
ٹھگ ہمارے دور کے
جمعہ 18 ستمبر 2020

حُسین جان
پرانے زمانے میں ٹھگ مختلف قافلوں کو دوران سفر لوٹا کرتے تھے۔ مزئے کی بات یہ ہے کہ مسافروں کو لوٹنے کے لیے ان کو خود بھی کئی کئی دن کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ ان ٹھگوں کا زیادہ فوکس تجارتی قافلے ہوا کرتے تھے۔ ان قافلوں میں شامل تاجرمالدار ہوا کرتے تھے اسی لیے ٹھگوں کی کوششہوتی تھی کہ کسی ایسے قافلے پر ہاتھ صاف کریں جو تجارتی سامان لے کر جارہا ہو۔ اس میں ان کو دو فائدے ہوتے تھے۔ ایک تو ما ل غنیمت زیادہ ہاتھ آتا تھا دوسرا سونے اور اشرفیاں بھی کثیر تعداد میں ہاتھ آجاتیں تھیں۔ گھوڑوں کو ریت پر دوڑاتے یہ ٹھگ اپنا الگ حلیہ رکھتے تھے۔ منہ پر ڈھاٹا باندھے دور سے ہی پہچان میں آجاتے تھے کہ ڈاکوں اور ٹھگ ہیں۔
اب آتے ہیں موجودہ دور کے ٹھگوں کی طرف۔
سب سے پہلے ہم عاملوں کے بھیس میں چھپے ہوئے ٹھگوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کا سب سے آسان شکار عورتیں ہوتی ہیں۔ عورتوں کو ان عاملوں سے پیسے والا شوہر بھی چاہیے۔ شوہر رائے راست پر چاہیے۔ ساس بھی بھیگی بلی چاہیے۔ نند گونگی چاہیے۔ گھر الگ چاہیے۔ ان عاملوں کی روزی روٹی ہی ٹھگ بازی پر ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی شعبدہ بازی دیکھا کر یہ معصوم اور چالاک عورتوں سے پیسے بٹورتے ہیں۔ ان کا ایک کام عاشق کو قدموں میں ڈالنا بھی ہوتا ہے۔ ویسے ان ٹھگوں کا ایک یہ فائدہ بھی ہے کہ سو پچاس پر بھی راضی ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان ٹھگوں کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ کبھی کبھی یہ عزتوں پر بھی ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ گھروں کے گھر برباد کردیتے ہیں۔ ایسے ٹھگ آپ کو ہر گلی محلے میں پرسرار سا ماحول بنائے کسی بھی مکان میں نظر آسکتے ہیں۔ ان کے پاس وہ تعویز ہوتے ہیں جو کسی کام کے نہیں بلکہ بعض اوقات تو خالی تعویزوں سے بھی کام چلا لیتے ہیں۔ اندھی عقیدت رکھنے والے اتنی جرت نہیں کرتے کے ان کے دیے ہوئے تعویزوں کو کھول کر دیکھ لیں۔
اب باری ہے ڈاکٹر ٹھگوں کی ۔ ان کی آگے مزید قسمیں ہوتی ہیں۔ یعنی ایک تو وہ جو گلی محلے میں چھوٹا سا کلینک بنائے لوگوں کو "ٹیکے"لگا رہے ہوتے ہیں۔ کلینک کے پاس ہی ایک عدد میڈیکل سٹور ہوتا ہے جہاں پر من پسند دوائیاں رکھوائی جاتی ہیں اور پھر ہر مریض کو وہی لکھ کر دے دی جاتی ہیں۔ یہ ہر فن مولا ٹھگ ہوتے ہیں۔ یہ تب تک ٹھگی لگاتے رہتے ہیں جب تک مریض کی حالت ایسی نا ہوجائے کہ اسے ہسپتال لے جانا پڑئے۔ یہ ٹھگ کچھ خاص پڑھے لکھے نہیں ہوتے مگر ظاہر خود کو ایم بی بی ایس ہی کرتے ہیں۔ اب آتے ہیں ایم بی بی ایسوں کی طرف اب آپ لوگ حیران ہورہے ہوں گے کہ بھلا یہ کیسے ٹھگ ہوسکتے ہیں۔ تو آپ کی خدمت میں عرض کردوں یہ پرانے زمانے کے ٹھگوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ان کا کام کم از کم دو ہزار فیس سے شروع ہوتا ہے۔ کمپنیوں سے کمیشن کھاتے ہیں۔ میڈیکل سٹور والوں سے کمیشن کھاتے ہیں۔ لیبارٹری والوں سے کمیشن کھاتے ہیں۔ اور پتا نہیں کیا کیا کھا جاتے ہیں۔
اب وکیلوں کا بات نا کی جائے تو یہ زیاتی ہوگی۔ ہمارے وکیل بھائی تو کافی سمجھدار قسم کے ٹھگ ہوتے ہیں۔ کیس بھلے جتنا بھی آسان ہوں یہ آپ کے سامنے ایک دفعہ کو کئی دفعہ پڑھ کر سنائیں گے۔ اور ہر کیس کو 302میں منتقل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کیس جتنا کھینچا جاسکتا ہے کھینچا جائے۔ اکثر اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ دادا کا کیس پوتا چلا رہا ہوتا ہے ۔ انہوں نے فیسوں کے مختلف پیکچ بنا رکھے ہوتے ہیں۔ یعنی پر پیشی یا مکمل کیس کے حساب سے پیسے بٹورتے ہیں۔ جیت ہار کی ان کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔
ان کے علاوہ بھی ٹھگوں کی بہت سی اقسام ہیں جس کے لیے منوں کے حساب سے صفحات چاہییں اور صدیوں کے حساب سے وقت۔ لہذا ہم اپنے وقت کو بچاتے ہوئے ڈرایکٹ سیاستدانوں پر آتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ ٹھگ ہیں جنہوں نے دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ عوام ان کے ہاتھ میں اپنا مقدر دیتی ہے لیکن یہ عوام کا مقدر سنوارنے کی بجائے اپنی آل اولاد کا مستقبل سنوارتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال تو ہمارے ملک کے کچھ سیاستدان ہیں۔ یہ سیاستدان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو بھلے چنگے نظر آتے ہیں مگر جیسے ہی اپوزیشن میں جاتے ہیں کئی کئی سو بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں سیاست خدمت کے لیے کی جاتی ہے مگر ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں اسے مال بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ناجائز مال بنانے والے ہی تو درحقیقت ٹھگ ہیں۔ یہ ملکوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ سیاست ہی کی کیا بات کریں۔ پاکستان میں تو ہر ادارے میں ایسے ٹھگ موجود ہیں جو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آج بھی عوامی مسائل حل ہونے میں نہیں آرہے۔ کرنسی ہماری بہت نیچے ہے۔ مہنگائی ہمارے ملک میں بڑھ رہی ہے۔ بے روزگاری کی شرع تیزی سے اوپر کو جارہی۔ صحت کی سہولیات کم ہیں۔ تعلیمی معیار کچھ خاص نہیں۔ ایسے میں یہ ٹھگ ہی ہیں جو اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ پہلے زمانے کے ٹھگ گھوڑوں پر دوڑتے تھے آج کے ٹھگ ، گاڑیوں اور جہازوں میں بھاگتے ہیں۔ پرانے زمانے کے ٹھگوں کو ہر وقت پکڑئے جانے کا ڈر ہوتا تھا۔ مگر آج کے ٹھگ پکڑئے جانے سے نہیں ڈرتے۔ بلکہ پروٹوکول کے ساتھ جہاز میں بیٹھ کر باہر بھاگ جاتے ہیں۔ اگر پکڑئیں بھی جائیں تو واویلا مچاتے ہیں کہ ہم بے گناہ ہیں۔ ہمیں سیاسی طور پر رگڑا دیا جارہا ہے۔
جب تک ان ٹھگوں کو نکیل نہیں ڈالی جاتی یہ ملک کبھی ترقی نہیں کرئے گا۔ سخت سزائیں ہی ان کا حال ہیں۔ ان کے سہولت کاروں کو بھی کڑی سے کڑی سزائیں دی جائیں پھر ہوسکتا ہے کہ اس ملک کا بھی کچھ فائدہ ہوجائے نہیں تو سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔ جتنا مرضی اچھا حکمران آجائے جب تک ان ٹھگوں کو نہیں پکڑئے گا ۔ ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔
اب آتے ہیں موجودہ دور کے ٹھگوں کی طرف۔
(جاری ہے)
ان کا طریقہ واردات پرانے ٹھگوں سے بہت مختلف ہے۔
پہلے ٹھگ بھی ایک ہی قسم کے ہوا کرتے تھے مگر آج کل کے ٹھگوں کی بہت سی اقسام ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ خطرناک قسم سیاستدان ٹھگوں کی ہے۔ جب یہ لوٹنے پر آتے ہیں تو پورا پورا ملک لوٹ کر کھا جاتے ہیں ۔ پچھلے زمانے میں ٹھگ اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو ساتھ نہیں ملاتے تھے۔ مگر آج کے ٹھگ پورے پورے ٹبر کو ساتھ ملا کر ٹھگی لگاتے ہیں۔ پاکستان کی بات کریں تو یہاں بھی بیشمار قسمیں پائی جاتی ہیں۔سب سے پہلے ہم عاملوں کے بھیس میں چھپے ہوئے ٹھگوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کا سب سے آسان شکار عورتیں ہوتی ہیں۔ عورتوں کو ان عاملوں سے پیسے والا شوہر بھی چاہیے۔ شوہر رائے راست پر چاہیے۔ ساس بھی بھیگی بلی چاہیے۔ نند گونگی چاہیے۔ گھر الگ چاہیے۔ ان عاملوں کی روزی روٹی ہی ٹھگ بازی پر ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی شعبدہ بازی دیکھا کر یہ معصوم اور چالاک عورتوں سے پیسے بٹورتے ہیں۔ ان کا ایک کام عاشق کو قدموں میں ڈالنا بھی ہوتا ہے۔ ویسے ان ٹھگوں کا ایک یہ فائدہ بھی ہے کہ سو پچاس پر بھی راضی ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان ٹھگوں کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ کبھی کبھی یہ عزتوں پر بھی ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ گھروں کے گھر برباد کردیتے ہیں۔ ایسے ٹھگ آپ کو ہر گلی محلے میں پرسرار سا ماحول بنائے کسی بھی مکان میں نظر آسکتے ہیں۔ ان کے پاس وہ تعویز ہوتے ہیں جو کسی کام کے نہیں بلکہ بعض اوقات تو خالی تعویزوں سے بھی کام چلا لیتے ہیں۔ اندھی عقیدت رکھنے والے اتنی جرت نہیں کرتے کے ان کے دیے ہوئے تعویزوں کو کھول کر دیکھ لیں۔
اب باری ہے ڈاکٹر ٹھگوں کی ۔ ان کی آگے مزید قسمیں ہوتی ہیں۔ یعنی ایک تو وہ جو گلی محلے میں چھوٹا سا کلینک بنائے لوگوں کو "ٹیکے"لگا رہے ہوتے ہیں۔ کلینک کے پاس ہی ایک عدد میڈیکل سٹور ہوتا ہے جہاں پر من پسند دوائیاں رکھوائی جاتی ہیں اور پھر ہر مریض کو وہی لکھ کر دے دی جاتی ہیں۔ یہ ہر فن مولا ٹھگ ہوتے ہیں۔ یہ تب تک ٹھگی لگاتے رہتے ہیں جب تک مریض کی حالت ایسی نا ہوجائے کہ اسے ہسپتال لے جانا پڑئے۔ یہ ٹھگ کچھ خاص پڑھے لکھے نہیں ہوتے مگر ظاہر خود کو ایم بی بی ایس ہی کرتے ہیں۔ اب آتے ہیں ایم بی بی ایسوں کی طرف اب آپ لوگ حیران ہورہے ہوں گے کہ بھلا یہ کیسے ٹھگ ہوسکتے ہیں۔ تو آپ کی خدمت میں عرض کردوں یہ پرانے زمانے کے ٹھگوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ان کا کام کم از کم دو ہزار فیس سے شروع ہوتا ہے۔ کمپنیوں سے کمیشن کھاتے ہیں۔ میڈیکل سٹور والوں سے کمیشن کھاتے ہیں۔ لیبارٹری والوں سے کمیشن کھاتے ہیں۔ اور پتا نہیں کیا کیا کھا جاتے ہیں۔
اب وکیلوں کا بات نا کی جائے تو یہ زیاتی ہوگی۔ ہمارے وکیل بھائی تو کافی سمجھدار قسم کے ٹھگ ہوتے ہیں۔ کیس بھلے جتنا بھی آسان ہوں یہ آپ کے سامنے ایک دفعہ کو کئی دفعہ پڑھ کر سنائیں گے۔ اور ہر کیس کو 302میں منتقل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کیس جتنا کھینچا جاسکتا ہے کھینچا جائے۔ اکثر اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ دادا کا کیس پوتا چلا رہا ہوتا ہے ۔ انہوں نے فیسوں کے مختلف پیکچ بنا رکھے ہوتے ہیں۔ یعنی پر پیشی یا مکمل کیس کے حساب سے پیسے بٹورتے ہیں۔ جیت ہار کی ان کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔
ان کے علاوہ بھی ٹھگوں کی بہت سی اقسام ہیں جس کے لیے منوں کے حساب سے صفحات چاہییں اور صدیوں کے حساب سے وقت۔ لہذا ہم اپنے وقت کو بچاتے ہوئے ڈرایکٹ سیاستدانوں پر آتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ ٹھگ ہیں جنہوں نے دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ عوام ان کے ہاتھ میں اپنا مقدر دیتی ہے لیکن یہ عوام کا مقدر سنوارنے کی بجائے اپنی آل اولاد کا مستقبل سنوارتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال تو ہمارے ملک کے کچھ سیاستدان ہیں۔ یہ سیاستدان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو بھلے چنگے نظر آتے ہیں مگر جیسے ہی اپوزیشن میں جاتے ہیں کئی کئی سو بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں سیاست خدمت کے لیے کی جاتی ہے مگر ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں اسے مال بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ناجائز مال بنانے والے ہی تو درحقیقت ٹھگ ہیں۔ یہ ملکوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ سیاست ہی کی کیا بات کریں۔ پاکستان میں تو ہر ادارے میں ایسے ٹھگ موجود ہیں جو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آج بھی عوامی مسائل حل ہونے میں نہیں آرہے۔ کرنسی ہماری بہت نیچے ہے۔ مہنگائی ہمارے ملک میں بڑھ رہی ہے۔ بے روزگاری کی شرع تیزی سے اوپر کو جارہی۔ صحت کی سہولیات کم ہیں۔ تعلیمی معیار کچھ خاص نہیں۔ ایسے میں یہ ٹھگ ہی ہیں جو اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ پہلے زمانے کے ٹھگ گھوڑوں پر دوڑتے تھے آج کے ٹھگ ، گاڑیوں اور جہازوں میں بھاگتے ہیں۔ پرانے زمانے کے ٹھگوں کو ہر وقت پکڑئے جانے کا ڈر ہوتا تھا۔ مگر آج کے ٹھگ پکڑئے جانے سے نہیں ڈرتے۔ بلکہ پروٹوکول کے ساتھ جہاز میں بیٹھ کر باہر بھاگ جاتے ہیں۔ اگر پکڑئیں بھی جائیں تو واویلا مچاتے ہیں کہ ہم بے گناہ ہیں۔ ہمیں سیاسی طور پر رگڑا دیا جارہا ہے۔
جب تک ان ٹھگوں کو نکیل نہیں ڈالی جاتی یہ ملک کبھی ترقی نہیں کرئے گا۔ سخت سزائیں ہی ان کا حال ہیں۔ ان کے سہولت کاروں کو بھی کڑی سے کڑی سزائیں دی جائیں پھر ہوسکتا ہے کہ اس ملک کا بھی کچھ فائدہ ہوجائے نہیں تو سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔ جتنا مرضی اچھا حکمران آجائے جب تک ان ٹھگوں کو نہیں پکڑئے گا ۔ ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.