فروخت شدہ میراث

منگل 1 دسمبر 2020

Hassaan Shah

حسان شاہ

یہ مختصر مگر پُر اثر تحریر اُن خانقاہوں، آستانوں اور خانوادوں کی گرد گھومتی ہے جنہوں نے نادانستہ طور پر یا دانستگی کے عالم میں اپنی میراث کو فروخت کرڈالا۔ بظاہر یہ تحریر نفرت اور طنز پر مبنی ہو سکتی مگر یقین جانئیے اگر ہم غوروفکر کریں تو اِس میں کوئ قباحت بھی نہیں، میرا تعلق صوفیاء کے اُس گھرانے سے ہے جِس گھرانے کو خُدا نے کمال کی زینت بخشی اور ولایت کے عظیم مرتبے سے سرفراز کیا ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں اہلُ اللہ کے ماننے والوں کی کثرت تھی صبح و شام گُفتارِ صوفیاء بزُبانِ بشر سنی،  ہمیں تعلیم دی گئی کہ ہمارے اسلاف کیا تھے، ہمارے آباؤ اجداد کی طرزِ زندگی کیسی تھی اور کیا ہمیں اُن سے ورثے میں اور کیا ہم نے خود مشاہدہ کر کے حاصل کیا یہ سب باتیں مجھے گھول کر پلائ گئیں، اگر کبھی کہیں سلسلہِ تصوف کو سمجھنے میں مجھ سے غلطی ہوتی تو اُسی وقت سرزنجش کر دی جاتی تاکہ آئیندہ کبھی اِس کا مُرتکب نہ ٹھروں۔

(جاری ہے)

نابالغی کے عالم میں اِن باتوں کو ذہن نشین تو کرلیا مگر گہرائ تک نہ پہنچ سکا، بھلا ایک طفل کیسے اتنے گہرے رموزِ حقیقت جان سکتا ہے میری عقل و شعور کا وہ پیمانہ ہی نہیں تھا کہ اِن درویشانہ باتوں کو اپنی ناقص عقل میں صحیح سے محفوظ کر سکوں مگر آج جب مجھے خیر اور شر کی تمیز آگئ ہے عقل کا میدان میرے لئے وسیع و عریض ہوگیا ہر کہی سنی بات کو پرکھنے کا ہنر آگیا ہے، کیا صحیح ہے کیا غلط ہے اِس میں موازنہ کرنا آگیا ہے تو مجھے وہ ساری تعلیمات  من و عن یاد آرہی ہیں جو میرے بڑوں نے مجھے سکھائ تھیں، اب ایک عجیب سی کشمکش سی پیدا ہوگئ ہے کہ میں پڑھوں اور کھنگال کر رکھ دوں اپنا شجرہ نسب تاکہ گہرائ تک جان سکوں اپنے اسلاف کو اپنے اسلاف کی گفتار کو ان کے احوال کو اور انکی تصانیف کو اِس بےساختہ سے شوق نے میری عقل کو مزید قوت بخشی ہے اب جب بھی کوئ نہی کتاب کھولتا ہوں  یا کوئ نیا باب پڑھتا  ہوں تو اپنے آپ کوقدرِ جاہل تصور کرتا ہوں کہ آج تک میں ایسی معلومات اور رموزِ حقیقت سے ناواقف رہا یہ محض میرے لئے ندامت ہے اور علم کے اِس  بازار میں میں ایک ادنی سا خریدار ہوں جو چاہتا تو بہت سا علم ہے مگر یہ ندامت اُس کو رسوا کر دیتی ہے مگر میری یہ جستجو ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔

آک تک جو پڑھا جو سُنا جو دیکھا اور دیکھ رہا ہوں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم نے اپنی میراث گنوا دی۔ آج کتنے ایسے آساتانے ہیں جابجاں خانقاہیں ہیں جہاں زَر کی حوس کی خاطر لوگوں نے اپنی میراث کا سودا کردیا۔ وہ عظیم خانوادے جہاں سے اللہ رسولؐ کا پیغام دیا جاتا تھا اور صوفیاء کی محبت سکھائ جاتی تھی آج صرف ریاکاری میں مصروف ہیں سب نے دی ہوئ ورثے کی تعلیمات کو پسِ پردہ ڈال دیا اور اپنے آپ کو عصرِ حاضر کے عین مطابق کرلیا۔

کہا سنا پرھا لکھا دیکھا سب بھول گئے، اِس میں کوئ شک نہیں کہ آج بھی ایسی آستانوں پر عوام کا جمِ غفیر ہوتا ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ یہ آستانہ اب درسُ تدریس سے خالی ہے یہاں زَر کو فوقیت حاصل ہے اسلاف کو نہیں۔   اِن سب کے بر عکس آج بھی ایسی خانقاہیں موجود ہیں جہاں اسلاف کی اُن تعلیمات کا چراغ آج بھی روشن ہے جمِ غفیر اُدھر بھی موجود ہے اور بامراد ہیں، یہ آستانے، خانقاہیں سب غلط اور بھٹکی ہوئ تو نہیں سکتیں بے شک اِن میں سچے لوگ موجود ہیں۔

اور ایسے آستانے اپنی آستینوں میں یدِ بیضا چھپاۓ بیٹے ہیں جن کا تعلق براہِ راست اللہ ہی سے ہے۔ لُبِ لباب یہ کہ پیر تو جھوٹا ہو سکتا مگر پیری نہیں آجکل جتنے جھوٹے یا بھٹکے موجود ہیں تو اِن میں ایک سچا بھی ہے اور اگر میں یہ کہوں تو بےجانہ نہ ہوگا کہ اِس خانقاہی نظام میں سچائ اتنی زیادہ ہے کہ اگر جھوٹا بھی کامیاب ہوگا تو شچائ کا ہی لبادہ اوڑھے گا یہ لباس ہی معتبر ہے جو معتبر ہی رہے گا پس آنے جانے والے اِس کو اوڑھ کر کامیابی حاصل کرنا چاہیں گے اور صاحبِ بصارت حضرات اِن کو پہچان جائیں گے۔

آج ہمارے علما اور مشائیخ الگ الگ ہوگئے جس کا مطلب ہے اسلام ٹوٹ گیا یہی وجہ ہے کہ علما کانفرنس الگ ہوتی ہے اور مشائیخ کانفرنس الگ ہوتی ہے، علما میں بھی فرقے بن گئے سب بھٹک گئے اور اُن کے عقیدت مند بھی اِس تفریق سے محروم ہوگئے کہ کون اچھا ہے کون برا، کس کو سنیں کس کی مانیں، کہاں جائیں کہاں سے بھاگیں۔۔۔ افسوس صد افسوس۔۔۔ وہ مقامات جہاں پر عام الناس کو چند گھڑیاں سکون کی موئثر ہوتی تھیں وہ بھی اب نہیں رہیں، بظاہر صوفیاء کا لباس زیب تن کئیے یہ لوگ عوام کو گمراہ کر رہے ہیں اور اپنی جائدادیں بنا رہے ہیں جس کا کوئ کام نہ چلے وہ جھوٹی نسبتیں بنا کر آستانہ کھول لیتا ہے کیونکہ اُس کو معلوم کے یہاں اولینِ صوفیاء کی ماننے والے جوق در جوق آئیں گے اور ہمارے گلے میں اضافے کا باعث بنیں گے۔

یہ سب باتیں بہت کڑوی ہیں اور شاید اتنا آسان نہیں کہ اِن کو ہضم کر لیا جاۓ لیکن سچی بات ہمیشہ کڑوی محسوس ہوتی ہے اور اکثر و بیشتر کی طبیعتوں پر گراں گزرتی ہے مگر اثر رکھتی ہے، بہترین خانقاہیں تو آج بھی دینِ محمدیؐ کی تبلیغ میں مگن ہیں لیکن یہ تحریر تکلیف کا باعث ان کے لئے بنے گی جو صوفیاء کا لبادہ اوڑھے بیٹھے ہیں اور کاروبار چمکا رہے ہیں میراث کو زر کی نظر کر رہے ہیں شاید یہ سب سمجھتے ہیں کہ اِس عمل سے یہ فلاح پا جائیں گے اور معاشرے میں صحیح النصب خانقاہوں کا مقام حاصل کر لیں گے مگر وہ نہیں جانتے کہ ابھی اِس دنیا میں خیر و شر کی پہچان کرنے والے حیات ہیں جو اُن کو ہر موڑ پر ٹوکتے رہیں گے۔

اِس بوجھل دل کے ساتھ اب خدا سے دعا ہی کرسکتے ہیں کہ یہ بات ہماری عقلوں میں سما جاۓ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :