عجیب منطق

ہفتہ 25 نومبر 2017

Hussain Jan

حُسین جان

میں اور میرا ایک دوست بچپن میں کسی گھر کے باہرسے چھوٹا سا آم کا پودا توڑ لائے۔ شومئی قسمت مالی نے ہمیں دیکھ لیا۔ مزید قسمت خراب مالی بھی محلے دار تھا۔ لہذا فورا ہمیں کان سے پکڑ کر گھر لایا پھر خود بھی ہم پر ہاتھ صاف کیا اور گھر والوں سے بھی کروایا۔ دیکھنے سننے والوں نے بھی ہمیں لعنت ملامت کی کہ تم لوگوں نے کسی کے گھر سے پودا کیوں توڑا۔

یہ چوری ہے شکر کرو مالی تمہیں صرف گھر تک لا یا ہے اگر مالکان دیکھ لیتے تو ہوسکتا ہے تمہیں جیل میں پھینک دیتے۔ ہم نے بھی شکر ادا کیا اور اپنی اس حرکت پر تمام لوگوں سے معافی بھی مانگی۔ ہمیں بچپن سے ہی سیکھایا جاتا ہے کہ چوری کرنا بری بات ہے اور جو چوری کرتا پکڑا جائے اُس کی معاشرئے میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔ گھر والے، محلے والے دوست رشتہ دار سب کے سب اُس شخص سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں اس کی وجہ سے لوگ ہمیں بھی چور نہ سمجھنا شروع کر دیں۔

(جاری ہے)

اس کے ساتھ ساتھ چور پر لوگ اعتبار بھی نہیں کرتے۔ اُسے کہیں نوکری نہیں ملتی ۔ اُسے کوئی گھر میں گھسنے نہیں دیتا۔
ہماری والدہ اکثر اوقات ایک بات کہا کرتی ہیں کہ بیٹا چور کو کھاتے نہیں مار پڑتے دیکھا کرو اس سے عبرت پکڑو گے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ہمارے علاقے میں کسی کے گھر چوری ہوئی۔ دوران چوری گھر والوں نے شور مچا دیا جس سے لوگ اکٹھے ہو گئے اور ایک دو چوروں کو پکڑ لیا۔

بعد میں پتا چلا یہ چوری کوئی بہت ہی قریبی رشتہ دار کروا رہا تھا۔ اب یہ بات پورے محلے میں پھیل گئی ۔ سب کی کوشش ہوتی کہ اس بندے سے دور رہا جائے۔ کسی بھی پروگرام میں اس کی شرکت ممنوع تھی۔
لیکن سلام ہے ہماری پارلیمنٹ کا جس انسان کو عدالت عالیہ نا اہل قرار دے چکی اُسے ہی یہ حق دے دیا کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے صدر بن جائیں۔ اس کا مطلب کہ عدالت نے فیصلہ غلط سنایا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ آپ ملک میں کسی بھی عہدئے کے اہل نہیں رہے ۔ مگر پارلیمنٹ وہ پارلیمنٹ جو ایک مقدس ادارہ ہے جہاں عوام کی قسمت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ جہاں عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کر کے بھیجتے ہیں کہ اُن کے لیے قانون سازی کریں۔ لیکن پارلیمنٹ میں پہنچتے ہی ان نمائندگان کو اپنے اپنے مفاد نظر آجاتے ہیں۔ کبھی یہ جمہوریت کے نام اپنے اقتدار کو طول دینے کا بل پاس کرتے ہیں۔

کبھی تنخوائیں اور مراعات کا بل پاس کر لیتے ہیں۔ کبھی کسی نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کی شق منظور کر لی جاتی ہے۔
اور تو اور ہمارے وزیر خزانہ جن پر بہت سے کیس چل رہے ہیں جن کی جائیدادیں تک منجمند کی جا چکی ہیں وہ ابھی تک سیٹ پر برقرار رہنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ جب عدالت کی طرف سے شکنجہ کسنے کی باری آئی تو موصوف دوسرئے ملک علاج کے لیے سدھار گئے۔

ہمارے سیاستدان ایسے ہی ہیں جلسوں میں ان کی گرج چمک دور سے سنائی دیتی ہے مگر جیسے ہی کرپشن کے کیس بنتے ہیں ان کو بیماری لگ جاتی ہے اور کسی نہ کسی ہسپتال سے تصویر بنوا کر میڈیا میں چلا دیتے ہیں۔
مریم صاحبہ کہتی ہیں ادارے عوام کو جواب دہ ہیں ۔ آپ سے میرا سوال ہے آپ نے عوام کے لیے کیا،کیا۔ کیا کبھی آپ نے عوام کو جواب دیا؟ کتنے سرکاری ہسپتال بنائے۔

کتنے سکول بنے؟ مہنگائی پر قابو پا لیا گیا؟ بے روزگاری ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔ لوگ درجنوں کے حساب سے خود کشیاں کر رہے ہیں۔ آپ کی حکومت نے غربت ختم کرنے کے لیے کیا کیا۔ ہاں البتہ غریب ضرور ختم ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف دیکھیں تو فوج ملکی کی بقا کے لیے دشمنوں سے برسر پیکار جوان اور افسران اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کر رہے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود جس کا دل کرتا ہے منہ اُٹھائے آرمی پر تنقید کرنی شروع کر دیتا ہے۔ آرمی بھی ایک ملکی ادارہ ہے اس پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن اس کے کچھ حدودوقیود ہونی چاہیں۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پوری آرمی کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیں۔ مشرف کے مارشل لاء پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ وہ ایک غیر آئینی عمل تھا ۔

لیکن آپ مشرف کی آڑ میں دوسرئے قومی اداروں کو بھی نشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔
بلاول صاحب نے فرمایا ہے کہ نااہل حکمرانوں نے ملک پر توجہ نہیں دی ، 50سالوں میں کچھ نہیں بدلا۔ جناب بھول گئے ہیں ان 50سالوں میں ان کے نانا، والدہ اور والد بھی حکومت میں راہ چکے ہیں۔ جتنی کرپشن کی کہانیاں ان کے والد کے دور حکومت میں منظر عا م پر آئیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

جب جب کسی ادارئے نے سیاستدانوں کے غیر اخلاقی اور کرپشن کے خلاف فیصلے دیے ان تمام سیاستدانوں نے اپنی توپوں کا رُخ اُس ادارے کی طرف کر لیا۔ ایسے عجیب و غریب دلائل دیے جاتے ہیں کہ عقل دھنگ راہ جاتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے اگر حکمران عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تو ان کو عوام پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ آخر یہ کب تک پیسے کے زور پر ووٹ خریدتے رہیں گے۔ اب عوام میں مزید ظلم سہنے کی سکت نہیں رہی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :