پاک آرمی بمقابلہ لبرل لونڈے

جمعہ 15 مئی 2015

Hussain Jan

حُسین جان

کچھ لوگوں کو آرمی چیف کا ملکی حالات میں دلچسپی لینا ایک آنکھ نہیں بھاتا ،وہ سمجھتے ہیں اس سے پاکستان میں جمہوریت کی وجہ سے جو دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں اُن کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔ سانحہ کراچی کے بعد چیف کا دورہ سری لنکا ملتوی کرنا کوئی سیاسی ڈرامہ نہیں کہ یہ ڈرامے ہمارے سیاستدانوں کو ہی کرنے آتے ہیں بلکہ غم سے نڈھال خاندانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

ہو سکتا ہے ماضی میں آرمی سے کچھ غلطیاں ہوئی ہوں، اگر ہم ماضی کو پلو سے باندھے رکھیں گے تو ملکی پہیہ جام ہو جائے گا۔ کیونکہ بہت سی غلطیاں ہمارے سیاستدانوں اور بیوروکریسی سے بھی ہوئی ہیں۔ آرمی چیف کی طرف سے کسی بھی سانحہ کے خلاف ردعمل آنے سے مراد جمہوریت کو خطرہ نہیں نہ ہی اس میں سیاستدانوں کی تذلیل ہے ،کیا راحیل شریف چاند کے سپہ سالار ہیں بالکل بھی نہیں وہ پاکستان کے سپوت ہیں لہذا اُن کی طرف سے ردعمل آنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ملکی مسائل سے مکمل آگاہ ہے اور اپنی تمام کوششیں ان مسائل کو حل کرنے میں سرف کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)


ہمارے ہاں ایک روایت چل پڑی ہے کہ جو پاک آرمی کی جتنی زیادہ تذلیل کرے میڈیا اُسے اُتنا ہی ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے۔ ہمارے میڈیا کے ابھی دودھ کے دانت نہیں نکلے ،اسی لیے یہ میڈیا اکثر بونگیاں مارتا رہتا ہے۔ پاکستان میں جتنے بھی حادثات ہوتے ہیں پاک فوج اپنے عوام کے ساتھ کھڑئے پائے جاتے ہیں۔ سیلاب ہو یا زلزلہ یا اس جیسی دوسری آسمانی آفات ،ہماری فوج نے ہر صورتحال میں ہماری مدد کی ہے۔

ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھنا ہو گا، اپنے ملک کی فوج کو بدنام کر کے غیروں سے انعام پانے کی خوائش کچھ لوگوں کو گلی کے اُس کتے کی مانندی کر دیتی ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا اور اُسے ہر طرف سے دھتکار ہی ملتی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آرمی چیف حکومت وقت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں تو اُن لوگوں کے لیے اتنا جوا ب ہی کافی ہے کہ حکومت کو کمزور کرنے کے لیے اُس کی کارکردگی ہی کافی ہے اس کے لیے اتنی بھاگ دوڑ کی ضرورت نہیں۔

جس طرح سول حکومتوں کا کام ہوتا ہے ملکی اور عالمی سطح کے معاملات پرگہری نظر رکھے اس طرح فوج کا بھی یہی کام ہے کہ اپنے اندرونی معاملات کے ساتھ ساتھ اردگرد کے حالات پر بھی نظر رکھے۔
اس وقت ہماری فوج بہت سے محازوں پر مصروف ہے، ضرب عضب سے لے کر کراچی آپریشن تک ،سرحدوں کے ساتھ ساتھ اندرونی محازوں پر بھی فوج کو ہی لڑنا پڑرہا ہے ،یہ وقت ہے کہ ہم اپنی فوج کا مورال بلند کریں، اُن کی کارکردگی کو سراہیں،نہ کہ ہر وقت اپنے آقاؤں کی خوش کرنے کے لیے فوج پر بھونکنا شروع کر دیں۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ فوج کا کام صرف بارڈر تک ہی محدود رہنا ہے کیا اُن لوگوں کو یہ نہیں معلوم کے فوج کے علاوہ ہمارا کون سا ادارہ ایسا ہے جو دشمن سے لڑنے کی سکت رکھتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملک کے اندر دشمن عناصر سے لڑنا ہماری پولیس کا کام ہے لیکن کیا ہماری پولیس اس قابل ہے کہ دہشت گردوں کو پکڑ سکے ، ان بیچاروں سے تو ایک چور نہیں پکڑا جاتادہشت گرد کیا پکڑیں گے۔

سیاستدانوں نے پولیس ڈپارٹمنٹ کو صرف اپنے دشمنوں کو سزا دینے کے لیے بنا رکھا ہے۔ یا پھر پولیس کا کام بڑئے بڑئے صاحب لوگوں کے قافلوں کی حفاظت راہ گیا ہے۔
عالمی سطح پر ہمارا امیج کافی مسخ ہو چکا ہے، کہتے ہیں نہ کہ اکیلا انسان تو روتا ہوا بھی اچھا نہیں لگتا، لہذا ہم عالمی برادری سے کٹ کر نہیں راہ سکتے، جب سے دُنیا عالمی گاؤں بنی ہے تب سے ایک دوسرئے کے ساتھ مفادات کا رشتہ اورمضبوط ہو چکا ہے۔

ہماری آرمی یہی کوشش کر رہی ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو بہتر بنایا جاسکے۔ وہ لوگ جو بلوچستان اور قبائلی علاقوں کو لے کر پاک فوج کو بدنام کرتے ہیں کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ طالبان اور بلوچ علیدگی پسند لوگوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ ایسے لوگ دشمن ممالک کے ہاتھوں بک کر اپنے ملک کے لوگوں کا ہی قتل عام کر رہی ہے۔ آرمی کا کام ہے ملک کی حفاظت کرنا اور وہ بہت اچھے طریقے سے کر رہی ہے باقی غلطیاں تو کسی سے بھی ہوسکتی ہے، لیکن افواج پاکستان کے کردار کو نظر انداذ کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر ہماری فوج نہ ہوتی تو دشمن کب کا ہمیں غلام بنا چکے ہوتے۔

اگرماضی میں آرمی سے طالبان کے معاملے پر کوئی غلط فیصلہ ہوا ہے تو اس فیصلے کے ازالے کے لیے دن رات کام کر رہی ہے، دہشت گردوں کو چن چن کر اُنہی کے بلوں میں مارا جا رہا ہے۔
اگر سچ لکھوں تو آرمی کے خلاف سب سے زیادہ بھونکنے والے لبرل لوگ ہے، لبرل ہونا بری بات نہیں ،لیکن اپنے ملک کے ہی اداروں کے خلاف زہر اُگلنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ یہ لبرل حضرات کبھی کرپشن کے خلاف نہیں بولیں گے، کبھی چوری چکاری کے خلاف نہیں بولیں گے۔

سول حکومتوں کو عوامی مسائل سے آگاہ نہیں کریں گے۔ ان لبرلز کی نظر کبھی لوڈشیڈنگ پر نہیں پڑی، ان لوگوں کو ٹوٹے پھوٹے ہسپتال نظر نہیں آتے، ان لوگوں کو غربت سے تنگ لوگوں کی خودکشیاں نظر نہیں آتی، یہ مادر پدرآزاد لوگ این جی اوز کی آڑ میں کروڑوں کے فنڈز لیتے ہیں اور پھر خود ہی کھا جاتے ہیں۔ لیکن ان کو فوج میں دُنیا جہاں کی برائیاں نظر آتی ہے۔

آرمی چیف کے ملکی اور غیر ملکی دوروں کو یہ جمہوریت کے لیے خطرہ گردانتے ہیں۔ ان لوگوں کا بس چلے تو کراچی میں ہونے والی قتل و غارت کی زمہ داری بھی پاک فوج پر ڈال دیں کہ ان کو ہڈی ملتی ہی پاک فوج کو بدنا م کرنے کے لیے ہے۔ یہ خود کو سول سوسائٹی کہتے ہیں یعنی مہذب معاشرہ،اگر یہ لوگ اتنے ہی مہذب ہیں تو ملک میں سکول ،کالج ،ہسپتال،بنانے جیسے کام کیوں نہیں کرتے، ہاتھوں میں دس دس روپے کی موم بتیاں پکڑئے یہ لونڈے لفنگے کبھی پاک فوج کے دفاع کے لیے بولے ہیں۔

کبھی انہوں نے پاک فوج کے شہیدوں کے گھروں میں جا کر موم بتیاں جلائی ہیں، کبھی دیکھا ہے شہید ہو جانے والے جوان یا افیسر کے اہل خانہ اپنے پیارے کو گنوا کر کس حال میں ہیں۔ نہیں بالکل نہیں یہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے محب وطنی کا شبہ ہوتا ہو۔ یہ جب بھی گلا پھاڑیں گے ملک کی ساخ کو تباہ کرنے کے لیے ہی پھاڑیں گے۔
پاکستان میں دہشت گردی کا شکار سب ہی ہو رہے ہیں چاہے وہ اکثریت ہو یا اقلیت،سب کے بچے مر رہے ہیں سب قربانیاں دے رہے ہیں کہ چلو ایک دن تو ہمیں اس دہشت گردی جیسی لعنت سے نجات ملے گی مگر یہ آزاد منش لوگ صرف اقلیت کو ہی دیکھتے ہیں ، جبکہ ہم سب پاکستانی ہیں ،ہمارے لیے پاکستان سب سے پہلے ہے۔

سنی شیعہ ،سکھ، عیسائی،چترالی،اسماعیلی،ہندؤ سب پاکستانی ہیں کسی ایک کہ گھر میں لاش کا مطلب دوسرئے کہ گھر پر بھی ماتم ہے۔ لیکن یہ گول عینکوں والے ہمیشہ تعصب کی بھی ایک عدد عینک آنکھوں میں لگائے رہتے ہیں ،یہ ایسے لوگ ہے جو انگریز کے جھوٹ کو بھی سچ مانتے ہیں اور کالوں کے سچ کو بھی جھوٹ، یہ جو اپنے کالموں میں اپنے غیر ملکی دوستوں کے حوالے دیتے ہیں حقیقت میں یہ کوڑی زدہ لوگ ہیں جو اپنے ہی ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اگر تحریک چلانی ہے تو ایسی چلاؤ جس سے پاکستان کے عوام کا کچھ بھلا ہو جائے نہ کہ اپنی ہی فوج کے خلاف تحریکں چلاتے پھرو، اسی ملک نے تمیں سب کچھ دیا ہے۔ کچھ تو شرم کرو،حیا ء کرو کہ اپنوں کو ہی پیٹھ پیچھے چھرا گھونپ رہے ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :