ترا مجبور کر دینا، مرا مجبور ہو جانا

منگل 28 جنوری 2020

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

کھٹور پن انسانی مزاج کا حصّہ بن جائے یا رُوکھا پن طبیعت میں رچ بس جائے، ہر دو صورتیں رشتوں ناتوں میں ایسی دراڑیں پڑ جاتی ہیں جو رفتہ رفتہ کسی طویل خلیج پر منتج ہوتی ہیں۔بے رخی اور بے اعتنائی انسانی دماغ پر اُس وقت حملہ آور ہوتی ہیں جب اسے کوئی عہدہ، مقام، مرتبہ یا اختیارات مل جائیں۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں کہ اِن نعمتوں کی موجودگی میں اُن کی شخصیت کو کلف نہیں لگتا۔

بلند مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود اُن کی گردن میں سریا نہیں پھنستا۔اکڑ فوں، طنطنے اور تکبر کی خاردار جھاڑیاں اُن کے اردگرد نہیں اگتیں۔محبت بھرے رشتوں کا سب سے بڑا دشمن یہی ترش رویّہ اور کُھردرا لب و لہجہ ہوتا ہے۔
اب خراشیں تو دل میں آئیں گی
تم نے ہر بات کُھردری کی ہے
باتیں سب کر لیتے ہیں مگر بات کرنے کا قرینہ اور سلیقہ کسی کسی کو آتا ہے۔

(جاری ہے)

اگر باتوں میں مسنون مٹھاس پیدا کر لی جائے تو بڑے بڑے کھٹاس آلود مسائل سے بچنا نہایت ہی آسان ہے۔
بات اُس کو عدیم آتی ہے
بات کرنے کا ڈھب نہیں آتا
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ چوہے کو اگر ہلدی مل جائے تو اسے پنساری بن کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے۔مگر المیہ یہ ہے کہ جس کو جتنی بڑی ہلدی ملتی ہے، وہ اتنا ہی بڑا مطب سجا کر طبیب بن بیٹھتا ہے۔

اُس کی ناک بھوں اتنی ہی اوپر کو اٹھ جاتی ہے۔اُس کے اندر ناز نخروں سے لدا اوچھا پن اسی حساب سے سرکشی کرنے لگتا ہے۔وہ لوگوں کو حقیر اور فقیر سمجھنے لگتا ہے۔معلوم نہیں ایسا کیوں ہے کہ جتنے اختیارات کسی کو ملتے ہیں وہ ان کا بھرپور استعمال کرنا اپنا فریضہ سمجھ لیتا ہے اور ایسا کرنے میں اسے لطف بھی خوب آتا ہے۔اگر کسی کو زچ کرنا بھی کسی کی دسترس میں دے دیا جائے تو وہ ایسا ضرور کرے گا۔

اسے اپنے اعزّہ و اقربا کی تضحیک کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے اور وہ ایسا کرنے میں ذرا نہیں جھجکتا، اسے اپنے سے نچلے درجے پر فائز لوگوں سے بے رخی برتنے میں فرحت اور تازگی کا احساس ملتا ہے۔ہمارے ایک محترم دوست تھانے میں گئے اور تھانیدار کو اپنا تعارف کروایا کہ”میں استاذ ہوں“ تھانیدار غصّے سے چِلّایا کہ”فیر میں کَن پَھڑ لیواں“(پھر میں کان پکڑ لوں)۔


بات صرف اختیارات تک محدود نہیں بلکہ کچھ لوگ تو اختیارات سے تجاوز کرنا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔جب تک وہ قانون شکنی نہ کر لیں ان کے عہدے اور مقام کو کسی پَل چین اور سکون ملتا ہی نہیں۔المیہ یہ بھی ہے کہ جب ہمیں اختیارات سونپ دیے جاتے ہیں تو پھر ہمارے اندر کسی بھی ادارے کی اصلاح کے جراثیم بھونچال کیوں مچا دیتے ہیں؟ جب ہمیں اختیارات مل جاتے ہیں تو پھر ہمارے اندر انقلاب کا جوار بھاٹا کیوں ٹکریں مارنے لگتا ہے؟ بڑے عہدے پر متمکن ہوتے ہی جگری دوستوں کے لب و لہجے بھی کیوں نشتر زنی کرنے لگتے ہیں؟
 گھاؤ دشمن کے بھول جاؤ گے
دوستوں کی زبان کُھلنے دو
آپ نے بھی اس حقیقت کا مشاہدہ کیا ہو گا کہ ریلوے پھاٹک پر بیٹھے چوکیدار کے اختیار میں صرف پھاٹک کو بند کرنا اور کھولنا ہوتا ہے اور وہ اپنے اس اختیار کا اتنا بھر پور استعمال کرتا ہے کہ ابھی ٹرین کئی کلومیٹر دُور ہوتی ہے اور وہ پھاٹک کو بند کر دیتا ہے۔

آئیے! اب سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احادیث سے کچھ ایسے پھول چنیں کہ جو ہمارے لیے راہ ہدایت کا اصل منبع اور سرچشمہ ہیں۔کوئی بھی شخص جس مقام اور مرتبے پر بھی فائز ہو، وہ کسی کے ماتحت ہو یا اُس کے ماتحت لوگوں کی ایک جماعت ہو، ہر دو صورتوں میں اپنے مسلمان بھائی کی عزت اور تکریم لازمی ہے۔اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر خوش ہونا، اس سے میٹھے انداز میں بات کرنا اور اس کی بات دل لگا کر سننا، محبتوں کو پروان چڑھا کر رشتوں کو مضبوط اور توانا بناتا ہے۔

نبی صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ”تیرا مسلمان بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے“ (ترمذی 1956)۔
سیدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال کے ترازو میں حُسنِ خُلق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں (ابوداود 4799)
یہ حدیث جو میں لکھنے جا رہا ہوں یہ اکثر لوگوں نے سن رکھی ہو گی مگر اس حدیث میں موجود حکمتوں اور برکتوں پر غور کرنے کی توفیق شاذ ہی کسی کو ملی ہو گی۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی قیامت کے دن فرمائے گا۔اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا، تم نے میری عیادت نہ کی۔وہ کہے گا کہ اے اللہ! میں تیری عیادت کیسے کرتا کہ اے اللہ! تُو ربّ العزت ہے(یعنی اللہ تمام بیماریوں سے پاک ہے) اللہ تعالی فرمائے گا کہ تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے اگر تُو اُس کی عیادت کرتا تو مجھے اُس کے پاس پاتا۔

پھر اللہ فرمائے گا اے ابنِ آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، تُو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔وہ کہے گا اے میرے رب میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا کہ تُو اللہ ربّ العالمین ہے۔پھر اللہ فرمائے گا کہ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے فلاں بندے نے کھانا طلب کیا تھا۔تُو نے اُسے کھانا نہیں کھلایا۔اگر تُو اُسے کھانا کھلاتا تو مجھے اُس کے پاس پاتا۔پھر اللہ فرمائے گا اے ابنِ آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا، تُو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔

وہ کہے گا اے میرے رب میں تجھے کیسے پانی پلاتا کہ تُو ربّ العزت ہے۔پھر اللہ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا تُو نے اُسے پانی نہیں پلایا۔اگر تُو اُسے پانی پلاتا تو مجھے اُس کے پاس پاتا۔(مسلم 2569)
کیا ہمیں بھی یہ غورو فکر کرنے کی توفیق ملی ہے؟ کہ اللہ تعالی پہلے ہی یہ باتیں بتا کر کہ قیامت کے دن میں یہ سوالات کروں گا، کس طرح انسانوں میں محبتوں کو فروغ دے رہے ہیں۔

اہل اسلام کے لیے یہ کس قدر اعزازو افتخار کی بات ہے کہ اللہ ربّ العزت اپنے بندے کی بیماری کو اپنی بیماری، اپنے بندے کی بھوک کو اپنی بھوک اور اپنے بندے کی پیاس کو اپنی پیاس بتا کر مسلمانوں کا مان اور مرتبہ بڑھا رہے ہیں۔مگر ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ ہمارا تند لب و لہجہ کسی کے دل پر کس قدر گراں گزر کر اس کی راتوں کی نیند اچاٹ کر سکتا ہے؟ کسی کا نظریں پھیر لینا، اہمیت نہ دینا کسی دوسرے شخص کے جذبات واحساسات کو کس طرح روند سکتا ہے۔


محبت، عزت اور احترام کی میں تو یہ تعریف کیا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص شرعی حدود میں رہ کر کسی کو کسی جائز کام کے لیے مجبور کر دے اور وہ مجبور ہو بھی جائے تو یہ محبت ہوتی ہے۔اگر وہ مجبور نہ ہو تو میں محبت تو کیا اسے ہمدردی کا نام بھی نہیں دے پاؤں گا۔
محبت کیا ہے، تاثیرِ محبت کس کو کہتے ہیں
ترا مجبور کر دینا، مرا مجبور ہو جانا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :