ہم اور عہد آزادی

جمعہ 13 اگست 2021

Hassan Sajid

حسن ساجد

یوں تو ہفت اقلیم میں روز ازل سے ہزاروں لاکھوں تحاریک رونما ہوئی ہیں جن میں عہد جدید کی یورپی اور فرانسیسی تحریکیں اپنا جواب نہیں رکھتیں لیکن انیسویں صدی کے آواخراور بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر پاک وہند میں جس عہدساز تحریک آزادی نے جنم لیا اور پروان چڑھ کر برگ و ثمر بار ہوئی اس کی نظیر نہیں ملتی یہ ایک ایسی مقدس، پرعظمت و پرہیبت تحریک تھی جس نے ناصرف اذہان و قلوب کو متاثر کرکے پاک و پلید اجسام کو الگ الگ شناخت بخشی بلکہ یہ واحد تحریک ہے جس نے کرہ ارضی پر پاکی وپلیدی کی ارضی تقسیمِ کرکے دنیا کے فلاسفروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا -
تقسیمِ برصغیر کی تحریک یوں تو انیسویں صدی میں منصہ شہود پر آئی لیکن اس کی بناء اٹھارویں صدی میں پلاسی کے مقام پر رکھی جا چکی تھی بلکہ یہ کہنا بھی مبالغہ نہیں ہو گا کہ اس تحریک کی بناء ابن قاسم رحمۃ اللّٰہ علیہ کی سندھ آمد کے وقت ہی رکھ دی گئی تھی کہ جب پہلا مسلم فاتح نہایت تزک و احتشام کے ساتھ برصغیر میں وارد ہوا اور یہاں طاغوتی نظام کے سامنے کلمہ طیبہ کا آفاقی نظام ناصرف  مقابل ہوا بلکہ فاتح ٹھہرا اور یوں کلمہ طیبہ کی بنا پر وجود میں آنے والی مسلم قوم دیگر اقوام باطلہ کے مقابلے میں ممتاز ومتفخر ہوئی۔

(جاری ہے)


مسلم قوم کو ممتاز و متفخر بنانے کے لیے شاہان عجم کے ساتھ ساتھ دیگر رہنمایان مسلم نے اپنے اپنےعہد اور حصے کے کارہائے نمایاں سرانجام دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی.

بہت پیچھے نہ بھی جائیں تو بھی ولی کامل ہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان عظیم کے سپوتوں کے ساتھ ساتھ سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ، شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ، سید جمال الدین افغانی رحمۃاللہ علیہ، صوفی کامل مجاہد حریت حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمۃاللہ علیہ، شیخ الہند مولانا محمودالحسن اسیر مالٹا رحمۃاللہ علیہ جیسے اجل زعماء نے اس تحریک کو اپنا خون جگر دے کر پروان چڑھایا.


یہ مسلمانانِ ہند کی خوش بختی تھی کہ ایسے تمام اکابر رہنماؤں کو اپنے اخلاف میں دو ایسے انمول ہیرے میسر آئے جنہوں نے ان کی تحریک کی آبیاری کر کے برگ و بارتک پہنچانے کی سعی جمیلہ میں اپنا تن من دھن نچھاور کیا اورکامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے. ویسے تو اس دور میں بھی ان گنت رہنما مسلمانوں کو میسر آئے لیکن برصغیر پاک وہند کے قلب لاہور سے قلندر لاہوری حضرت پیر و مرشدحکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور باب ہند و سندھ کراچی سے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃاللہ علیہ دو ایسے مدبر رہنما تھے جن کے تدبر کے سامنے یہود و ہنودکی ایک نہ چلی اوربالاخر یہود و ہنود اس خطہ ارضی کی تقسیم پر راضی ہوئے اور یوں
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
کی مصداق یہ سالوں سے چلنے والی تحریک 14 اگست 1947ء کو تقسیم پاک وہند پر منتج ہوئی اور کلمہ طیبہ کے تقدس میں گندھی مسلم قوم کو پاکستان کی صورت ایسا خطہ ارضی میسر آیا جسے مدینہ ثانی کے لقب سے نوازا گیا.
اسلامیان ہند نے کلمہ طیبہ کی آبیاری کے لیے اس خطہ ارضی کو حاصل کیا تھا تاکہ اسلام کے آفاقی دستور قرآن مجید اور آفاقی نمونہ اسوہ رسول اکرم صل اللہ علیہ والہ وسلم پر عمل پیرا ہو کر دنیائے رنگ و بو کو بتا سکیں کہ جس طرح زمین و آسمان کا ظاہری فرق لوگوں کو ان کے مرتبے و بلندی کے لئے روشن دلیل ہیں اسی طرح آفاقی و ارضی نظام ہائے زندگی میں بھی زمین و آسمان کی دوری ہے.

ارضی نظام ہائے زندگی جس قدر خوشنما اور خوبصورت رنگوں میں پیش کیے جائیں اور ان پر جس قدر سرمایہ درانہ و فلسفیانہ ملمع کاری کی جائے اس کی حیثیت آفاقی نظام زندگی کے مقابلے میں تار عنکبوت سے زیادہ نہیں. پس نظام آفاقی اسلام کا دیگر نظام ہائے زندگی پر بر تر ہونا ہی اس کا خاصہ ہے.
اس طویل تمہید سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ پاک خطہ ارضی اس لئے حاصل کیا گیا تھاکہ ہم تمام طاغوتی قوتوں سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کر سکیں اور آزادی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے رب جلیل کی بندگی کرسکیں، اس کے محبوب خاتم النبیین صل اللہ علیہ والہ و سلم کے اسوہ کامل کی اطاعت کامل کر سکیں اور ہم تمام دیگر نطام ہائے زندگی کے جبرو استبداد کے دیو نما خون آشام پنجوں سے مکمل آزاد ہوں.

رنگ ونسل ، زبان و ادب، ثقافت و سیاست، تہذیب و تمدن غرض زندگی کے ہر ہر پل اور ہر ہر موڑ پر کلمہ طیبہ کی مبارک ومطہر چادر تنی ہوئی ہو جس کے دم سے طاغوتی سورج کی کوئی ایک ادنیٰ سی بھی کرن انسانی زندگی کی طرف راہ نہ پا سکے اور انسان مجسم بندگی کا نمونہ ہو.
لیکن دیکھا جائے تو دور حاضر میں اسلامیان پاکستان کی حالت تمام عالم میں بالعموم اورعالم اسلام میں بالخصوص نہایت کمزوری و ذلّت سے عبارت ہے وہ قوم جسے گھٹی میں آزادی و حریت کا سبق دیا گیا تھا آج بری طرح غلامی کا شکار ہے ۔ ہمارے ازہان و قلوب ہی نہیں اجسام وابدان بھی غلامی کی بھینٹ چڑھ چکے.

کہیں یورپ کی رنگینیاں ہمارے دامن گیر ہیں تو کہیں مشرقی صنم خانے ہمارے پاوں کی بیڑیاں، بالفاظ دیگر یہود و ہنود ہماراملجا و ماوی ٹھہرے. رہبر حریت حکیم الامت مرشد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جس روش سے بچنے کی تلقین کی تھی آج نسل نو اسروش غلامی میں سر تا پا ڈوب چکی ہے اور بقول شاعر مشرق
وضع میں تم ہو نصارٰی تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
آج تحریک آزادی میں اپنی زندگیاں کھپانے والوں کی ارواح بھی شرمندہ ہیں کہ جس آزادی کے لیے انہوں نے اپنی جانوں اور عصمتوں تک کا نذرانہ پیش کرنے میں پس وپیش سے کام نہ لیا آج اسی آزادی کی کوکھ سے جنم لینے والی نئی نسل آزادی کے صحیح لفظ سے بھی روشناس نہیں ہے۔ غلامی ان کی رگ رگ میں یوں سما گئی ہے کہ گویا کبھی ان کا آزادی سے واسطہ ہی نہیں رہا.

غلامانہ زہنیت اپنے کامل عروج پر ہے زبان، رنگ ونسل، فلسفہ و فکر، سیاست و سیادت، معیشت ومعاشرت، تہذیب و تمدن غرض زندگی کا ہر لمحہ آداب غلامی کی نذر ہو چکا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ نظریہ اسلام کا مصداق نظریہ پاکستان ہماری نوجوان نسل کے اذہان و قلوب سے آہستہ آہستہ مٹایا جا رہا ہے۔ بلکہ بعض حلقوں میں تو اب نظریہ پاکستان پر بات کرنے والوں کو پسماندہ ذہنیت کا  انسان کہہ کر باقاعدہ تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یوم آزادی پر میری اپنی قوم سے درخواست یہی ہے کہ آج ہمیں من حیث القوم اپنے فکری ونظری قبلہ کی تبدیلی کا احساس اجاگر کرنا چاہیے۔ ہماری قوم کو اس پر فتن و دجال پرور دور میں جس قدر آزاد فکر و نظر  کے ساتھ ساتھ عہد الست اور عہد آزادی کی پاسداری کی آج ضرورت ہے اس سے پہلے اتنی کبھی نہیں رہی.

ہمیں ایک آزاد حریت کیش قوم کے طور پر اپنی فکری ونظری درستگی کے لیے اپنے آباء کی دی گئی قربانیوں کو یاد کرنا ہو گا کہ جنہوں نے اپنی گردنیں کٹوانا تو قبول کیا مگر اپنی حریت و آزادی پر آنچ نہ آنے دی. اسی منہج پر چل کر ہم اپنی کھوئی ہوئی منزل پاسکتے ہیں اور وہ عروج جو ہم سے روٹھ چکاہے پھر وہ ہمارے قدم چومنے کے لئے ہماری راہ میں کھڑا ہوگا.ان شاء اللہ!
اللہ اقوام عالم میں پاکستان کو لازوال عزتوں اور آفاقی سربلندی سے نوازے اور یہاں ہر سو خوشحالی و ترقی کا دور دورہ ہو۔ آمین
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :