آپسی ٹکراؤ

بدھ 1 نومبر 2017

Hussain Jan

حُسین جان

صبح دُکان پر بیٹھا تھا کہ بٹ صاحب تشریف لے آئے ۔ سب سے پہلے آپ کو بٹ صاحب کا تعارف کرواتا ہوں۔ موصوف چنگ چی رکشہ چلاتے ہیں اور خود کو سیاست کے صف اول کے ماہرین تصور کرتے ہیں۔ خاندان شائد اندرون لاہور سے شفٹ ہو کر آیا ہے اسی لیے ر کو ڑ پڑھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بہت بڑئے سپورٹر و ووٹر ہیں۔ بات کوئی بھی ہو رہی ہے اپنی رائے دینا فرض عین سمجھتے ہیں۔

اختلاف رائے کی برداشت نہیں رکھتے عالبا اسی وجہ سے فورا کپڑوں سے باہر ہوجاتے ہیں۔ بات کرتے کرتے دوسروں پر تھوک پھینکنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ کنجوسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ محنت کرنے والے کو دشمن گردانتے ہیں ان کی ڈکشنری میں لکھا ہے کہ کام جتنا کم کیا جائے صحت کے لیے اُتنا ہی بہتر ہوتا ہے ۔ اسی لیے دوپہر سے سپہر تک آرام کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

پان و نسوار کے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ عینک کا نمبر بیشک بڑا ہے پر خود کو چھوٹا ہی تصور کرتے ہیں۔ بہت زیادہ کھانا اور دوسروں کا کھانہ ان کی عادت ہے ۔ آجکل ان کے ابا بیمار ہیں اسی لیے بٹ صاحب کچھ بجھے بجھے نظر آتے ہیں مگر سیاست پر بات کرنا جوں کا توں جاری ہے۔ جیسے ہی دُکان پر تشریف لاتے ہیں سب سے پہلے ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔

ٹی وی اتنا دیکھتے ہیں کہ کبھی کبھی ہمیں شک گزرتا ہے ان کو ٹی بی ہی نہ ہو جائے۔ اللہ رحم کرے۔
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ تو میں بتا رہا تھا کہ بٹ صاحب دُکان پر تشریف لائے اتفاق سے اُسی وقت ایک پلبر صاحب جن کا نام زیشان ہے اور خو د کو نواز شریف کا دیوانہ بتاتے ہیں بھی تشریف لے آئے۔ اب بٹ صاحب نے فرمایا دیکھاپاکستان کی کرکٹ ٹیم کتنی شاندار کارکردگی دیکھا رہی ہے۔

پھر ہماری طرف منہ کر کے پوچھا آپ لوگوں کو پتا ہے یہ سب کیسے ہوا۔ تو میں نے کہا بٹ صاحب سیدھی سی بات ہے لڑکے محنت کررہے ہیں۔جس کے نتیجے میں میچ جیتے رہے ہیں۔ تو بٹ صاحب نے جھٹ سے ارشاد فرمایا آپ بھی بیوقوفوں کے اُستاد ہیں ۔ کبھی غور بھی کیا کریں کسی بات پر پھر زرا تفصیل سے بتاتے ہوئے فرمایا کہ جب سے میاں نواز شریف کو عدالت نے نکالا ہے تب سے پاکستان کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس بہت بہتر ہو گئی ہے۔

اور اُسی وقت سے ایک میچ بھی نہیں ہاری۔ اب جب بٹ صاحب کے دل میں تحریک انصاف کی محبت جاگی تو زیشان صاحب کے دل میں ن لیگ کی محبت جاگنا فطرتی عمل تھا۔
انہوں نے ارشاد فرمایا بابا جی یہ پاکستان میں کرکٹ نواز شریف کی دین ہے۔ وہ خود بھی "عظیم "کھلاڑی تھے اسی لیے کرکٹ کے لیے اُن کی بہت سی قربانیاں۔ رہی بات ہر میچ جیتنے کی تو ایک دفعہ انہی کھلاڑیوں کا مقابلہ آسٹریلیا یا ساؤتھ افریکہ سے ہونے دو دال آٹے کے بھاؤ پتا چل جائیں گے۔

خیر اس طرح کی گفتگو اس دیکھنے میں آتی ہے۔ آپ ملک کے کسی کونے میں چلیں جائیں محروم طبقے کو کبھی اپنے اصل مسائل کا پتا نہیں چلتا ۔ حکومتیں بھی ایسی شاطر ہوتی ہیں ایک کے بعد دوسرا مسئلہ کھڑا کر دیتی ہیں۔ کبھی بجلی نہیں توکبھی پانی نایاب تو کبھی گیس نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں چولھے ٹھنڈے۔ سرکاری سکول ناپید تو کبھی ہسپتال کا رونا۔ سرکاری محکموں میں زلت تو کبھی آٹے چینی کا کال۔


سیانے کہتے ہیں جب تک بچہ روئے نہ ماں بھی دودھ نہیں پلاتی۔ اس مثال سے بڑا واضح پیغام ملتا ہے کہ اگر آپ کو کوئی مسئلہ ہے تو حکومت وقت تک اُسے پہنچانا بہت ضروری ہے۔ اب یہ نہیں کہ چند لوگ ایک سڑک پڑ کھڑے ہوئے کچھ دیر میں چند کیمرہ میں وہاں تشریف لائے آپ کو چند لمحوں کے لیے ٹی وی پر دیکھایا اور یہ جا وہ جا۔ اور نہ ہی ڈاکٹروں کی طرح ہر وقت سڑک پر رہنا ہی حل ہے۔

ہم عوامی نمائندوں کو ووٹ صرف اور صرف اس لیے دیتے ہیں کہ وہ ملک میں موجود وسائل کا ٹھیک طرح سے استعمال کریں۔ یہ وسائل عوام کی بہتری کے لیے ہے نہ کہ اپنے اپنے خاندان کو مزید امیر کرنے کے لیے۔ سوشل کٹریکٹ میں تو یہ لکھا ہوتا ہے کہ جمہوری طریقے سے کچھ لوگوں کو ایوان اقتدار میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ مسائل کا حل کریں۔ لوگوں سے ٹیکس لے کر لوگوں پر ہی خرچ کریں۔

عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کریں۔ سکول ، ہسپتال ،روزگار اور سستی چیزوں کا عوام کے لیے بنانا اُنہی نمائندوں کی زمہ داری ہے۔ لیکن یہ حکمران، سیاستدان اور بڑئے بڑئے سرکاری افسران جن کا تعلق عدالت سے لے کر فوج تک ہے ۔ تمام وسائل کو مخصوص طبقے پر خرچ کردیتے ہیں۔ اپنے بڑئے بڑئے محل بناتے اور بچوں کو تمام سہولیات دیتے ہیں۔

جبکہ عوام کے حصے میں تمام مسائل ہی آتے ہیں۔ اگر لوگوں کو اپنے مسائل حل کرنا ہے تو چھوٹی چھوٹی بحثوں میں آپس میں اُلجھنے کی بجائے حکمرانوں کے گریبان پکڑیں تاکہ مسائل حل ہو سکیں۔ سیاسی جماعتیں خود تو عیش کرتی ہیں مگر عوام کو آپس میں لڑائیں رکھتی ہیں۔ یہ طریقہ انگریز استعمال کیا کرتے تھے ۔ کہ تقسیم کرو اور حکومت کے مزے لو۔
جب تک غریب طبقہ باشعور نہیں ہوتا ۔ ملک کے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔ کچھ خاندانوں کی اجاراداری ختم کرنے کے لیے اپنے حقوق کا تدارک ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ جیسے صورتحال گزشتہ ستر سالوں سے چلی آرہی ہے ایسے ہی چلتی رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :