چسکورے، پانچواں سوار، نیم حکیم اور شعبدہ بازی

بدھ 1 دسمبر 2021

Hassan Sajid

حسن ساجد

جنوب ایشیائی خطے کی تہذیب و ثقافت اور یہاں کے باسیوں کی روایات دیکھ کر ان کی زندہ دلی اور حاضر دماغی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مختلف حکمرانوں کے ادوار دیکھنے، سننے اور پڑھنے والے ہمہ جہت شخصیت کے حامی یہاں کے اہل قلم نے اپنے علاقے کے ادب یعنی لٹریچر کو وہ وسعت بخشی ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ بالخصوص اردو اور پنجابی ادب میں آپ کو اکثر ایسے الفاظ مل جائیں گے جو ہر موقعے پر آپ کی لفظوں کی تشنگی کو دور کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔

  ان الفاظ کو میں اپنی دانست میں کثیرالمقاصد الفاظ کہتا ہوں۔ ایسا ہی ایک لفظ "چسکورا" ہے۔ چسکورا پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں بیک وقت استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ چسکورا کے لفظی معنی تو "ذائقہ شناس" کے ہیں مگر یہ اصطلاح کثیر المقاصد ہے۔

(جاری ہے)

مثال کے طور پر ایسا شخص جسے طرح طرح کے پکوانوں اور لذیذ کھانوں سے لگاو ہو اسے ہمارے یہاں چسکورا کہا جاتا ہے اسی طرح ایسا شخص جسے طرح طرح کی خبروں کو سب سے پہلے جاننے کی جستجو ہو یا ایسا شخص جو مطلب و بن مطلب کی تمام خبروں کی ٹوہ میں ہر وقت سرگرداں رہے اسے بھی چسکورا کہا جاتا ہے۔


ایشیائی خطے میں مصالحہ جات کے بے دریغ استعمال نے ہمارے اس ظرف کو مزید وسعت بخشی اور ہم من حیث القوم چسکورے پن کا شکار ہوگئے۔ ہماری جبلت میں موجود ذائقہ شناسی نے ہمیں ایسا چسکورا بنا دیا ہے کہ کھانوں کے ساتھ ساتھ ہم ہر وقت حالات حاضرہ سے متعلق بھی نمک مصالحوں سے بھرپور خبروں کی ٹوہ میں رہتے ہیں۔ ہم اس معاملے میں ایسے بلا کے چسکورے واقع ہوئے ہیں کہ ہر وقت نئے چن (چاند) کے چڑھنے کے منتظر ہوتے ہیں۔


تحریر کے عنوان میں دوسری اصطلاح "پانچواں سوار" ہے جس کے متعلق ہم سب اپنے زمانہ طالب علمی میں اپنے اساتذہ سے بارہا سن چکے ہیں مگر یاد دہانی کے لیے ایک بار پھر سے بتائے دیتا ہوں کہ کسی زمانے میں چار گھڑ سوار بڑی شان و شوکت سے کسی مقصد کے تحت دلی (دہلی) جانے لگے تو ان کی دیکھا دیکھی ایک شخص گدھے پر سوار ہو کر خواہ مخواہ ہی ان کے پیچھے ہو لیا۔

یہ چار سوار جب بھی کسی علاقے سے گزرتے تو "چسکورے" ایک دوسرے سے سوال کرتے کہ یہ چار سوار کہاں جا رہے ہیں تو گدھے پر سوار آدمی جھٹ سے اپنے سینے پر ہاتھ مار کر جواب دیتا ہم پانچ سوار دلی جا رہے ہیں۔ تب سے پانچواں سوار کی اصطلاح ایسے لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کسی بھی اہم معاملے میں خود کو خواہ مخواہ شامل کرنے کی ضد میں رہتے ہیں۔

یہ اصطلاح ایسے افراد کے لیے عام استعمال کی جاتی ہے جو اپنی جگہ معززین و اکابرین میں بنانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ آپ ایسی شخصیات کے لیے زبردستی کے دانشور یا بالجبر مسلط شدہ فلاسفر کی اصطلاح بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ شومئی قسمت کہ ہمارے یہاں چار سوار پورے ہوں نہ ہوں لیکن یہاں پانچواں سوار کثرت سے پایا جاتا ہے جو عوام الناس کے چسکورے پن سے فیض یاب ہوکر اپنی دکانداری چلاتا رہتا ہے۔


تحریر کے عنوان میں تیسرا لفظ نیم حکیم ہے۔ نیم حکیم بھی ایک اصطلاح ہے جو اپنے اندر ایک مکمل کہانی سمیتے ہوئے ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی اونٹ کے گلے میں بڑا تربوز پھنس گیا جس کے باعث اس کی حالت خراب ہونے لگی اور وہ لڑکھڑا کر گر پڑا ۔ جونہی اونٹ کے مالک کو معلوم ہوا کہ اونٹ کے گلے میں تربوز پھنس گیا ہے تو اس نے فوری طور پر اونٹ کے گلے پر کپڑا باندھا اور ایک لکڑی کا بنا ہتھوڑا اس کے گلے پر زور سے مارنا شروع کردیا جس کی بدولت تربوز ٹوٹ گیا اور اونٹ اسے باآسانی نگل کر بہتر محسوس کرنے لگا۔

دور سے مشاہدہ کرتے ایک احمق نے سمجھا کہ شاید یہ گلہڑ (Goiter) کا علاج ہے لہذا موصوف اگلے ہی دن مختلف دیہاتوں کے دورے پر نکلے اور خود کو گلہڑ کا معالج متعارف کروانے لگے۔ کسی گاوں میں عمر رسیدہ بڑھیا بھی گلہڑ کے مرض میں مبتلا تھی جسے اس نیم حکیم کے حضور علاج کے لیے حاضر کیا گیا۔ موصوف نے اس کے گلے پر کپڑا باندھا اور زور سے ہتھوڑے کی ضرب لگائی جس سے بڑھیا گلہڑ سمیت ہی اس دنیا سے چلتی بنی۔

جب گاوں والوں نے اس حماقت پر اسے پکڑ کر قاضی کے حوالے کیا تو اس نے کہا جناب میرا کوئی قصور نہیں قصور تو اونٹ والے کا ہے جس نے اونٹ کا علاج ہتھوڑے کی ضرب سے کیا میں نے تو اسی کا دیا ہوا ٹوٹکا آزمایا ہے۔ تب سے "نیم حکیم" کی اصطلاح ایسے افراد کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو حقائق و واقعات سے بے خبر ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے اور ہر مسئلے پر بطور فلاسفر و مفکر تجزیہ تو کرتے ہیں مگر ان کی باتوں کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔

الٹا جب ایسے رانگ نمبرز کی پشین گوئی غلط ثابت ہوتی ہے تو یہ اپنی حماقت کا نزلہ بڑی ڈھٹائی سے گزشتہ سے پیوستہ کرکے پتلی گلی پکڑ لیتے ہیں۔
تحریر کے عنوان میں چوتھی اور آخری اصطلاح "شعبدہ بازی" کی استعمال کی گئی ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے ایک بار پھر سے ہم بچپن کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں۔ بچپن میں اکثر ہمارے گلی محلوں اور چوک چوراہوں میں مداری آیا کرتے تھے جن میں سے کچھ اپنے ہاتھ کی صفائی کے کرتب دکھایا کرتے تھے تو کچھ بندر، سانپ یا ریچھ کا تماشہ دکھا کر لوگوں کو اپنے گرد جمع کرکے اپنی گزر بسر کا نظام چلایا کرتے تھے۔

ان کا یہ کھیل تماشا کرنا شعبدہ بازی کہلاتا ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ان شعبدہ بازوں نے آج تک وہ 150 سالہ ناگ نہیں دکھایا جس کا وعدہ وہ اپنے کرتب کے آخر پر دکھانے کا کیا کرتے تھے۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے نیوز چینلز کا کردار بھی آج کل شعبدہ بازوں جیسا ہوچکا ہے جو اپنا تماشہ دکھانے اور اپنے گرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا رکھنے کے لیے معمولی سی بات کو بھی بریکنگ نیوز بنانے اور خبر (چاہے مکمل طور پر غلط ہی ہو) سب سے پہلے عوام تک پہنچانے کے چکر میں جنون کی حد تک کوشاں ہیں۔


یوں تو اوپر بیان کردہ چاروں اصطلاحات ہر قوم اور ہر ملک میں کسی نہ کسی حد تک موجود ہیں مگر ہمارے یہاں یہ چاروں ورائٹیز  بکثرت پائی جاتی ہیں۔ چسکوری عوام کو (جو ہر وقت کسی نہ کسی چسکے یا کسی نہ کسی چن Moon کے چڑھنے کی منتظر ہوتی ہے) کو پانچواں سوار ہاتھوں ہاتھ لیتا ہوا اپنی نیم حکمت سے ہر مرض کے لیے تیار شدہ منجن بیچ دیتا ہے جس کو کسی حد تک میڈیا کی شعبدہ بازی بھی سپورٹ کرتی ہے اور یوں ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا معاملہ ایک مداری یا کرتب میں تبدیل ہو جاتا ہے جس کے تماشائی مقامی و بین الاقوامی سطح تک تمام لوگ ہوتے ہیں۔

معذرت کے ساتھ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پارلیمنٹ میں وزیراعظم یا اپوزیشن ارکان میں سے کوئی فرد زور سے چھینک بھی لے تو یہاں بریکنگ نیوز بن جاتی ہے جس پر پانچویں سوار اپنے تجزیات و مقالہ جات سے صورتحال کو ایسی گھمبیر شکل دے دیتے ہیں کہ عام آدمی ذہنی خلفشار کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ایسی بے معنی و بے مقصد قیاس آرائیوں سے جن کا کوئی سر پیر ہی نہ ہو عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسائی اور سبکی ہوتی ہے جسے پوری قوم کو تمام اہم مواقع پر بھگتنا پڑتا ہے۔

لہذا میڈیا کے تمام افراد سے گزارش ہے کہ ہر معاملے سے منسلک اہم اور مصدقہ خبر کو مثبت انداز میں ہیش کیا جائے تاکہ خبر سے سنسنی کی بجائے آگاہی پھیلے اور عوام ذہنی خلفشار اور ہیجانی صورت حال سے دوچار ہونے کی بجائے معلومات حاصل کرے۔ دوسری جانب خود کو پانچواں سوار منوانے کے لیے بضد افراد سے دست بستہ گزارش ہے کہ ہم آپ کے تجزیات اور آپ کی پشین گوئیوں کے دل سے قائل ہیں مگر خدا کے لیے قوم اور قومی وقار کی حالت پر ترس کھائیں اور اس معاملے پر اپنی قیمتی آراء سے ہمیں مستفید نہ کریں جو آپ کا متعلقہ شعبہ نہیں ہے۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :