اُس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے

منگل 25 فروری 2020

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

بینائی سے محروم و مرحوم محقق ، ادیب اور شاعر سید اقبال عظیم کی غزل پڑھی ،جس نے دیدہ ٴ بینا کو وہ منظر ،وہ تصور عطا کیا کہ اظہار کیے بغیر رہا نہ گیا ۔ غزل کی تناظر میں احساسات نے انگڑائی لی اور محسوس ہوا کہ سید اقبال عظیم کا یہ حاصلِ غزل شعر لہو کی قیمت کا علم بردار ہے۔
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اُس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
 شاعر کی تحسین کا تقاضا ہے کہ دنیا میں مظلوم انسانوں کے بہتے لہو کے حوالے سے کچھ کہنا ناگزیر ہے ۔

لمحہ موجودہ میں کشمیر کی سلگتی اور لہو لہو وادی کا قرض بھی ہر لکھاری پر ہر لمحہ واجب الادا ہے۔جابجا ظلم و استبدادکی نت نئی کہانیاں بھی کچھ کہنے کا تقاضاکرتی ہیں ۔ لیجیے !بسم اللہ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


 ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ میں ہمیں لہو رنگ کہانیوں کی ایک طویل فہرست دکھائی دیتی ہے ۔یہ سلسلہ آدم  کے بیٹے قابیل کے ہاتھوں اس کے بھائی ہابیل کے قتل سے شروع ہوتا ہے اور سلسلہ در سلسلہ اپنا ارتقائی سفر جاری رکھتا ہے ۔

اس کائنات میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرانِ خدا کی آمد کا مقصد دنیا میں تہذیب و شائستگی پیدا کرنا ،مخلوقِ خدا کو ظلم و ستم ، بربریت سے بچانا اور سلامتی سے ہمکنار کرنا تھا ۔
 انسانی زندگی دراصل حیوانی فطرت کا ایک جز وہے اور دیگرجانداروں کی طرح انسانوں کی رگ رگ میں لہو رواں دواں ہے، جس طرح جنگلی درندوں کو مظلوم جانوروں کے خون خرابے سے لذت حاصل ہوتی ہے ۔

بد قسمتی سے مہذب اور شائستہ انسانوں کی آبادیوں میں بھی بعض درندہ صفت انسانوں نے جنگل کی وحشتوں کو رائج کررکھا ہے ۔ایسے وحشی انسان ہمیشہ یہ سوچ کر انسانیت کا خون کرتے رہتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں مر نے والوں کا نام و نشان مٹ جائے گا اور دنیا کے دلوں پر ان درندہ صفت انسانوں کی دہشت گردی کی دھاک بیٹھ جائے گی، مگر ایسا ممکن نہیں ۔تاریخ شاہد ہے کہ شہیدوں کا لہو آج تک رائیگاں نہیں گیا ۔

آج بھی ان کا لہوبولتا اور جگمگاتا نظر آتا ہے ۔ مکروہ عزائم رکھنے والے درندوں کے نام ہی صفحہٴ کائنات سے مٹاہے اور مٹتارہے گا۔
 تاریخ ِ عالم کے صفحات اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں ابراہیم  کے سامنے نمرود کی آگ بجھتی دکھائی دیتی ہے ۔موسیٰ  کے مقابلے میں فرعون غرق ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ عیسیٰ  باطل قوتوں کے سامنے آسمانوں کی بلندیوں کو چھوتے نظر آتے ہیں۔

اسلام دشمنوں کے مقابلے میں غزوات اور سریات میں بہنے والے لہو کی تابانی آج تک باطل قوتوں کے منھ پر طمانچہ ہے ۔ حق و صداقت کے علم برداروں کے ناموں کا آج تک زندہ رہنا اس بات کی عکاس ہے ،جنھیں مٹانے کے لیے دنیا کے ستم گروں نے تیروں اورتلواروں کو ہمیشہ تیز تر کیے رکھا ،مگر ان کا وجود نہ مٹ سکا بلکہ ہر عہد میں ان کے لہوکی خوشبو مہکتی رہی ہے ۔


سانحہٴ کربلا انسانی تاریخ میں ناقابلِ فراموش اور دل خراش واقعہ ہے ، لیکن اس میں صدیوں پہلے بہنے والا لہوآج بھی باطل کے ایوانوں میں بولتا دکھائی دیتا ہے ۔یزیدیت کے پیروکاروں نے مٹھی بھر پاکیزہ بندگانِ خدا کے لہو سے یہ سوچ کر ہاتھ رنگے کہ کردارِ حسین  اور آلِ رسول ﷺکا لہو ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائے گامگر انھیں کیا معلوم تھا کہ حق کے راستے میں بہنے والا لہو زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے ، ابدیت سے سرشار ہوتا ہے ۔

ایک ایسا سدا بہار پھول ہوتا ہے ،جس کی خوشبو تاقیامت مہکتی رہتی ہے ۔ جنگ بدر سے معرکہٴ کربلا تک اورمعرکہٴ کربلا سے آج تک حق وصداقت کے فرز ندوں کا لہو بہتا رہا ہے ،لیکن اس کا تذکرہ آج بھی سنائی دیتا ہے ، جب کہ باطل قوتوں کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔بلاشبہ سچے لہو کی خوشبوانسانی زندگی کو عزت و آبرو کی مہکار عطا کرتی ہے ۔شہیدوں کے غیرت مند لہو کی تابانی آج بھی باطل قوتوں کی آنکھیں چُندھیا دیتی ہیں ۔


دورِ حاضر کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو عراق ،افغا نستان ، فلسطین اور کشمیر کے ساتھ ساتھ ہمارا ملک پاکستان بھی شر پسندوں کی وجہ سے دہشت گردی کا شکار ہے ۔ بد قسمتی سے مسلمان ممالک میں کسی بھی دہشت گردی کا الزام مسلمان قوم ہی پر عا ئد کردیاجاتا ہے۔ طالبان ،القاعدہ ،حماس اور داعش وغیرہ ایسی تنظیمیں مسلمان دہشت گرد تنظیمیں شمار کی جاتیں ہیں ، مگر ان کا ایکسرے نہیں لیاجاتا کہ مسجدوں اور عبادت گاہوں کو تباہ کرنے والے کیا واقعی مسلمان ہو سکتے ہیں؟ چُنری کے نیچے کیا ہے ،درحقیقت ان تنظیموں کے نام سے کون سی ایجنسیاں اسلام کی ساکھ کو خراب کررہی ہیں، ایک طویل اور گہری سازش (Planning) کا شاخسانہ ہے ۔

حیرانی اس بات پر ہے کہ سرعام ڈرون حملے کرنے والے امریکی طیارے اور ہندوستانی تنظیم ’را ‘ کے دہشت گرد اور کشمیر میں ۲۰۰ دنوں سے دندناتے ،لہو بہاتے بھارتی سپاہی ،کس طرح پارسائی کی چادر تلے چھپا ئے جا رہے ہیں ؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ نہتے مسلمان نمازیوں پر گولیاں برسانے والے اور خود کش دھماکوں سے مسجدوں اور عبادت گاہوں کومسمار کرنے والے کس دین کے پیرو کار ہیں ؟ بے بس عورتوں اور معصوم بچوں کے قاتل کون ہیں ؟خود کش حملوں کے بعد حقیقتوں پر پردہ ڈالنے والے کون ہیں ؟سفاک قاتلوں کو محفوظ پناہ گاہیں دینے والے کون ہیں؟
واضح رہے ،جس کا نام مسلمان ہے وہ دہشت گرد ہوسکتا ہے نہ ہی کوئی دہشت گرد مسلمان کہلا سکتا ہے ۔

بطور مسلمان انسانیت کے دشمن یا قاتل کو مسلمان کہنا مسلمانی کی توہین ہے ،جہاں تک عالمی بربریت کے ردعمل ہے تو اسے دہشت گردی نہیں دفاع کا حق قرار دیا جانا چاپیے ۔ عبادت گاہوں کو مسمار کرنا یا معصوم بچوں کا خون بہانا،کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا ۔جو اس کا ارتکاب کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ، اسے مسلماں کہا جائے نہ ہی اسے اسلام سے منسوب کیا جائے ۔

عبداللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ نبی ٴ رحمت ﷺنے فرمایا
اَ لْمُسْلِم ُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہ وَ یَدِہ
 مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں
کون نہیں جانتا کہ عالمی دہشت گرد کون ہے ، کس کس ملک کے دامن پر کیا کیا داغ ثبت ہیں ۔ بھارت اور اسرائیل جو مسلمانوں پر زندگی کا دائرہ تنگ کیے ہوئے ہیں ،دنیاکے کسی منصف کی عینک میں کیوں نہیں آرہے، یہ مشکل پہیلی نہیں، ہر ذی شعور بخوبی سمجھ سکتا ہے ،اسی طرح غیر ملکی ایجنسیوں اور دنیا کی حفاظت کے ٹھیکے داروں کے کرتوت بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔


ہر ظلم کی ایک آخرش ہے ،ان مکروہ خیالوں کو بہر حال یا د رکھنا ہوگا کہ معصوموں کا لہو چلا چلاکر تمھیں بے پردہ کردے گا ،کیوں کہ لہو بولتا ہے اور اپنی قیمت بھی مانگا کرتا ہے ۔ امید پہ دنیا قائم ہے ۔اقبال عظیم کی زیرِ بحث غزل ہی کا ایک شعر ہے :
اے قافلے کے لوگو ذرا جاگتے رہو
سنتے ہیں قافلے میں کوئی راہ نما بھی ہے
حقیقت تو یہ ہے کہ اصل مجرم کہیں اورگھات لگائے بیٹھا ہے ،جو مسلمان کو مسلمان کے خلاف استعمال کررہا ہے ،مگر کب تک یہ وحشی بھیڑیے بھیڑ کی کھال میں چھپتے رہیں گے ؟ کب تک اپنے مکروہ چہروں پر منافقت کے ماسک چڑھائے رکھیں گے ؟ کب تک اپنی فریب کاری کے اوور کوٹ میں اپنی ناپاک اصلیت چھپائے رکھیں گے ؟کب تک معصوم بچوں اور بچیوں کے ہاتھ سے تختی ،سلیٹ ،قلم اور کتاب چھین کر درندگی اور بارود کی نذر کرتے رہیں گے ؟ سڑکوں ،بازاروں اور مارکیٹوں میں معصوم لہوکب تک نادرشاہی کا ظلم سہتا رہے گا؟ امید پہ دنیا قائم ہے اورکبھی تو امید کا سورج طلوع ہوگا ،جب دنیا کے مکروہ خیال درندے بے نقاب اور ذلیل و رسوا ہوں گے۔

مظلوم انسانیت کا بہتا لہو اپنا خراج پانے میں سرخرو ہوجائے گا ۔
انسانیت کے سفاک دشمنوں ، قاتلوں اورمکروہ درندو ں کے حافظے میں بہتے لہو کا یہ پیغام محفوظ رہنا چاہیے کہ رات جتنی بھی لمبی ہو کبھی نہ کبھی ختم ضرور ہوجاتی ہے ۔ ایک دن ضرور آئے گا ، جب انسانیت کے قاتل بے نقاب ہو جائیں گے ۔ کوئی موسیٰ فرعون کے خدائی دعووں کی قلعی کھول دے گا۔

جہالت اور درندگی کی کمین گاہیں ضربِ عضب و ضربِ حیدر ی سے پارہ پارہ ہوجائیں گی ۔کوئی محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی یا سلطان محمود غزنوی طاغوتی طاقتوں کا پیچھا ضرور کرے گا ۔مظلوموں کا پاکیزہ لہو چلا چلا کر اہلِ جوروستم کا احتساب ضرور کرے گا۔
 انسانیت کے قاتلو ! تمھارے گریبان انھیں مظلوم ہاتھوں میں ہوں گے اور تمھاری ہر سفاکانہ فریب کا ری ریزہ ریزہ ہوجائے گی۔

آج نہیں تو کل ، جب دنیا کے بہت بڑے منصف کی عدالت لگے گی ، جب سورج سوا نیزے پر ہوگا ،جب ہر کسی کو اپنی پڑی ہوگی، تمھارے دامن پر لگا مظلوم انسانیت کا لہو بولے گا اور تم اس منصف کی پکڑ سے نہیں بچ سکو گے ۔ تمھاری ہر چالاکی ،تمھارا ہر ظلم ، ہر سازش اور ہر مکر و فریب وَاللّٰہ ُ خَیْرُ المٰکِرِیْن ہستی کے سامنے بے نقاب ہو جائے گا ۔ بقول سید اقبال عظیم :
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اُس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :