
زندگی یاد کرتی ہے
جمعہ 17 دسمبر 2021

حسن ساجد
بات کا آغاز ایک واقعہ سے کرتے ہیں. مجهے اچھی طرح سے یاد ہے جب میری ملاقات پشاور حملے میں جام شہادت نوش فرما کر امر ہو جانیوالے معصومین میں سے ایک کے عزیز سے ہوئی اور میں نے ان سے بچوں کے والدین و دیگر ورثاء کا حال احوال اور واقعہ کی تفصیل جاننا چاہی تو انکی آنکھوں سے بے اختیار آنسو گرنے لگے. اپنی آنکھوں کو چشمے کی قید سے آزاد کرکے آنسو پونچھتے ہوئے انہوں نے ایک بڑا خوبصورت جواب دیا کہ محترم دیکھنے والوں کیلیے تصاویر اور سننے والوں کیلیے تو کہانیاں ہی ہوتی ہیں دردتو اسی کو ہوگا جسے چوٹ لگے اور روتا صرف وہی ہے۔
(جاری ہے)
بھائی اذیتیں لفظوں میں بیان کہاں بیان ہو پاتیں ہیں انکی شدت صرف سہنے والا ہی محسوس کر سکتا ہے.
بس اتنا کہوں گا کہ وہاں بڑا ظلم ہوا ہے. آج جب لکھنا چاہا ہے تو میری خواہش ہے کہ میں اذیت لکھوں اور آپ اسے پڑھنے کی بجائے اسے محسوس کریں.لفظ "اذیت" کو آپکے ذہن میں نقش کرنے کیلیے اور سانحہ پشاور کے ورثاء کے درد کی تصویر کھینچنے کیلیے ایک چھوٹی سی مثال اپنے قارئین اکرام کی نظر کرنا چاہوں گا. یہ سانحہ دسمبر کے دنوں کی ہی بات ہے کہ دھان (مونجی) کی فصل کے نرخ انتہائی سطح تک گر گئے تھے جسکی وجہ سے کسان بھائیوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک میرے ایک انتہائی محترم دوست نے بتایا کہ انکے گاوں میں ایک کسان نے محنت ضائع جانےاور اس اپنی امیدوں کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوکر خود کشی کر لی ہے جسے سن کر بے حد افسوس ہوا. اس موضوع پر جب بات شروع ہوئی تو شریک بحث ایک محترم فرمانے لگے کہ یہ خود کشی نہیں قتل ہے. جب کسی کی انسان کی آس ٹوٹتی ہےتو اسکے کیلیے زندہ رہنا دشوار ہو جاتا ہے. میرے وہ معزز دوست شیوہ پیغبری کو بطور پیشہ اپنائے ہوئے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی یعنی زمینداری سے بھی منسلک ہیں لہذا کسان کےحال احوال سے خوب واقف تھے. اس لیے ہمارے سامنے احسن انداز میں انہوں نے کسان بھائیوں کے درد اور تکلیف کو بیان کیا. انہوں نے فصل کی تیاری کے مختلف مراحل گنواتے ہوئے بتایا کہ کتنا مشکل اور محنت طلب کام ہے زمین میں ہل چلا کر اسکو اس قابل بنانا کہ اس میں بیج پھینکا جائے. پھر بتایا کہ کس طرح کسان بیج بوکر موسمی شدت میں اپنی صحت کی پرواہ کیے بغیر کھادیں ڈالتا اس کو پانی لگاتا ہے اور اسکی دیکھ بھال کرتا ہے. علاوہ ازیں فصل پکنے تک کسان کون کون سے مختلف مسائل برداشت کرتا ہے اور پھر کسان کی فصل پکنے کیساتھ وابستہ امیدوں اور خواہشات کا نقشہ ایسے خوبصورت الفاظ میں کھینچا کہ میں نے محسوس کیا اگر کسی شخص سے وہ چیز ہتھیا لی جائے جس سے اسکی آس اور امید وابستہ ہو تو یہ اس شخص پر سب سے بڑا ظلم ہے اور اس ٹوٹی امیدوں والے شخص کے لیے واقعی جینا مشکل ہو جاتا ہے اس درد کو آپ بھی محسوس کر سکتے ہیں اگرآپ لمحہ بھر کے لیے خود کو کسان تصور کر کے سوچیں کہ اگر آپ کسان ہوں اور ایک آس پر زمین نرم کر کے اس میں پنیری اگا کر اسکے پکنے کا انتظار کریں. اپنے حال کی تمام تکلیفوں اور تنگیوں سے بے نیاز ہوکر متسقبل کی سب چھوٹی بڑی خوشیوں کو اسی ایک فصل کی پکائی سے منسلک کرلیں مگر کسان کے ساتھ جب انہونی ہوجائے فصل کا اجر نہ ملے تو کیا گزرے گی اس پر....؟؟؟؟
اسی درد کو محسوس کرتے ہوئے خیالات کی دنیا کو تھوڑی وسعت دیکر اور دماغ میں موجود بہت سی سوچوں میں ایک لمحے کیلیے اس نئی سوچ کو بھی جگہ دیتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ اگر کسان والدین ہوں اور فصل انکی اولاد جس محور کے گرد انکی تمام امیدیں گھومتی ہوں اور جس کے دم سے انکی کل کائنات آباد ہو. اب ذرا کسان کی اس فصل پر محنت اور اسکی تیاری میں درپیش مسائل سے فصل پکنے تک کے عمل کو تھوڑا اس انداز میں بدلیں کہ ماں اپنے بچے کی خاطر پیدائش سے لے کر پروان چڑهنے تک مختلف مشکلات سے گزری ہو، باپ نے خون جگر سےجس کی آبیاری کی ہو اور اس کم سن کے جوان ہو جانے کی آس کو ماں اپنی دعاوں اور محنت کی قبولیت کی صورت میں محسوس کر رہی ہو جبکہ باپ کو اس میں اپنے بڑھاپے کا سہارا نظر آ رہا ہو اگر اس کو ننھی عمر میں بغیر کسی جرم کے بیہمانہ انداز سے شہید کر دیا جائے کہ تو ایمانداری سے بتاواس بچے کی ماں کی زندگی کیا ہوگی.؟؟؟ اس باپ کی اس ظلم سے کمر کیسے نہیں ٹوٹے گی ..؟؟؟؟
یقینی طور پر اس انہونی پر ماں جیتے جی مر جائے گی اور باپ ایک زندہ لاش بن کر رہ جائے گا. کیونکہ والدین اور اولاد کا رشتہ ہی ایسا ہے کہ والدین اولاد کی ذرا سی بھی تکلیف نہیں دیکھ سکتے.
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دنیا میں جو آتا ہے وہ جانے کا وعدہ کرکے ہی آتا ہے اور موت برحق ہے مگر اولاد جب والدین کی آنکھوں کے سامنے جہان فانی سے اس انداز میں کوچ کرے تو والدین کیلیے یہ قیامت صغرئ کا منظر ہوتا ہے. تاحیات والدین کے زخم مندمل نہیں ہو پاتے اب اگر خاص طور پر اس بات کو سانحہ پشاور کے ضمن میں سوچا جائے تو ان والدین کو آخری سانس تک یہ واقعہ نہیں بھولے گا. ہر صبح سکول میں بجنے والی گھنٹیاں انکے ذہن میں اپنے جگرگوشوں کی یاد کو نئی تازگی دیتی ہوں گی. گلیوں، محلوں، بازاروں اور چوراہوں پر دکھائی دینے والے کم سن بچے ان والدین کو ہر روز اپنے لال کے کھو جانے کا شدت سے احساس دلاتے ہوں گے. اس واقعہ میں جان کی بازی لگانے والوں کی مائیں انکی تصاویر دیکھ یا کسی ٹی وی چینل پر کوئی پروگرام دیکھ کر اپنے جگر پارو ں کی یاد میں گھنٹوں اشک بہاتی ہوں گی. خیر باتیں جتنی بھی کر لیں حقیقت یہی ہے کہ ان والدین کے دکھوں اور جذبات کا احاطہ الفاظ سے ممکن نہیں. کیا خوب کہا ہے کسی شاعر نے کہ؛
وہ ماں جس کو کبھی کهویا ہوا بچہ نہیں ملتا
شاعر حضرات اپنی شاعری میں دسمبر کو تلخ یادوں کے موسم سے تشبیع دیتے تو کبھی قاتل اور درد بھرے موسم سے موسوم کرتے تھے تو میں سوچا کرتا تھا ایسا کیوں ہوتا ہے کیوں دسمبر کو یادوں کا موسم کہتے ہیں لیکن اب میں محسوس کرتا ہوں دسمبر اب تم واقعی درد دیتے ہو تم واقعی تکلیف دہ ہو کیونکہ جب بھی تم آتے ہو اپنوں سے جدائی کے زخم پھر سے تازہ ہوجاتے ہیں. سقوط ڈھاکہ سے لہولہان پشاور تک کے تمام مناظر ہماری ہمارے قلوب و اذہان کے دریچوں میں کندہ درد کو جگا سا دیتے ہیں اور ایسے ہی لگتا ہے کہ جیسے ابھی کل کی بات ہے جب دشمن ہمارے اپنوں کو ہم سے چھین لے گیا. ان کی جدائی سے ہمارے دلوں پر لگے زخموں سے پھر سے لہو رسنے لگتا ہے. کسی شاعر کا یہ شعر سقوط ڈھاکہ سے سانحہ پشاور تک ہم سے بچھڑ جانے والوں سے منسلک ہمارے جذبات کی عین ترجمانی کرتا ہے۔
کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا
رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے
سانحہ پشاور میں حیات جاوداں پانے والے شہدا کا خون ہم سے عہد مانگتا ہے کہ ہم اس ملک سے ہر ابلیس صفت دہشت گرد کا صفایا اس انداز سے کریں کے آنیوالے وقت میں یہاں شرپسندی کا کوئی سوچ بھی نہ سکے. ہمارا یہ پیارا وطن پاکستان "لا الہ اللہ" اور نعرہ تکبیر کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اس طرح پاکستان دین اسلام کا قلعہ اور یہ وطن رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا۔ ہمارے شہیدوں کا لہو ضرور رنگ لائے گا اور یہ پاک سر زمین جنت ثانی کا منظر پیش کرے گی جہاں صرف امن و سکوں ہوگا۔ یہاں پر کسی درندے کی وحشت نہ ہوگی۔ یہاں صرف محبت اور بھائی چارے کے دیپ جلا کریں گے اور خوشیوں کے شامیانے ہرسو بجا کریں گے۔ اللہ رب العزت میری قوم کو ہر ظالم کے ظلم سے بچائے۔ اللہ رب العزت شیطان اور اسکے پیروکاروں کے شر سے میرے ملک اور میری قوم کو محفوظ فرمائے اور اس ملک و قوم کو اقوام عالم میں قابل رشک مقام و مرتبہ، عزت، وقار اور شان و شوکت نصیب فرمائے .
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حسن ساجد کے کالمز
-
"خوشحال اور پرامن جنوبی وزیرستان "
منگل 28 دسمبر 2021
-
زندگی یاد کرتی ہے
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
چسکورے، پانچواں سوار، نیم حکیم اور شعبدہ بازی
بدھ 1 دسمبر 2021
-
پی ٹی ایم- ملک دشمن قوتوں کا سیاسی ونگ
پیر 25 اکتوبر 2021
-
آن لائن نیوز بمقابلہ اخبار
منگل 12 اکتوبر 2021
-
یہ ہم سب کی جنگ ہے
جمعرات 2 ستمبر 2021
-
ہم اور عہد آزادی
جمعہ 13 اگست 2021
-
سوشل میڈیا اور خواتین، ایک حساس موضوع
ہفتہ 7 اگست 2021
حسن ساجد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.