یہ ہم سب کی جنگ ہے

جمعرات 2 ستمبر 2021

Hassan Sajid

حسن ساجد

انسان ایک معاشرتی مخلوق ہے جو کرہ ارض پر موجود دوسرے انسانوں سے تعلقات قائم کرتا ہے۔ انسانوں کے باہمی تعلقات جنگ اور امن دونوں نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔ اور اگر ہم کرہ ارض پر جنگی تاریخ کا اندازہ کرنا چاہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ زمین پر جنگ کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ خود انسان کی۔ انسان دوسرے انسانوں پر مذہب، قوم، ذات، رنگ اور نسل کی بنیاد پر فوقیت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرتا ہے اور یہ جنگی سلسلہ انسانوں سے بین الاقوامی سطح تک کا سفر اسی منطق کے تحت طے کرتا ہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ جہاں انسان دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے وہیں بدلتے زمانے کے ساتھ جنگی انداز بھی بدل رہے ہیں۔ بدلتی ٹیکنالوجی نے جہاں دیگر شعبوں میں انقلاب برپا کیا ہے وہیں جنگی حکمت عملیوں اور جنگی تکنیکوں پر بھی ٹیکنالوجی نے گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔

(جاری ہے)

  جنگی حکمت عملی کو جنگی ماہرین نے جدت اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر مختلف جنریشنز میں تقسیم کیا ہے۔


زمانہ اول کے لوگ لڑائی یا جنگ کے لیے چھری، چاقو، تیر اور تلوار کا استعمال کرتے تھے اور آمنے سامنے آکر لڑتے تھے ۔ ایسی جنگوں کو جیتنے کے لیے بہادر جنگجووں پر مشتمل مضبوط افرادی قوت کو مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ زمانہ اول کی جنگوں کو جنگی ماہرین فرسٹ جنریشن وار کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔
جنگ میں جب گولہ، بارود، توپیں اور بندوقیں شامل ہوئیں تو جنگی اہمیت میں افرادی قوت کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی ضرورت کا اضافہ ہوگیا۔

ماہرین نے اس جنگی حکمت عملی کو سیکنڈ جنریشن وار یعنی دوسرے دور کی جنگ کا نام دیا جس میں اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے بغیر محض افرادی قوت کے زور پر جنگ میں سبقت حاصل کرنا ناممکن ہوگیا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث انسان نے جہاں اپنی زندگی پرآسائش بنانے کے لیے مختلف ایجادات کیں وہیں اس نے اپنے مضبوط دفاع اور جنگی ضروریات کے پیش نظر ہتھیاروں اور اسلحے کی تیاری کے میدان میں بھی ترقی کرتے ہوئے اپنی دفاعی قوت میں لڑاکا طیاروں، بحری آبدوزوں، ٹینکوں اور لاننگ رینج آرٹلری کا اضافہ کرلیا جس کی بدولت وہ اپنے دشمن کی جغرافیائی اور فضائی سرحدوں میں گھس کر اسے نشانہ بنانے کے قابل ہو گیا۔

یاد رہے کہ ایٹم بم بھی اس دور کی خطرناک جنگی ٹیکنالوجی ہے جس کی ہلاکت خیزی کے گواہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے شہر ہیں۔ جنگی ماہرین نے اس خطرناک جنگی دور کو جس میں ایٹم بم سمیت دیگر ہیوی مشینری استعمال ہوتی ہے تھرڈ جنریشن وارفئیر کا نام دیا ہے۔
تھرڈ جنریشن وار تک کی تمام جنگوں میں کسی بھی ملک کی اپنی افرادی قوت و اسلحہ استعمال ہوتا رہا ہے لیکن فورتھ جنریشن وار یا چوتھے دور کی جنگی حکمت عملی نے جنگوں میں ذاتی فوج اور اسلحہ کے استعمال کی سوچ کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

اس جنگ نے براہ راست لڑائی کے نکتہ نظر کو تبدیل کر دیا اور انسان جنگ میں اپنے دشمن کے سامنے آئے بغیر اسے تباہ کرنے کی تکنیک استعمال کرنے لگا۔ گوریلا وار، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گرد کاروائیاں فورتھ جنریشن وار کی اہم مہارتیں گردانی جاتی ہیں۔ اس جنگی حکمت عملی کے تحت ممالک اپنی جنگیں اغیار کے ذریعے لڑتے ہیں جسے عرف عام میں کرائے کے قاتلوں کے ذریعے لڑنا کہتے ہیں۔

اس تکنیک میں ممالک کے ذمہ کرائے کے قاتلوں کے لیے محض روپیہ پیسہ کا انتظام ہے باقی کی تمام سر دردی  بھاڑے پر حاصل شدہ گروہ کی ہوتی ہے کہ کس طرح وہ دشمن ملک میں تخریب کاری کرکے اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایک عرصہ تک یہ جنگی انداز اقوام عالم میں خاصہ مقبول رہا اور اس جنگی انداز کی تباہ کاریوں کے گواہ زبوں حال عراق، افغانستان، یمن اور شام ہیں۔


ٹیکنالوجی  میں آئے روز ہوتی تجدید نے جنگی انداز کو بھی بے انتہا جدت بخشی ہے اور اب جنگ کا دائرہ کار جغرافیائی سرحدوں پر قبضہ سے بڑھتا ہوا نظریاتی طور پر چڑھائی تک پہنچ آیا ہے۔ دور حاضر میں جنگی حکمت عملی نے ایسی شکل اختیار کر لی ہے جس میں افرادی قوت، اسلحہ، گولہ بارود، بم، توپ ، ٹینک اور کرائے کے قاتلوں کی اہمیت انتہائی درجہ تک کم ہوگئی ہے۔

دور حاضر کی جنگیں نظریات اور اعصاب کی جنگیں ہیں اور اس کے لیے استعمال کی جانے والی حکمت عملیوں کو ففتھ اور سکستھ جنریشن وار کہتے ہیں۔
چونکہ  ٹیکنالوجی کی تیز ترین اور جدیدترین قسم انفارمیشن سائنس ہے لہذا موجودہ دور میں دشمن کو زیر کرنے اور اس پر سبقت لے جانے کے لیے اسی کا استعمال کرتے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار کو عرف عام میں نظریات کی جنگ یا وار آف آئیڈیالوجی کہتے ہیں اس حکمت عملی میں بارڈر کی بجائے نظریاتی، سماجی، معاشرتی، اخلاقی، تمدنی، ثقافتی، معاشی اور سفارتی محاذوں پر جنگ لڑی جارہی ہے۔

اس میں علاقوں اور دشمن کی چھاونیاں فتح کرنے کی بجائے اس کی قوم کو نظریاتی، اخلاقی اور ثقافتی طور پر فتح کیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ اعتقاد اور اعصاب کی جنگ ہے جس میں کسی قوم کے نظریہ اور نصب العین کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور عوام کو ان کے اصل نصب العین سے دور کرکے مختلف معاشرتی و اخلاقی اختلافات اور خرافات میں الجھا دیا جاتا ہے۔

پاکستان اس جنگ سے دو دہائیوں سے نبرد آزما ہے۔ پی ٹی ایم، لال لال والی آنٹیاں اور دیسی لبرل ٹولے اسی جنگ کا تحفے ہیں۔
میرے نزدیک اب تک کی خطرناک ترین جنگی حکمت عملی سکستھ 6th جنریشن وار ہے جسے ماہرین ڈس اور مس انفارمیشن وار کہتے ہیں۔ اس جنگ میں ممالک ایک دوسرے کو عالمی سطح پر بدنام کرنے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور عوام میں اضطراب پیدا کرنے کے لیے منفی پروپیگنڈا اور افواہوں کا سہارا لیتے ہیں۔

  مس انفارمیشن یعنی آدھی ادھوری اور مہبم معلومات یا ڈس انفارمیشن یعنی جھوٹی اور من گھڑت خبروں کو عوام میں عام کرکے پوری قوم کو اعصابی طور پر متاثر کیا جاتا ہے اور ملک میں اضطراب یا ہیجان کی سی صورت پیدا کردی جاتی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ یہ سچ اور وہم، حقیقت اور مبالغے کے بین بین لڑی جانیوالی جنگ ہے۔
ففتھ اور سکستھ جنریشن وار کی جنگیں گولے بارود کی بجائے زیرک اور شاطر دماغوں کی مدد سے لڑی جا رہی ہیں۔

ان جنگوں میں دشمن کے نظریاتی، ثقافتی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی پہلووں کا بغور مطالعہ کیا جاتا ہے اور پھر کمزور ترین پہلو پر حملہ کیا جاتا ہے۔ اس جنگ کا اہم ترین ہتھیار میڈیا ہے جس میں ڈراموں، فلموں، قصوں اور کہانیوں کی مدد سے نظریاتی و معلوماتی طور پر کسی قوم کو شکست دی جاتی ہے۔ ڈس انفولیب کی جانب سے جاری کردہ انڈین کرانیکلز کا اسکینڈل انفارمیشن وارفئیر کی ایک بڑی مثال ہے جس میں بھارت نے پاکستان کی بدنامی اور بدامنی کے لیے اربوں ڈالر میڈیا تشہیر میں پھونک دیئے۔


مندرجہ بالا تمام گفتگو کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دور جدید کی یہ جنگ محض بارڈر پر کھڑی فوج کی نہیں بلکہ بحیثیت قوم ہم سب کی جنگ ہے اور اس جنگ کا اہم ترین میدان سوشل میڈیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے مگر افسوس کہ ہم سوشل میڈیا کو ہنسی مزاح، گانوں فلموں اور اغیار کی چالوں میں پھنسنے زیادہ استعمال نہیں کر رہے۔

ہمارا دشمن ہمارے وطن میں عدم استحکام،  بدامنی اور انتشار پھیلانے اور پاکستان کو اقوام عالم میں بدنام کرنے کے لیے مختلف سوشل میڈیا لابیز تشکیل دے رہا ہے جس کی سرپرستی ہمارے دشمن کی جانب سے سرکاری سطح پر کی جارہی ہے۔ یہ تربیت یافتہ  سوشل میڈیا لابیز باقاعدہ طور پر پاکستان کی تاریخ، ثقافت، ہمارے نظریات اور ہمارے اداروں کے خلاف جھوٹی خبریں اور من گھڑت افواہیں پھیلا کر عوام کو گمراہ کرتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دشمن کی یہ لابیز سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف بیانیہ چلا کر ہمیں اقوام عالم میں بدنام کرنے میں بھرپور مگن ہیں۔

حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستانی عوام کو بھی اس جنگ میں وطن عزیز کے دفاع اور تکریم کی خاطر کودنا ہوگا اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔
بحیثیت محب وطن پاکستانی یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم مملکت خداداد کے خلاف منفی اور انتشار پر مبنی پروپیگنڈا کو زور قلم سے ناکام بنانے اور وطن عزیز کے دفاع کے لیے سوشل میڈیا کا مثبت اور ملکی مفاد میں استمعال یقینی بنائیں۔ اپنے وطن کا بہتر اور خوبصورت تشخص پوری دنیا میں اجاگر کریں۔  
کیونکہ یہ سکستھ جنریشن وار کا دور ہے اور یہ ہم سب کی جنگ ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :