کورونا وائرس، ہماری غلطیاں

بدھ 22 اپریل 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

دسمبر 2019 میں چین کے صوبہ وہان میں اس وقت تہلکہ مچ گیا جب کرونا وائرس نے چین میں اپنے پنجے گاڑھنے شروع کردیے۔ یہ بالقل اسی خاموشی کے ساتھ ہوا جیسے چین نے خاموشی سے  دنیا کی معیشت میں اپنا نام و مقام حاصل کیا۔ بہر حال ہم دیکھتے ہیں کہ چینی قوم اس مرض کے خلاف ایک متحد قوم نظر آتی ہے۔ کہیں 10 دنوں میں ہسپتال بنتا ہے تو کہیں ڈاکٹرز 72 گھنٹے کام کرتے نظر آتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے چین 3 ماہ میں اس مرض پر اپنی گرفت مضبوط کر لیتا ہے۔
اب یہ کرونا وائرس صرف چینی مرض نہیں رہا بلکہ اس نے عالمی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اس وقت برطانیہ، امریکا، فرانس و  اٹلی جیسی بڑی بڑی طاقتیں بھی اس وبا کا مقابلہ نہیں کر پارہیں۔  ہم دیکھتے ہیں کہ ایران بارڈر سے کرونا وائرس پہلے کراچی و پھر ملک بھر میں پھیل جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ہمیں وفاق و سندھ کی پالیسیز میں تضاد بھی نظر آتی ہیں۔ اس وقت سیاسی، مذہبی و بالخصوص اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ ملکر اس کرونا وائرس کو شکست دیں، مگر بدقسمتی سے ہر طبقہ مجھے اس مشکل وقت میں تقسیم نظر آتا ہے۔ ایک طرف مولانا حضرات کی ایک الگ بحث ہے کہ جمعہ المبارک باجماعت ادا کرنی ہے یا نہیں۔ ایک جانب ایک طبقہ نماز گھر تو دوسری طرف ایک طبقہ نماز تراویح کی باجماعت ادائیگی کا فتویٰ دیتا نظر آتا ہے۔

میری گویا عالمی میڈیا پر بھی نظر ہوتی ہے تو بھارت کے نجی چینل پر بھی پاکستان کے عظیم مذہبی رہنما علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے فتویٰ کہ اپنے آپ کو گھر میں محصور کرلیں خاصی توجہ دی گئی۔ اسی طرح مفتی منیب الرحمن صاحب کا ایک طرف فتویٰ کہ نماز با جماعت مسجد مین ادا کریں کوئی کرونا نہیں ہوگا۔ بہر حال مذہبی رہنما ہوں یا سیاسی تقسیم نظر آتے ہیں۔


محترم وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب جہاں لاک ڈاؤن کیے بیٹھے ہیں وہیں وہ غریبوں کے لیے بھی فکر مند نظر آے۔ احساس کفالت پروگرام سے درحقیقت ضرورت مندوں کو امداد فراہم کی جارہی تو دوسری جانب راشن بھی فراہم کیا جارہا ہے۔ ادھر مختلف این۔جی۔اؤز بھی متحرک نظر آرہی ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے لاک ڈاؤن سے ہم اس کرونا وائرس کو شکست دے دیں گے؟ اس وبا کو شکست دینے کے لیے ہمیں ایک قوم بننا ہوگا۔

احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا ہوگا۔ بلا ضرورت گھر سے باہر نا جا کر ہم اس وائرس کو شکست دے سکتے ہیں۔ ماسک کے استعمال و بار بار ہاتھ دھونے سے ہم اس وائرس کو شکست دے سکتے ہیں۔
مگر آج جس جانب توجہ مرکوز کروانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بازاروں میں لوگوں کا ہجوم آج بھی نظر آتا ہے۔ پاکستان میں کرونا آہستہ آہستہ پھیلتا جارہا ہے۔ کیا نرم لاک ڈاؤن سے ہم غلطی تو نہیں کررہے۔

میری حکومت وقت سے گزارش ہے کہ ہمیں 14 دن کے لیے مکمل طور پر کرفیو لگا دینا چاہئیے۔ اس وبا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا حل فقط سخت کرفیو و عالمی فلائٹز کی پابندی سے ہی ممکن ہے۔ اسی طرح عوام الناس میں سے مایوسی نکالنے اور ذہنی دباؤ کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وبا اتنی خطرناک نہیں جتنا انسان پریشان ہو کر اپنی زندگی تباہ کر رہا ہے۔  اسی طرح اچھی غذا یعنی ایسی غذا جو قوت مدافعت کو بڑھاے انکا کثرت سے استعمال انتہائی اہم ہے۔

پھل، سبزیاں، وٹامن ای کا استعمال، گندم وغیرہ کا استعمال اس وقت انتہائی اہم ہے۔ بے  شک اس وkkقت ہم قرنطینہ کی حالت میں ہمیں پریشان ہونے کی بجاے مختلف کتب کا مطالعہ کرنا چاہئیے۔فیملی کو زیادہ ٹائم دینا چاہئیے۔ ہم جدید و مصروف ترین زمانے میں والدین و بچوں میں کافی فاصلہ آگیا تھا، والدین کو بچوں کی خاص تربیت کی جانب متوجہ ہونا چاہئیے۔

اس وقت کو صرف انٹرنیٹ و ٹی۔وی کی نظر نہیں کرنا چاہئیے بلکہ والدین/اولاد، کتب (دنیاوی/دینی)، اخلاقی و روحانی تربیت، ورزش و دیگر مفید مصروفیات کے بھی نظر کرنا چاہئیے۔گھر میں باجماعت نماز کا اہتمام و بچوں میں نماز و عشق الہی کا شوق اجاگر کرنا چاہئیے تاکہ سوسائٹی کی بنیاد فیملی مضبوط و مستحکم ہو جس سے معاشرہ بھی مضبوط و مستحکم ہو۔ صرف حکومتی اقدامات و فیصلوں سے ہم کرونا کو شکست نہیں دے سکتے، ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کے ہر فرد کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔

ڈاکٹرز ہیں یا پیرامیڈیکل اسٹاف، پولیس، ریسکیو کی ٹیمیں و افواج پاکستان کی خدمت کو سراہنا بھی میڈیا کی ذمہ داری ہے جو فرنٹ لائن پر اس وبا کے خلاف لڑرہے ہیں۔ ہم سب کو، ہر ہر فرد کو مکمل ذمہ داری نبھانی ہوگی اور مکمل احتیاط کرنا ہوگا۔ ہمارا ملک ہم سے اور ہم اس ملک سے ہیں۔ جس قوم نے دہشت گردی، 2005 زلزلہ و دیگر مسائل دیکھے ہوں اور ہر محاذ پر متحد رہی اگر اب بھی ہم نی ذمہ داری کا مظاہرہ نا کیا تو ہم بکھر سکتے ہیں۔ اللہ‎ کے حضور دعاگو ہوں کہ جلد کرونا وائرس کا خاتمہ ہو اور اسکی رحمت کا سایہ اس ملک و عالم اسلام پر ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :