چور ،گدھا،اور شرمندگی

اتوار 5 نومبر 2017

Hussain Jan

حُسین جان

کسی گاؤں میں ایک چور رہتا تھا جس سے پورئے گاؤں کے لوگ بہت تنگ تھے۔ اُس کا جہاں داؤ لگتا چوری کر لیتا۔ لوگوں کی بھینسوں سے لے کر بھیڑ بکریاں تک اس سے محفوظ نہیں تھیں۔ گاؤں کے باسیوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اس چور کا پتا چل جائے کہ ہے کون۔ اس بات پر سب کامتفق تھے کہ یہ چور ہے گاؤں کا ہی کوئی باسی ہے کیونکہ وہ تمام گھروں کے بارئے میں جانتا تھا رستے بھی اُس کے دیکھے بھالے تھے اسی لیے تو وہ کسی کے ہاتھ نہیں آتا تھا۔

گاؤں والوں نے ایک مشترکہ گلہ بنا رکھا تھا جس میں سب لوگ تھوڑے تھوڑے پیسے ڈالتے تھے جس سے علاقے کے چھوٹے موٹے کام کروائے جاتے تھے۔ لیکن اس چور نے گاؤں والوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا ۔ اس چندے کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کی جیبیں اور جمع پونجی پر بھی ہاتھ صاف کر رہا تھا۔

(جاری ہے)

یہ بات بھی لوگوں پر واضح تھی کہ اس چور کے بہت سے حمایتی بھی اسی گاؤں میں موجود ہیں جو اُس کی ہر چوری کا ثبوت مٹا دیتے تھے ۔


پھر خدا کرنا یہ ہواکہ چور پکڑا گیا۔ لوگوں نے پنجائیت کے سامنے اسے پیش کیا اور اس کے خلاف جو تھوڑئے بہت ثبوت تھے پیش کیے۔ پنچائیت نے لوگوں سے کہا کہ اس کا منہ کالا کرکے ایک گدھے پر بیٹھایا جاے اور پورئے گاؤں کی سیر کروائی جائے۔ تاکہ اس سے لوگوں کو عبرت بھی ہو اور اس کو شرمندگی بھی ۔ ہوسکتا ہے اس عمل سے یہ چوری کرنا چھوڑ دے کیونکہ جیسا بھی ہے ،ہے تو گاؤں کا ہی۔

لہذا اُس کا منہ کالا کر کے ایک گدھے کا بندوبست کیا گیا اور اُس پر بیٹھا کر گاؤں کا چکر لگوانا شروع کر دیا گیا۔ گاؤں کے بچے بوڑھے گدھے کے ساتھ ساتھ تھے۔ گاؤں کے دو تین چکر کاٹ کر گدھا تھک گیا اور آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چور شرمندہ ہوتا۔ بجائے شرمندہ ہونے کے اُلٹا گدھے سے کہنے لگا تم تو ایسے تھک گئے ہو جیسے تمہارا منہ کالا کیا گیا ہے۔

یعنی شرمندگی کا تھوڑا سا بھی عنصر موصوف کی شکل پر نظر نہیں آرہا تھا۔
یہ ایک لوک کہانی ہے جو مجھے شرجیل انعام میمن کی گرفتاری پر یاد آگئی۔ اور یاد بھی اس لیے آگئی کے جب موصوف جیل سے اسمبلی پہنچے تو ان کاپھولوں سے والہانہ استقبال کیا گیا۔ اُن کے چہرئے سے زرا بھی گمان نہیں ہو رہا تھا کہ عدالت نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا تھا اور جناب گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔

ااسمبلی میں آکر دھڑلے سے تقریر کی۔یہ نہیں فرمایا کے میں چور یا کرپٹ نہیں بلکہ یہ کہا فلاں شخص بھی چور اور کرپٹ ہے اُسے تو ایسے گرفتار نہیں کیا گیا۔ وہ لوگ جو اُن پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے اُن کو یقین تھا کہ یہ صاحب دودھ کے دھلے ہیں انہوں نے ساری زندگی کوئی کرپشن نہیں کی۔ سپیکر صاحب فرماتے ہیں شرجیل میمن ایک بہادر آدمی ہے۔


چلیں مان لیا کہ سابقہ وزیر ایک ایماندار آدمی ہیں تو پھر عدالت نے ان کو گرفتار کرنے کا حکم کیوں دیا۔ خدانخواستہ ہماری عدالتیں اتنی کمزور ہو چکی ہیں کہ فیصلے پر عمل درآمد کروانے کی سکت نہیں رکھتی۔ جس کا دل کرتا ہے ججز پر تنقید کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ قومی اداروں کا وقار مجروع کرنا عام بات بن چکی ہے۔ کچھ غریب لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ بڑئے بڑئے لوگ عدالتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔

ان کا جب دل کرتا ہے فیصلوں کو موم کی طرح موڑ لیتے ہیں۔
دوسری طرف ہمارے وزیر خزانہ ہے جن کے اثاثے منجمند ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود موصوف اپنی سیٹ پر برقرار ہیں اور پورا پروٹوکول بھی انجوائے کر رہے ہیں۔ وزیر ریلوئے کا کہانا ہے کہ اسحاق ڈار صاحب ایک ایماندار آدمی ہیں۔ یعنی بات پھر وہی ہے کہ عدالتیں ٹھیک فیصلے نہیں کر پارہیں۔ میاں نواز شریف صاحب بھی عدالتی فیصلوں پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔

کوئی عدالت اور کوئی فوج کو اس کا قصور وار ٹھہرا رہا ہے۔ کسی کو سازش تو کسی کو اقتدار کی جنگ نظر آرہی ہے۔
پھر آصف علی زرداری صاحب ہیں جن کو نو سال جیل میں رکھا گیا اور پھر باعزت بری کر دیا گیا۔ اب وہ کھلے عام کہ رہے ہیں کہ چیرمین نیب کی اتنی مجال نہیں کہ میرے خلاف کیس کھولے۔ اگر انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی تھی تو ان نو سالوں کا کون جواب دے گا۔

بات گھوم پھر کر عدالتوں اور سکیورٹی اداروں پر آجاتی ہے جو اتنے نااہل ہیں کہ ایک فیصلہ بھی ڈھنگ کا نہ کروا سکے۔ میڈیا سارا سارا دن چیخ چیخ کر ان لوگوں کی کرپشن کہانیاں چھاپتا اور دیکھاتا ہے۔ کیا یہ سب جھوٹ ہے یا پھر عوام کو اُلو بنانے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے۔
ہم نے آج تک کسی ایسے سیاستدان، جج، جرنیل ، بیوروکریٹ کو نہیں دیکھا جسے سزا ملی ہو اور اُس نے قوم سے معافی مانگی ہو کہ ہاں یہ غلطی مجھ سے ہوئی ہے جس کی میں قوم سے معافی مانگتا ہوں ۔

اُلٹا اداروں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہر بات پر کہ دیا جاتا ہے ہمیں سازش کے تحت پھنسایا جا رہا ہییا پھر کہ اس کیس کے پیچھے کچھ دوسری طاقتیں شامل ہیں۔ آخر ایسا کب تک چلتا رہے گا۔ کیا کبھی کسی صاحب اقتدار کو سزا ملے گی۔ ہم یہ نہیں کہتے سزا صرف ن لیگ یا پی پی پی کے لوگوں کو ہی ملے ۔ جس جس سیاسی جماعت اور جس جس قومی ادارے میں کرپٹ لوگ موجود ہیں ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے ۔

تاکہ دوسرئے لوگ عبرت پکڑئیں ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ بجائے اس کے یہ لوگ شرمندہ ہوں اُلٹا گاؤں کے چور کی مانند گدھے کو ہی ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ انصاف کا بول بالا اس ملک میں تو مشکل نظر آتا ہے۔ کیا ادارئے کبھی اس قابل ہوپائیں گے کہ انصاف کر سکیں اور عوام کی جان ان کرپٹ لوگوں سے بچی رہے۔ مستقبل قریب میں تو اس کی اُمید نظر نہیں آرہی۔ بلکہ شنید ہے عنقریب نیب کا ادارا ہی ختم کر دیا جائے گا۔ تاکہ نارہے بانس نا بجے بانسری۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :