پی ٹی ایم- ملک دشمن قوتوں کا سیاسی ونگ

پیر 25 اکتوبر 2021

Hassan Sajid

حسن ساجد

پاکستان اپنے محل وقوع کی بدولت اقوام عالم میں سیاسی و جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہم خطہ ہے۔ نظریہ اسلام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد کو اللہ رب العزت نے بے شمار انعامات اور بھرپور  معدنی وسائل سے نوازا ہے۔  جہاں رب العزت کے اس سرزمین پر بہت سے انعامات ہیں وہیں اسے اپنے قیام سے لے کر اب تک بے شمار آزمائشوں کا بھی سامنا رہا ہے۔

اقوام عالم قدرت کے اس حسین و جمیل اور معدنیات سے بھرپور خطہ پر سیاسی و جغرافیائی اعتبار سے مکمل انحصار کرتی ہیں اور یہاں اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنے نظریاتی تسلط کے لیے ہر دور میں کوشاں رہی ہیں۔ اگر بات کو عمومی انداز سے نکال کر تخصیص بخشی جائے تو بندہ عاجز یہ سمجھانا چاہ رہا ہے کہ ہمیں روز اول سے ہی حاسدوں اور دشمنوں کا سامنا ہے جو پاکستان کو کسی صورت بھی مضبوط اور مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔

(جاری ہے)

یہ عناصر پاکستان میں انتشار کے لیے ہر حربے کا استعمال کرتے ہیں۔ فورتھ جنریشن اور ففتھ جنریشن وارفئیر کے اصولوں نے ان شرپسند عناصر کے لیے مزید سہولیات پیدا کر دی ہیں جس کی بدولت یہ لوگ کبھی مذہبی و لسانی فرقہ واریت کا ہتھکنڈا استعمال کرکے، کبھی قوم پرستی کے نام کا چورن بیچ کر اور کبھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے وطن عزیز کے دامن کو خون آلود کرتے نظر آئیں گے۔

پاکستان دشمن عناصر کا خاصہ رہا ہے کہ وہ ہمارے اندر موجود غداروں کو خرید کر انہیں ہماری سرزمین کے خلاف استعمال کرتے آئے ہیں۔ "جاگ پنجابی جاگ"، "سندھو دیش"، "خودمختار بلوچستان"، "پختونستان" اور "لروبرو افغان" کے نعروں سے وطن عزیز میں انتشار کو ہوا دینے کے لیے پاکستان دشمن عناصر نے یہیں کے لوگوں کا انتخاب کیا اور پھر مسائل کس نہج تک پہنچے اور ایسے نعروں کا نتیجہ کیا نکلا اس سب سے ہم واقف ہیں۔

 
خیبر پختونخواہ ڈیورنڈ لائن کے طویل بارڈر کا وارث انتہائی سیاسی و جغرافیائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے جو اسلام اور پاکستان دشمن عناصر کی ہٹ لسٹ (Hit list) میں شامل ہے۔ پاکستان میں تخریب کاری کے لیے ہمسایہ ملک بھارت اور سابقہ افغان حکومت کی بدنام زمانہ ایجنسیوں راء اور این ڈی ایس نے کس طرح یہاں  ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پالے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لیکن الحمدللہ افواج پاکستان اور ہماری پیرا ملٹری فورسز کی بدولت جب اس صوبے سے پاکستان دشمن دہشت گردوں کا خاتمہ ہوا تو راء اور این ڈی ایس  نے مزید عسکری ونگز پالنے کے تجربات کرنے کی بجائے سیاسی ونگ کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا اور یوں انہیں نقیب اللہ محسود قتل کیس کو لے کر وجود میں آنے والی پشتون تحفظ موومنٹ کی صورت میں ایک مودب ترین غلام تیار شدہ شکل میں میسر آگیا۔

ملک دشمن عناصر کی جانب سے مختلف نظریات کے حامل افراد کے غیر فطری اتحاد سے قائم کی جانے والی نام نہاد پشتون پارٹی پی ٹی ایم کو خیبر پختونخواہ میں تخریب کاری اور پشتونوں کو ریاست کے خلاف استعمال کرنے کے عوض بھاری بھرکم معاوضے اور فنڈنگ کی آفر کی گئی جسے پی ٹی ایم کے لالچی اور مفاد پرست رہنماؤں کے ٹولے کے قبول کیا اور اپنی جیبیں بھرنے کے لیے نہ صرف پشتون قوم کو خون میں نہلا دیا بلکہ ان مردہ ضمیر نام نہاد رہنماؤں نے پختونوں کی روایات اورغیرت وحمیت تک کو بیچ ڈالا۔

وہ پشتون تحفظ موومنٹ جس نے پشتونوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا تھی اس نے ہی پشتون قوم کو غیروں کے ہاتھوں میں بیچ ڈالا۔ افواج پاکستان اور پیرا ملٹری فورسز کے کامیاب آپریشنز سے جب دہشت گردوں اور ملک دشمن قوتوں کو عسکری محاذ پر شکست نظر آئی تو بھارت اور اسکے حواری ممالک نے پی ٹی ایم کو بطور سیاسی قوت میدان میں اتارا تاکہ عسکری ونگ کی ناکامی کے بعد بھی پاکستان میں انتشار، بد امنی اور دہشت گردی کو جاری رکھا جاسکے۔


یوں پی ٹی ایم کا تشخص کالعدم ٹی ٹی پی کی ٹیم B کے طور پر ابھر کر سامنے آیا کیونکہ پاکستان دشمن عناصر کے حکم  پر وطن عزیز میں تخریب کاری اور پشتون قوم میں انتشار اور بدامنی پھیلانے جیسے تمام کام آج کل پی ٹی ایم ہی سر انجام دے رہی ہے۔  دو ماہ قبل حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان مخالف سوشل میڈیا تشہیر کرنے والے گروہوں کی نشاندہی کی گئی تو معلوم ہوا کہ ملک دشمن عناصر کے حکم پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا کرنے والوں میں پشتون تحفظ موومنٹ سرفہرست ہے۔

  پی ٹی ایم کی پالیسی یا ںظریہ کی بات کی جائے تو یہ اپنے غیر ملکی سرپرستوں کی چانکیہ پالیسی پر کاربند ہے جو پہلے خود پشتون قوم کے لوگوں کو قتل کرتی ہے اور پھر انہی کی لاشوں کو انتشار اور تخریب کاری کی سیاست کے لیے استعمال کرتی ہے۔ آپ پی ٹی ایم کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آخر تک کی پوری سیاست کو دیکھ لیں آپ کو ان کی سیاست لاشوں کو کیش کرنے، انتشار، دہشت گردی اور بدانتظامی پھیلانے سے باہر نہیں ملے گی۔

عارف وزیر قتل کیس، جانی خیل واقعہ، قوم کوگا خیل واقعہ، ملک نصیب قتل واقعہ اور ٹی ٹی پی کے ہاتھوں کم سن بچوں کے قتل کا واقعہ چند ایسے واقعات ہیں جو پی ٹی ایم سیاست اور پشتون قوم کے لیے ان کی خدمت کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔
اب ذرا  پی ٹی ایم کی قیادت کے منافقانہ طرز عمل پر نظر ڈالتے ہیں جو نعرہ تو پشتون تحفظ کا لگاتے ہیں مگر ان کے تانے بانے ٹی ٹی پی، این ڈی ایس اور راء جیسی پشتون دشمن تنظیموں کے ساتھ ملتے ہیں۔

ایک طرف یہ لوگ پشتون کارڈ کھیل کر ہمارے سادہ لوح پشتون بھائیوں کو گمراہ کرتے ہیں تو دوسری جانب پشتون قوم پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے جواب میں ایک  مذمتی لفظ بھی ان کی زبان سے نہیں نکلتا۔  یہ نام نہاد پشتون قوم کے رہنماء عام لوگوں سادگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پشتونوں کو ریاستی بغاوت پر تو اکساتے ہیں مگر خود اسی ریاست کی پارلیمنٹ کا حصہ بن کر تمام مراعات ہڑپ کررہے ہیں۔

خود کش بمباروں کے دھماکوں کی مذمت تو دور یہ لوگ ان کے ساتھ معاہدوں اور دوستیوں کے ہاتھ بڑھائے ہوئے ہیں۔
 ان تمام حالات کی روشنی میں اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو آپ کو یہ سمجھنے میں ذرا سی بھی دقت نہیں ہوگی کے پی ٹی ایم اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ایک پاکستان مخالف قوتوں کا سیاسی ونگ ہے جبکہ دوسرا عسکری اور یہ دونوں ایک دوسرے کو مدد اور تحفظ فراہم کرتے آرہے ہیں۔


افغانستان میں طالبان حکومت کا قیام پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخواہ کے عوام کے لیے اس لیے فائدہ مند ثابت ہوا ہے کہ اس کی بدولت ملک دشمن قوتوں کے سیاسی ونگ یعنی پی ٹی ایم کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی ہے۔ افغانستان میں بیٹھی راء اور این ڈی ایس کے روپوش ہوتے ہی یہاں کے میر جعفر اور میر صادق (محسن داوڑ، منظور پاشتین) بھی حالت یتیمی سے گزر رہے ہیں اور بے سرو سامانی کے عالم میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔


پی ٹی ایم کے ایجنڈا کو سمجھنے کے بعد پشتون قوم کی اکثریت ان کی اصلیت سے بخوبی واقف ہو چکی ہے جس کے باعث پشتونوں نے نا صرف انہیں رد کردیا ہے بلکہ پشتون پی ٹی ایم کی خائن قیادت سے بے حد نفرت بھی کرنے لگے ہیں۔ پشتونوں کی جانب سے پی ٹی ایم کو شٹ اپ کال کے بعد پاکستان مخالف قوتوں کا سیاسی ونگ بھی اپنے آخری دن گن رہا ہے بس پشتون بھائیوں کی جانب سے پی ٹی ایم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہی خیبر پختونخواہ سے غداروں کا کافی حد تک خاتمہ ہو جائے گا۔

اور خیبر پختونخواہ کا امن و امان مکمل طور پر بحال ہو جائے گا۔  
وہ پشتون بھائی جو ابھی بھی پی ٹی ایم کے بہکاوے کا شکار ہیں اور غدار ٹولے کا ساتھ چھوڑنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں ان کے لیے تحریر کے آخر پر دو سوالات چھوڑ کر اجازت چاہوں گا۔
1- محسن داوڑ، علی وزیر یا منظور پاشتین نے پشتونوں کی فلاح و بہبود اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے کیا اقدامات کیے؟
2- آپ کے بچوں آپ کے گھروں اور آپ کے اہل خانہ پر جب بارڈر پار سے دہشت گرد حملہ کرتے ہیں تو کتنی بار محسن داوڑ، علی وزیر یا منظور پاشتین میں سے کسی نے آپ سے اظہار یکجہتی کیا یا آپ پر ہونیوالے ظلم پر کوئی مذمتی بیان دیا یا آپ کے لیے کسی قسم کے امدادی پیکج کا اعلان کیا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :