کراچی والے اور لاہور والے ایک دوسرے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں

ہفتہ 25 اپریل 2015

Hussain Jan

حُسین جان

پہلے پاکستانیوں کی کچھ عادتوں بارئے ذکر ہو جائے۔ ویسے تو ہم پاکستانیوں میں اتحاد نام کی کوئی چیز،موجود نہیں ،ملکی سطح تو بڑی دور کی بات ہے ہم تو گلی محلوں میں بھی پیار سے نہیں راہ سکتے۔ خود کو برتر ثابت کرنے کے جنون نے ہمیں ایک دوسرئے سے دور کر دیا ہے۔ مسجدمیں نمازی جیسے ہی نماز سے فارغ ہوتے ہیں ، تو ایک دوسرئے کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں مثلا حاجی صاحب کا بیٹا تو ان کو منہ نہیں لگاتا مگر یہاں یہ چوہدری بنے پھرتے ہیں۔

چیمہ صاحب کی بہو نے ابھی کل ہی ان کو کھری کھری سنائی ہیں لیکن ہم پر یہ ہر وقت رعب ڈالنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ ایک دوسرئے کے کام میں ٹانگ اڑانا بھی ہم اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں،کوئی شخص گھر بنا رہا ہے تو اُسے بار بار ٹوکنا کہ بھائی ایسے نہیں ایسے چھت ڈلواؤ ،دیوار کا رنگ یہ ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ، ۔

(جاری ہے)

اور پھر جب آتی ہے بقر عید پھر تو پورا پاکستان ہی دانشور بن جاتا ہے، ابے بھائی کتنے کا لائے ہو کیا کہا 30000ہزار کا ارئے اتنے میں تو اچھی خاصی موٹی تازی وہڑی آجاتی۔

کہابھی تھا کہ جب جانور خریدنے جاؤ تو مجھے ساتھ لے جانا آپ کو پتا بھی ہے کہ بھائی کا تجربہ کتنا زیادہ ہے۔اور پھرباری آتی ہے شادی کی ، تو پڑوسی بولے گا یار کتنے لوگوں نے آنا ہے بارات کے ساتھ ایسا کرو فلاح ہوٹل بک کروا لو اُن کا کھانہ بھی اچھا ہوتا ہے اور ریٹ بھی مناسب ہوتے ہیں، مہندی پر دال چاول کا رواج چل پڑا ہے مگر تم بریانی ہی پکوانہ اس سے انسان کی ناک اُنچی رہتی ہے۔

بیٹی کو جہیز میں اے سی ضرور دے دیناورناسسرال والے اُلٹی سیدھی باتیں کریں گے۔اگر وقت ہو تو فرنیچر تو چنیوٹ سے ہی بنوائیے گا کافی مضبوط اور پائیدار ہوتا ہے۔ میں نے تو اپنی بیٹی کو وہیں سے بنوا کر دیا تھا۔ کچھ دن پہلے کی ہی بات ہے کہ ہم نے روتے دھوتے ایک عدد موٹرسائیکل لے لی تو لوگوں نے پوچھ پوچھ کر ادھ موا کر دیا کہ یار اتنی مہنگی لے لی ہے اس کمپنی کی نہیں لینی تھی یہ تو بہت جلد کھٹارا ہو جائے گی۔

خیر بات ہو رہی تھی کراچی اور لاہور والوں کیکہ دونوں ایک دوسرئے کے بارئے میں کیا سوچتے ہیں۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور لاہور کا نمبر دوسرا آتا ہے۔ جیسا کہ ہم بتا ہی چکے ہیں کہ ہم کبھی بھی متحد نہیں راہ سکتے ایک دوسرئے میں کیڑے نکالنا اور نیچا دیکھانے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی ،معاشرتی اور اقتصادی حالات میں ان دو شہروں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ دونوں شہروں کے لوگ کسی نہ کسی بہانے ایک دوسرئے کے ساتھ رابطے میں بھی رہتے ہیں۔ جب رابطے ہیں تو ایک دوسرئے کی عادتوں کا بھی بغور مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اپنے اپنے شہر جا کر کے ایک دوسرئے کی باتوں کوپھیلانا اپنا اولین کام سمجھتے ہیں۔ جیسے کہ کراچی والوں کو ایک خوش فہمی ہے کہ لاہور میں رہنے والے محنتی نہیں ہوتے اُن کا دماغ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے کے مطلق ہی سوچتا رہتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ کراچی والے یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ پورئے پاکستان میں صرف ہم ہی ٹیکس دیتے ہیں جبکہ لاہور والے ٹیکس دینے میں زیرو ہیں۔ دوسری طرف لاہور والوں کو شکوہ ہے کہ کراچی والے بولتے بہت زیادہ ہے ،لاہور میں زیادہ بولنے والوں کو اکثر کہا جاتا ہے کہ کوا کھا کر آیا ہے جو اتنا بول رہا ہے ، لہذا کراچی والوں کے بارئے میں مشہور کر رکھا ہے کہ شائد یہ کوئے کھاتے ہوں گے۔

کراچی والے کہتے ہیں کہ لاہور والے بہانے بہت بناتے ہیں اور لاہور والوں کے بارئے میں مشہور کر رکھا ہے کہ یہ ہر بات انشاء اللہ کہ کر ٹال دیتے ہیں ،جیسے کہ مشہور ہے "انشاء اللہ کہ کے ٹالا"
کراچی والوں کے نزدیک لاہور والے بہت موٹے ہوتے ہیں جبکہ لاہور والوں کا سوچنا ہے کہ کراچی والے بالکل دھاگے کی مانند پتلے ہوتے ہیں ۔ لاہور والوں کا ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ کراچی والے ہمیں ہر وقت کھانے کا طعنہ دیتے رہتے ہیں مگر خود جب بھی لاہور آئیں گے سب سے پہلییہی کہیں گے کہ یار اس دفعہ تو پھجے کے پائے اور لسی ضرور پی کر جاؤں گا،پھر بشیر کی مچلی کھانے چلیں گے۔

یعنی ہمیں صرف بدنام کر رکھاہے جبکہ کھانے کا شوق خود کو ہم سے بھی زیادہ ہے۔ اگر لاہور میں کوئی کراچی والے کو کچھ کہ دے تو آگے سے جواب دیتا ہے اگر کراچی ہوتا نہ تو میں اس کو دیکھ لیتا۔ جبکہ لاہور والوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ بھائی کراچی جاؤ گے تو گاڑی میں مگر آؤ گے اخبار میں۔ ویسے آج تک لاہور والوں کہ اس بات کی بھی سمجھ نہیں آئی کہ زیادہ تر کراچی والے کراچی کو کرانچی کیوں کہتے ہیں۔

لاہور والے کراچی والوں کے بارئے میں یہ بھی سوچتے ہیں کہ کراچی والے بہت جلد فری ہوجاتے ہیں ان کو انگلی پکڑاؤ تو فورا بازو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف کراچی والوں کا سوچنا ہے کہ لاہور والے بہت سڑو ٹائپ کے ہوتے ہیں اور ہمیشہ ان دیکھی اکڑ میں رہتے ہیں۔
کراچی والے پان ،گٹکا بہت کھاتے ہیں جبکہ لاہور والے سگریٹ بہت پیتے ہیں ،لاہور والوں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر انہیں پوچھا جائے کہ بھائی دن میں کتنے سگریٹ نوش فرماتے ہیں تو لاہوریے آگے سے جواب دیتے ہیں کہ جتنے پیش کر دیے جائیں۔

لاہور والوں کے نزدیک کراچی والے بہت تیز تیز بھی بولتے ہیں اور ایسی اردو بولتے ہیں جو صرف شاعروں کو ہی سمجھ میں آتی ہے۔ جبکہ کراچی والوں کا خیال ہے کہ لاہور والے ایسی پنجابی بولتے ہیں کہ لگتا ہے ایک دوسرئے کو گالیاں دے رہے ہیں۔ لاہور والوں کا دعوع ہے کہ ہم اچھے مہمان نواز ہیں جبکہ یہی دعوع کراچی کی طرف سے بھی کیا جاتا ہے۔ ویسے کھیلوں میں بھی دونوں میں کافی فرق ہے سوائے کرکٹ کے۔

گلی ڈنڈا لاہور والوں کا پسندیدہ کھیل ہے جبکہ کراچی والے لڈو شوق سے کھیلتے ہیں۔ لاہور والے کہتے ہیں کہ کراچی والے خود کو بہت چلاک سمجھتے ہیں جبکہ کراچی والوں کا ماننا ہے کہ لاہور والے خود کو عقل مند سمجھتے ہیں جبکہ ہوتے نہیں۔ کچھ کراچی والے لاہوریوں کی دھوتی بارئے بھی کافی شکوک و شہباب کا اظہار خیال کرتے پائے جاتے ہیں کہ ادھر ہوا چلی اُدھر دھوتی اُڑی۔


یہ تو بہت تھوڑے سے فرق ہیں جو پاکستان کے دوصوبوں کے دو بڑئے شہروں کے لوگوں میں آپس میں ہیں اگر اس پر مزید ریسرچ کی جائے تو آپ کو پتا چلے گا ہم لوگ کیسے گرہوں میں بٹے ہوئے ہیں ، ہم تو ایک دوسرئے سے نفرت کرنے میں بھی سب سے آگے ہیں ، ایک صوبے کے لوگ دوسرئے صوبے کے لوگوں کو اپنے صوبے میں برداشت نہیں کرتے۔ ہم اپنی اپنی ناکامیوں کا زمہ دار بھی دوسرئے صوبے کے لوگوں کو ٹھہراتے ہیں۔

قوم پرستی اچھی چیز ہے مگر ایسی بھی قوم پرستی کیا کرنی جو ایک دوسرئے سے نفرت پیدا کرتی ہو۔ ہم تو ایک دوسرئے کے دوست نہیں بن پائے بھائی بھائی کیا بنیں گے۔ قائد نے وفاق پر زور دیا تھا مگر ہم تو گلی محلوں میں بٹ گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ذات پات کے نظام میں بھی ہم کسی سے کم نہیں۔ جاٹ ہے تو رانوں کو کم تر سمجھے گا، ملک ہے تو راجپوت کو چھوٹی ذات سمجھے گا۔

شیخ ہے تو کھوکھر کو کچھ نہیں سمجھے گا۔ ہماری کتابوں میں یہ تو لکھا ہے کہ انڈیا میں ذات پات کا نظام بہت برا ہے مگر کبھی کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ہم خود بھی ذات پات کو ہی ماننے والے ہیں۔ اور تو اور بچوں کے رشتے تک نہیں کرتے دوسری ذات میں، موچی ہے تو موچی ہی رہے گا، نائی ہے تو نائی ہی رہے گا یہ نظام ہے ہمارے ملک ،اور دور دور تک بہتری کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی۔ کراچی ہو یا لاہور ،کویٹہ ہو یا پشاور سب پاکستان کے ہی شہر ہیں اور ہم سب پاکستانی ہیں ، ہمیں مل جل کر رہنے کی عادت ڈال لینی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :