زندگی یاد کرتی ہے

جمعہ 17 دسمبر 2021

Hassan Sajid

حسن ساجد

سنت فرعون ادا ہوئی ہے اسلام کے نام پر
جنت بٹ رہی  تھی بچوں کے قتل عام پر
بحثیت قوم 16 دسمبر ہمارے لیے ایک بڑا سانحہ ہے. اس دن ہمارے معصوم بچوں کو ایسے ظالمانہ انداز سے ابدی نیند سلایا گیا کہ وحشت، درندگی اور سفاکیت کی سب حدیں پار کر دی گئیں. میری یہ تحریر گلشن پاکستان کے ان پھولوں اور انکے سوگواران کے نام جو 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں وطن عزیز کی حرمت پر جان وار گئے۔
بات کا آغاز ایک واقعہ سے کرتے ہیں.

مجهے اچھی طرح سے یاد ہے جب میری ملاقات پشاور حملے میں جام شہادت نوش فرما کر امر ہو جانیوالے معصومین میں سے ایک کے عزیز سے ہوئی اور میں نے ان سے  بچوں کے والدین و دیگر ورثاء کا حال احوال اور واقعہ کی تفصیل جاننا چاہی تو انکی آنکھوں سے بے اختیار آنسو گرنے لگے. اپنی آنکھوں کو چشمے کی قید سے آزاد کرکے آنسو پونچھتے ہوئے انہوں نے ایک بڑا خوبصورت جواب دیا کہ محترم دیکھنے والوں کیلیے تصاویر اور سننے والوں کیلیے تو کہانیاں ہی ہوتی ہیں دردتو  اسی کو ہوگا جسے چوٹ لگے اور روتا صرف وہی ہے۔

(جاری ہے)

بھائی اذیتیں لفظوں میں بیان کہاں بیان ہو پاتیں ہیں انکی شدت صرف سہنے والا ہی محسوس کر سکتا ہے.

بس اتنا کہوں گا کہ وہاں بڑا ظلم ہوا ہے. آج جب لکھنا چاہا ہے تو میری خواہش ہے کہ میں اذیت لکھوں اور آپ اسے پڑھنے کی بجائے اسے محسوس کریں.
لفظ "اذیت" کو آپکے ذہن میں نقش کرنے کیلیے اور سانحہ پشاور کے ورثاء کے درد کی تصویر کھینچنے کیلیے ایک چھوٹی سی مثال اپنے قارئین اکرام کی نظر کرنا چاہوں گا. یہ سانحہ دسمبر کے دنوں کی ہی بات ہے کہ دھان (مونجی) کی فصل کے نرخ انتہائی سطح تک گر گئے تھے جسکی وجہ سے کسان بھائیوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک میرے ایک انتہائی محترم دوست نے بتایا کہ انکے گاوں میں ایک کسان نے محنت ضائع جانےاور اس اپنی امیدوں کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوکر خود کشی کر لی ہے جسے سن کر بے حد افسوس ہوا.

اس موضوع پر جب بات شروع ہوئی تو شریک بحث ایک محترم فرمانے لگے کہ یہ خود کشی نہیں قتل ہے. جب کسی کی انسان کی آس ٹوٹتی ہےتو اسکے کیلیے زندہ رہنا دشوار ہو جاتا ہے. میرے وہ معزز دوست شیوہ پیغبری کو بطور پیشہ اپنائے ہوئے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی یعنی زمینداری سے بھی منسلک ہیں لہذا کسان کےحال احوال سے خوب واقف تھے. اس لیے ہمارے سامنے احسن انداز میں انہوں نے کسان بھائیوں کے درد اور تکلیف کو بیان کیا.

انہوں نے فصل کی تیاری کے مختلف مراحل گنواتے ہوئے بتایا کہ کتنا مشکل اور محنت طلب کام ہے زمین میں ہل چلا کر اسکو اس قابل بنانا کہ اس میں بیج پھینکا جائے. پھر بتایا کہ کس طرح کسان بیج بوکر موسمی شدت میں اپنی صحت کی پرواہ کیے بغیر کھادیں ڈالتا اس کو پانی لگاتا ہے اور اسکی دیکھ بھال کرتا ہے. علاوہ ازیں فصل پکنے تک کسان کون کون سے مختلف مسائل برداشت کرتا ہے اور پھر کسان کی فصل پکنے کیساتھ وابستہ امیدوں اور خواہشات کا نقشہ ایسے خوبصورت الفاظ میں کھینچا کہ میں نے محسوس کیا اگر کسی شخص سے وہ چیز ہتھیا لی جائے جس سے اسکی آس اور امید وابستہ ہو تو یہ اس شخص پر سب سے بڑا ظلم ہے اور اس ٹوٹی امیدوں والے شخص کے لیے واقعی جینا مشکل ہو جاتا ہے اس درد کو آپ بھی محسوس کر سکتے ہیں اگرآپ لمحہ بھر کے لیے خود کو کسان تصور کر کے سوچیں کہ اگر آپ کسان ہوں اور ایک آس پر زمین نرم کر کے اس میں پنیری اگا کر اسکے پکنے کا انتظار کریں.

اپنے حال کی تمام تکلیفوں اور تنگیوں سے بے نیاز ہوکر متسقبل کی سب چھوٹی بڑی خوشیوں کو اسی ایک فصل کی پکائی سے منسلک کرلیں مگر کسان کے ساتھ جب انہونی ہوجائے فصل کا اجر نہ ملے تو کیا گزرے گی اس پر....؟؟؟؟
اسی درد کو محسوس کرتے ہوئے خیالات کی دنیا کو تھوڑی وسعت دیکر اور دماغ میں موجود بہت سی سوچوں میں ایک لمحے کیلیے اس نئی سوچ کو بھی جگہ دیتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ اگر کسان والدین ہوں اور فصل انکی اولاد جس محور کے گرد انکی تمام امیدیں گھومتی ہوں اور جس کے دم سے انکی کل کائنات آباد ہو.

اب ذرا کسان کی اس فصل پر محنت اور اسکی تیاری میں درپیش مسائل سے فصل پکنے تک کے عمل کو تھوڑا اس انداز میں بدلیں کہ ماں اپنے بچے کی خاطر پیدائش سے لے کر پروان چڑهنے تک مختلف مشکلات سے گزری ہو، باپ نے خون جگر سےجس کی آبیاری کی ہو اور اس کم سن کے جوان ہو جانے کی آس کو ماں اپنی دعاوں اور محنت کی قبولیت کی صورت میں محسوس کر رہی ہو جبکہ باپ کو اس میں اپنے بڑھاپے کا سہارا نظر آ رہا ہو اگر اس کو ننھی عمر میں بغیر کسی جرم کے بیہمانہ انداز سے شہید کر دیا جائے کہ تو ایمانداری سے بتاواس بچے کی ماں کی زندگی کیا ہوگی.؟؟؟ اس باپ کی اس ظلم سے کمر کیسے نہیں ٹوٹے گی ..؟؟؟؟
یقینی طور پر اس انہونی پر ماں جیتے جی مر جائے گی اور باپ ایک زندہ لاش بن کر رہ جائے گا.

کیونکہ والدین اور اولاد کا رشتہ ہی ایسا ہے کہ والدین اولاد کی ذرا سی بھی تکلیف نہیں دیکھ سکتے.
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دنیا میں جو آتا ہے وہ جانے کا وعدہ کرکے ہی آتا ہے اور موت برحق ہے مگر اولاد جب والدین کی آنکھوں کے سامنے جہان فانی سے اس انداز میں کوچ کرے تو والدین کیلیے یہ قیامت صغرئ کا منظر ہوتا ہے. تاحیات والدین کے زخم مندمل نہیں ہو پاتے اب اگر خاص طور پر اس بات کو سانحہ پشاور کے ضمن میں سوچا جائے تو ان والدین کو آخری سانس تک یہ واقعہ نہیں بھولے گا.

ہر صبح سکول میں بجنے والی گھنٹیاں انکے ذہن میں اپنے جگرگوشوں کی یاد کو نئی تازگی دیتی ہوں گی. گلیوں، محلوں، بازاروں اور چوراہوں پر دکھائی دینے والے کم سن بچے ان والدین کو ہر روز اپنے لال کے کھو جانے کا شدت سے احساس دلاتے ہوں گے. اس واقعہ میں جان کی بازی لگانے والوں کی مائیں انکی تصاویر دیکھ یا کسی ٹی وی چینل پر کوئی پروگرام دیکھ کر اپنے جگر پارو ں کی یاد میں گھنٹوں  اشک بہاتی ہوں گی.

خیر باتیں جتنی بھی کر لیں حقیقت یہی ہے کہ ان والدین کے دکھوں اور جذبات کا احاطہ الفاظ سے ممکن نہیں. کیا خوب کہا ہے کسی شاعر نے کہ؛
بهلا اسکے دکھوں کی رات کا کیسے مداوا ہو
وہ ماں جس کو کبھی کهویا ہوا بچہ نہیں ملتا
16 دسمبر کو اپنی جان ملک و قوم پر قربان کرنے والے مجاهدوں کی اس بے مثال قربانی کو ہم کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے.

وہ ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔ آج بھی انکی جدائی کا زخم اسی طرح ہرا بھرا ہے. اور جس درندگی سے ہمارے ان پھولوں کو  مسلا گیا یہ ہمیں کبهی نہیں بھولے گا.
 شاعر حضرات اپنی شاعری میں دسمبر کو تلخ یادوں کے موسم سے تشبیع دیتے تو کبھی قاتل اور درد بھرے موسم سے موسوم کرتے تھے تو میں سوچا کرتا تھا ایسا کیوں ہوتا ہے کیوں دسمبر کو یادوں کا موسم کہتے ہیں لیکن اب میں محسوس کرتا ہوں دسمبر اب تم واقعی درد دیتے ہو تم واقعی تکلیف دہ ہو کیونکہ جب بھی تم آتے ہو اپنوں سے جدائی کے زخم پھر سے تازہ ہوجاتے ہیں.

سقوط ڈھاکہ سے لہولہان پشاور تک کے تمام مناظر ہماری ہمارے قلوب و اذہان کے دریچوں میں کندہ درد کو جگا سا دیتے ہیں اور ایسے ہی لگتا ہے کہ جیسے ابھی کل کی بات ہے جب دشمن ہمارے اپنوں کو ہم سے چھین لے گیا. ان کی جدائی سے ہمارے دلوں پر لگے زخموں سے پھر سے لہو رسنے لگتا ہے. کسی شاعر کا یہ شعر سقوط ڈھاکہ سے سانحہ پشاور تک ہم سے بچھڑ جانے والوں سے منسلک ہمارے جذبات کی عین ترجمانی کرتا ہے۔
 ہم تو سمجھے تھے اک زخم ہے بھر جائے گا
 کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں  اتر جائے گا
1971 کی جنگ میں شہید ہونے والے اس قوم کے بہادر سپوت اور  کم سن و معصوم شہدائے پشاور ملک و قوم کی خاطر مر مٹنے اور وطن عزیز کی خاطر جان قربان کر دینے کی ایک عظیم مثال ہیں.

اور بالخصوص اگر سانحہ پشاور کی بات کی جائے تو جس انداز میں ملک و قوم کے خلاف بھڑکنے والی دہشت گردی کی آگ کو ان معصومین نے اپنے خون سے ٹھنڈا کیا واقعی ایک تاریخ ساز مثال ہے. جان سے جانے والے ان تمام شہدا پر آج زندگی رشک کرتی ہے اور زندگی انہیں آج بھی یاد کرتی ہے کیونکہ بہت خوش بخت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کا خون قوم و ملت اور وطن کی آبیاری کے کام آتا ہے.

ملک و قوم کی بقا اور سربلندی کو اپنے خون سے زیست بخشنے والے خود امر ہوجاتے ہیں اور لازوال زندگی کے وارث بن جاتے ہیں. ہمارے ان بہادروں نے ملک و قوم کے دشمنوں کے ناپاک عزائم جس انداز میں خاک میں ملائے وہ قابل تحسین  ہے کیونکہ دشمن سوچتا تھا کہ اس عمل کے ذریعے ملک کے محافظوں (فوجی جوان) اور انکے اہل خانہ کو مرعوب کر لے گا مگر ان معصوم بچوں کا خون اپنے ورثاء کومزید باہمت کرگیا اور ان کو ملک و قوم کے دفاع کی خاطر ہرقسم کی قربانی دینے کے جذبے سے سرشارکر گیا.

انکی قربانی جاتے ہوئے دشمن کو یہ پیغام دے گئی کہ ...
میں کٹ گروں یا رہوں یہ یقیں ہے مجهے
 کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا
 رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
  تو صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے
اس دنیا میں رہتے ہوئے اقوام کو صدمات اور سانحات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن زندہ قومیں ہمیشہ مشکل اوقات سے سبق سیکھتی ہیں اور اپنے اندر نکھار لاتی ہیں.

ہمیں بھی یہی لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے ہمیں ان شہداء کی قربانی کا حق ادا کرنا ہے جوکہ موم بتیاں جلا کر خاموشی اختیار کرنے سے کبھی بھی ادا نہیں ہوگا بلکہ وہ اسی صورت ادا ہوگا جب ہم اپنے ملک اپنی قوم کا دفاع اس حد تک ناقابل تسخیر بنالیں کے پھر کسی ماں کی گود ظلم و دہشت گردی کی بھینت چڑھ کرخالی نہ ہو کسی باپ کا لعل اس سے اس طرح نہ چھینا جائے.
سانحہ پشاور میں حیات جاوداں پانے والے شہدا کا خون ہم سے عہد مانگتا ہے کہ ہم اس ملک سے ہر ابلیس صفت دہشت گرد کا صفایا اس انداز سے کریں کے آنیوالے وقت میں یہاں شرپسندی کا کوئی سوچ بھی نہ سکے.  ہمارا یہ پیارا وطن پاکستان "لا الہ اللہ" اور نعرہ تکبیر کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اس طرح پاکستان دین اسلام کا قلعہ اور یہ وطن رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا۔ ہمارے شہیدوں کا لہو ضرور رنگ لائے گا اور یہ پاک سر زمین جنت ثانی کا منظر پیش کرے گی جہاں صرف امن و سکوں ہوگا۔ یہاں پر کسی درندے کی وحشت نہ ہوگی۔ یہاں صرف محبت اور بھائی چارے کے دیپ جلا کریں گے اور خوشیوں کے شامیانے ہرسو بجا کریں گے۔ اللہ رب العزت میری قوم کو ہر ظالم کے ظلم سے بچائے۔ اللہ رب العزت شیطان اور اسکے پیروکاروں کے شر سے میرے ملک اور میری قوم کو محفوظ فرمائے اور اس ملک و قوم کو اقوام عالم میں قابل رشک مقام و مرتبہ، عزت، وقار اور شان و شوکت نصیب فرمائے .
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :