زندگی کا ایک سال اور کم ہو گیا

منگل 5 جنوری 2021

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

تنگ دستی کے آزار اگر زندگی میں خار نہ بن چکے ہوں اور تن درستی کے سرووسمن سے زیست مہک رہی ہو تو پھر زندگی سے حَسین اور دل آویز شے کوئی ہے ہی نہیں۔پھر زندگی کا ہر ایک لمحہ گراں مایہ اور ایک ایک پَل انمول ہوتا ہے۔محسوس کرنے والا دل اور سوچنے والا دماغ ہو تو پھر کائنات میں موجود ہر چیز اور زندگی سے جُڑا ہر رشتہ ناتا حُسن وجمال کا مرقّع دکھائی دیتا ہے۔

آپ کائنات کے ایک ایک منظر پر غور کر لیجیے! یقیناً آپ اس کی خوش جمالی اور دل فریبی میں کھو جائیں گے۔آپ رنگوں روشنیوں بہاروں پھولوں تتلیوں اور خوشبوؤں کی دل آویزی پر توجہ دیجیے! آپ کے قلب ونظر میں فرحت اور انبساط کی لہریں امڈتی چلی آئیں گی۔دنیا میں کیا کچھ نہیں؟ دوستوں کی بزلہ سنجی، اقربا کی خوش طبعی، چاہنے والوں کی ظرافت، دل میں بسنے والوں کے دل ربا تبسّم، بیوی جیسے کومل رشتے کی قربت اور اولاد کی چاہت، دنیا میں سب کچھ ہی تو ہے۔

(جاری ہے)


مگر ذرا ٹھہریے! یہ زندگی جس کی لذتوں اور فرحتوں پر ہم رِیجھ بیٹھے ہیں، جس میں ہم نے اتنا دل لگا لیا ہے کہ خیال وفکر کے دوسرے پہلو ہمارے سان گمان میں بھی نہیں۔زندگی کی یہ تعیّشات، یہ آرام وسکون، پھولوں کی یہ اٹکھیلیاں، تتلیوں کی یہ شوخیاں اور پیاروں کی بزم آرائیاں یہ سب عارضی ہی تو ہیں۔انھیں دوام تو حاصل نہیں، یہ دنیا جس سے ہم دل لگا بیٹھے ہیں، یہ جاوداں تو ہرگز نہیں۔

بشیر بدر نے کیا خوب کہا ہے!
بھول شاید بہت بڑی کر لی
دل نے دنیا سے دوستی کر لی
دسمبر کی آخری ساعتیں میں نے قبرستان میں گزاریں۔یہاں کتنے ہی لوگ دفن ہیں جو کل تک ہماری زندگیوں کے جھومر تھے مگر اب قبروں میں دفن ہیں۔میرے والدِ محترم، میری والدہ ء محترمہ، میری اہلیہ، میرے بڑے بھائی محمد حنیف، میرا چھوٹا بھائی محمد اقبال، میرا پیارا دوست خالد وقار، میرا رفیق وغم خوار علیم رضا اور میری بھابی اس قبرستان میں دفن ہو چکے، کچھ عرصہ قبل تک یہ سب ہماری زندگیوں کی رونق اور زینت ہوا کرتے تھے۔

یہ سب ہی ہماری محبتوں کا غازہ ہوتے تھے، یہ ہمارے آنگنوں کا جمال تھے مگر اب منوں مٹّی کے ڈھیر تلے دفن ہیں۔یہاں کتنی ہی قبروں کے نشانات تک مٹتے جا رہے ہیں۔کتنی ہی قبروں کے متعلق لوگ فراموش کر چکے ہیں کہ یہ کس کی قبریں ہیں؟ایک دن آئے گا جب ہم بھی ان قبروں میں دفن ہو چکے ہوں گے۔ہم بھی اپنی ناتمام حسرتوں اور ادھوری خواہشوں سمیت قبر بُرد کر دیے جائیں گے۔

سچ ہی تو کہا ہے عمران الحق چوہان نے۔
خواب، امید، تمنائیں، تعلق، رشتے
جان لے لیتے ہیں آخر یہ سہارے سارے
وہ دن ضرور آ کر رہے گا جب ہمارے دوست احباب سب ہمیں بھول چکے ہوں گے اور موت کے 40 یا 50 سال بعد اس دنیا کے لوگوں کو یہ بھی یاد نہیں رہے گا کہ ہم کبھی اس دنیا میں آئے تھے یا نہیں اور ایسا وقت بھی ضرور آئے گا جب ہماری قبریں بھی خستہ ہو جائیں گی۔

ہماری قبروں کے نشانات تک مٹ جائیں گے اور برسوں قبر کے اندر پڑے رہنے کی وجہ سے ہمارے جسموں کی ہڈیاں تک مٹّی کا حصّہ بن جائیں گی۔حیدر علی آتش نے کہا تھا۔
 نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
 مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
31 دسمبر کے سورج کی ٹکیہ غروب ہونے جا رہی تھی اور میرے دل ودماغ کو یہ احساسات نوچے جا رہے تھے کہ ان قبروں کے اندر ان مُردوں کا ساتھی کوئی بھی تو نہیں۔

ان کے لاڈلے چہیتے اور وفاؤں کا دَم بھرنے والے دوست احباب بھی نہیں، ان کے لیے وارے نیارے جانے والے والدین نہیں۔اپنی جس اولاد کی خاطر انھوں نے طرح طرح کے پاپڑ بیلے، وہ بھی ان کے ساتھ نہیں۔ان کی لحد میں ان کے ساتھ دولت کی ریل پیل کا گزر تک نہیں۔قبروں میں ان کے ساتھ صرف ان کے اعمال ہیں اور جب ہم بھی ان قبروں کا رزق بن جائیں گے تب ہماری حالت بھی یہی ہو گی، بس ہم ہوں گے اور ہمارے اعمال۔


لوگو! زندگی کی اس ناؤ کا کچھ پتا نہیں، جانے کب موت کے سمندر میں غرق ہو جائے۔عمر رسیدہ لوگوں کی زندگی کی ناؤ تو ویسے ہی ہچکولے کھا رہی ہوتی ہے، اب تو مضبوط اور توانا لوگوں کی موت بھی انھیں آنِ واحد میں اچک لیتی ہے۔خوب صورت،صحت مند اور جوان رعنا چند لمحوں میں مر جاتے ہیں۔حمید نسیم کا شعر ہے۔
کیا خبر میرا سفر ہے اور کتنی دُور کا
کاغذی اک ناؤ ہوں اور تیز رَو پانی میں ہوں
یہاں اس دنیا میں ایسا بھی تو ہو چکا ہے کہ سالِ نو کا جشن منانے کے لیے اپنے گھروں نکلنے والے نوجوان حادثے کا شکار ہو کر زندہ واپس اپنے گھر نہ لوٹ سکے، ان کی لاشیں ہی گھر آئیں۔

گھر سے نکلتے وقت ان کے ذہن کے کسی کونے کھدرے میں بھی یہ بات نہ ہو گی کہ اب ان کی لاشیں ہی گھر واپس آئیں گی۔
جب یہ طے ہے کہ بہ ہرحال سب نے ہی مرنا ہے، ہر ذی روح نے موت اور قبر کے تلخ اور جاں گسل مرحلے سے گزرنا ہے تو کیوں نہ ہم گناہوں سے توبہ کر لیں، بالخصوص ایک ایسے گناہ سے جس کی مغفرت ہے ہی نہیں۔شرک ایک ایسا گناہ ہے جو سب سے بڑا ہے۔صحیح بخاری کتاب الشّہادات میں حضرت ابوبکر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”کیا میں تمھیں بتاؤں کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟“صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا کیوں نہیں ضرور بتائیے! تو آپ نے فرمایا”اللہ کے ساتھ شرک کرنا“۔

قرآن مجید میں اللہ نے شرک کو ظلمِ عظیم کہا ہے۔مان لیجیے! کہ اللہ ایک ہے، وہ یکتا اس ساری کائنات کا خالق ومالک ہے۔سورة النسا آیت نمبر 48 میں ہے کہ'' یقینا اللہ کبھی نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے،اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دے گا'' تمام انبیائے کرام توحید ہی کی دعوت دینے اور شرک کی غلاظت سے بچانے آئے تھے۔قرآنِ پاک کی یہ تعلیمات بڑی ہی واضح اور دوٹوک ہیں کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں اور اسی حالت میں انھیں موت آ جاتی ہے تو وہ دائمی جہنّمی ہیں، وہ کبھی جنّت میں داخل نہ ہو سکیں گے۔

توحید کے ساتھ ساتھ نبیِ مکرم سے اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبت کیجیے! نبی سے اپنی امّت کے ساتھ محبتوں کے انداز دیکھنے ہیں تو ساڑھے چودہ سو سال پیچھے چلے جائیں کہ وہ نبی سجدوں میں رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں کہ اے اللہ! میری امّت کو بخش دے، میری امّت کو معاف کر دے۔
نبی سے محبت آپ صلی اللہ علیہ کی اطاعت میں ہے۔اگر ان دونوں باتوں پر عمل کر لیا جائے تو پھر موت کے بعد کے تمام مراحل آسان ہو جائیں گے(ان شائاللہ)۔

اگر آپ نے کبھی جانے یا انجانے میں ایسا کوئی بھی گناہ کیا ہے تو آج ہی توبہ کر لیجیے اور توبہ بھی ویسی کیجیے جیسی اللہ تعالی نے سورہ تحریم کی آیت نمبر 8 میں بیان فرمائی ہے۔''اے ایمان والو! اللہ کے سامنے خالص توبہ کرو کچھ بعید نہیں کہ تمھارا ربّ تم سے تمھارے گناہ دُور کر دے اور تمھیں بہشت میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی''
موت کی تلخیوں سے بے پروا ہو کر اور قبر کی سختیوں کو درخورِ اعتنا سمجھے بغیر، ہم کسی کارواں کی مانند چلے جا رہے ہیں۔

زندگی پیہم بیتتی جا رہی ہے،زیست کے ماہ وسال کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔دیوارِ حیات سے ہر سال ایک ایک کر کے اینٹیں گرتی جا رہی ہیں۔دسمبر 2020 کے اختتام پر بھی ایک اینٹ اور گر چکی ہے مگر لوگ ہیں کہ خوش ہوئے جا رہے ہیں۔زندگی کا ایک سال کم ہونے پر خرافات چہ معنی دارد؟ کیوں نہ ہم اللہ کے نیک بندے بن جائیں، اتنے نیک کہ جب ہم اللہ کے حضور پیش ہوں تو اللہ رب العزت کو ہم پر پیار آ جائے۔اگر ہم نے زندگی میں شرک نہ کیا اور نبی کو اپنی جان سے بھی بڑھ کر پیار کیا تو اللہ کو ہم پر پیار ضرور آئے گا ان شائاللہ۔امن لکھنوی کا بہت عمدہ شعر ہے۔
 زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے
موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :