔

یہ اپنے دین اور پیدا کرنے والے خدا تک سے فراڈ کرنے لگا۔اِس نے مذہب کو کارڈ اور لیبل بنا کر گلے میں لٹکا لیا ۔ اِس نے یادِ خدا اور عبادت کے بجائے ٹچ موبائل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ یہ ماں باپ اور انسانیت کا احترام بھول گیا ۔ یہ اتنا سیانا ہوگیا کہ موسموں اور بارشوں کی پیش گوئیاں کرنے لگا ۔ یہ قبل ازوقت چاند کی تاریخیں معین کرنے لگا مگر اتنے سب کچھ کے باوجود کئی بار اپنے بھولپن سے زلزلوں کی زد میں آگیا ۔

اِسے طاعون ، چیچک ، برڈ فلو ، ایبولا اور سوائن فلو نے کبھی بے بس کر دیا تو کبھی کسی سونامی نے اس کی بستیوں کا کباڑہ کردیا ۔
 یہ اپنے آپ میں بہت طاقتور بنتا رہا مگر ہمیشہ ٹوٹتااور بکھرتا رہا ۔ اس نے دُوربینیں اور خُرد بینیں ایجاد کرلیں مگر اسے کبھی ، ڈینگی اور پلازموڈیم نے تنگ کیا تو کبھی ایک پست قامت کرونا وائرس(Crovid 19) کے سامنے بے بسی کی مورت بن گیا ۔

مریخ اور چاند پر رکشے چلانے کا خواہش مند بے چارا انسان اپنی ہی زمین پر ایڑھیاں رگڑ رگڑ کے مرنے لگا ۔ اس کی عقل و دانش جواب دینے لگی ۔ اِس کی ہر سائنس اور سَینس (Sense)معذور ہوکر رہ گئی۔ اِس کے ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک بے بسی کی تصویرِ عبرت بن کر رہ گئے ۔ اِس کے محمود و ایازاور بندہ و بندہ نواز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے اور عید کے چاند کی طرح کسی غیبی طاقت کا کرم تلاش کرنے لگے ۔


اس وقت دنیا کے ۱۹۶ گویا دوسو ممالک کورونا وائرس کی زد میں آ چکے ہیں ۔چارلاکھ کے قریب لوگ متاثر اور بیس ہزار کے قریب لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ سائنس دان اور سیانے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں ۔اینٹی کرونا ویکسین کی دریافت و بازیافت کے لیے تجربات کیے جارہے ہیں ۔ دوسری جانب کرونا اپنی سرکشی میں آگے سے آگے بھاگے جارہا ہے ۔ ابھی تازہ ترین ہنتا وائرس (Henta Virus) نے بھی اپنا مکروہ چہرہ نمایاں کردیا ہے ۔

خدا خیر کرے ۔ انسان بے چارا بے یارو مددگار رب کے سوا کس در سے شفا پا سکتا ہے ۔ بس ایک خدا ہی ہے ،جس کی رحمت سے دنیا کے عذابوں کا خاتمہ ممکن ہے ۔
پرانے زمانے میں، جب کوئی مریض لاعلاج ہوجایا کرتا تو لوگ مایوس نہیں ہوتے تھے بلکہ ’ اللہ والی گلی ‘سے امید لگا لیتے تھے ۔ حالیہ حالات میں ترقی یافتہ اور طاقتور انسان کے پاس بچنے کا جوواحد قابلِ اعتبار راستہ ہے وہ ’ اللہ والی گلی‘ ہے ۔

انسانوں کی عقل ،جہاں خاموش ہوجاتی ہے وہاں سے حکمتِ خداوندی کا آغاز ہوتا ہے اور اسی سے دنیاکی مشکلیں حل ہوتی ہیں ۔ کوئی مانے نہ مانے ،بہر صورت یہ طے شدہ ہے کہ سب کا ایمان ایک طاقت پر ہے اور وہ طاقت درحقیقت کائنات کی حقیقی وارث و مختا ر ہستی ہے اور وہ ہستی اللہ رب العزت ہے ۔
کرونا وائرس ہماری شامتِ اعمال ہے یا عذاب الٰہی ،اس تحقیق و تجسس سے ماورا ہمیں رب کا فضل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔

اس بے نیاز کی بے نیازی ہی سے ہمارے گناہوں ، لغزشوں اور خطاوٴں کا مداوا ممکن ہے ۔اگر ہم ’اللہ والی گلی ‘ کا رخ کر لیتے ہیں تو اس ذاتِ باری تعالیٰ کی رحمت سے پلک جھپکتے میں سارے لاک ڈاؤن اور کرفیو ختم ہو سکتے ہیں ۔ سارے چہروں سے ماسک اُتر سکتے ہیں ۔ مصافحے معانقے شروع ہوسکتے ہیں ۔پھر سے سنسان سڑکیں آباد ہو سکتی ہے۔لیکن یہ جاننا ناگزیر ہے کہ کرونا وائرس عذابِ الٰہی ہے یا کوئی عبرت کا تازیانہ ، مینارہ ٴہدایت ہے یا کوئی نصیحت آموز دستک ،جودنیا کے بے حس انسانوں کے دل و دماغ کو بے حسی سے پاک کرنا چاہتی ہے ،جو دنیا والوں کو فلسطین ، برما ،شام اور کشمیر میں سیکڑوں دنوں سے لاک ڈاؤن میں پھنسی مظلوم انسانیت کا احساس دلانا چاہتی ہے ۔

شاید یہ دستک ہمیں بتانا چاہتی ہے کہ جب انسانوں کے دلوں سے انسانوں کا احساس مٹ جاتا ہے تو رب کی پکڑ اور عذاب ہمارے مردوں ضمیر وں پر دستک کا کام کرتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ رب کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ۔ اُس کا لاک ڈاؤن کسی ہٹلر، کسی نیتن یاہو،کسی نریندرمودی کے لاک ڈاؤن سے کہیں زیادہ سخت اور ناقابلِ فہم ہوا کرتا ہے ۔ یہ ترقی یافتہ ملکوں اور طاقتوں کا زور توڑ دیا کرتا ہے ۔

یہ عالمی سائنس دانوں کو بے بس کردیا کرتا ہے۔
کاش ہمیں معلوم ہوسکے کہ بے گناہوں پر ناجائز لاک ڈاوٴن اور مظلوموں کی آہوں ، سسکیوں اور بہتے لہو کا انتقام دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ لیا کرتا ہے ،جسے رب ذوالجلال کہا جاتا ہے۔ اُس کا انتقام سب پر بھاری ہوا کرتا ہے ،وہ ابابیلوں کے سامنے ہاتھیوں کے لشکروں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا کرتا ہے ، وہ لنگڑے لولے مچھروں سے بڑے بڑے نمردووں کا خاتمہ کر دیا کرتا ہے ۔

کسی موسیٰ کا اہتمام کر کے وہ فرعونوں کا خاتمہ اور فرعونیت کا غرور مٹا دیا کرتا ہے ۔ وہ دنیا کے طاقتوروں اور گستاخوں کو انسان ، قرآن ، حجاب اور لہو کی بے حرمتی کے بدلے میں چھوٹے سے کرونا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا کرتا ہے ۔وہ مظلوموں کے لاک ڈاؤن کو خاطر میں نہ لانے والے پوری دنیا کو لاک ڈاؤن کی کال کوٹھڑی میں بند کردیتا ہے ۔

وہ مظلوم ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری پر قہقہے لگانے والی عالمی طاقتوں کو بے بس اور لاچار کر کے رکھ دیتا ہے ۔ بلاشبہ اس کی قدرت کا انتقام بہت بھیانک ہوا کرتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان کہیں تنہا بیٹھ کر سوچے کہ کرونا وائرس فقط ایک وائرس ہے یا عذاب الٰہی ، تازیانہ عبرت ہے یارُشدو ہدایت بھری کوئی دستک ، ا ِسے سمجھنے کی ضرورت کی ہے۔

اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اس کا علاج ’اللہ والی گلی ‘ سے مل سکتا ہے ۔ رب اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کیا کرتا ہے ۔ شانِ خداوندی سے استفادہ کیجیے ، خدا کے بندوں سے پیار کیجیے۔کائنات سے جنگل کا قانون ختم کر دیجیے ۔ عدل و انصاف ،اخوت، مساوات اور انسانی احساس کی شمعیں روشن کر دیجیے اور’ اللہ والی گلی‘ میں جاکر رب کا فضل تلاش کیجیے تو کچھ بعید نہیں کہ زمینوں اور آسمانوں کا مالک ، حیوانوں اور انسانوں کا مالک تمھاری کائنات کو پھر سے خوشیوں کا گہوارہ بنادے۔

تمھارے اجڑتے شہروں کو پھر سے رونقوں سے بھر دے ۔ بس اپنے دلوں کو صاف کرنے کی ضرورت ہے ۔ ’اللہ والی گلی‘ میں جانے کی دیر ہے۔ یہی ہماری اور پوری دنیا کی مشکلوں کا حل ہے ۔
 ہم نے کیا کیا نہیں کیا مگراللہ کی بے نیازی سے بچتے رہے ۔ہم بھول گئے کہ اُس کی پکڑ بہت سخت ہوا کرتی ہے ، جو ہوگیا سو ہوگیا ،اب بھی جاگ جائیے! اللہ والی گلی کا راستہ پکڑیے ! اپنے اعمال پر غور کیجیے ! توبہ و استغفار کیجیے !یاد رکھیے!اُس ذاتِ رحمن و رحیم کو توبہ کرنے والے ، راتوں کو اُٹھ کر اُس کا کرم طلب کرنے والے ، اُس کی مخلوق سے پیار کرنے والے ،اُسے بہت پسند ہیں ۔

اپنے دل کے آئینے کو توڑ کر اس کی بارگا ہ میں حاضری دیجیے اور ٹوٹے ہوئے دل کی صدا کی تاثیر دیکھیے ۔ آزمائش شرط ہے ! بقول اقبال:
نہ بچا بچا کے رکھ اِسے ترا ا ٓئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
دعا ہے اللہ رب العزت ہماری تمام تر نادانیوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے،ہم سب پر رحم فرمائے اور اپنی تمام تر نادان مخلوق کو اِس وبائے ناگہانی سے محفوظ فرمائے ۔(آمین ثم آمین)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :