میں عورت کیوں ہوں؟

بدھ 6 جنوری 2021

Imbisat Fatima Alvi

انبساط فاطمہ علوی

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ !
دریں اثناء  کہ میں عورت کی عزت و تکریم ، خوبصورتی و خوبصیرتی ، ذمہ داریوں اور صلاحیتوں ، ہنر اور  خصوصی حس کے قصیدے پڑھوں ، ہمارے معاشرے میں عورت کا درحقیقت کیا مقام ہے ، اس کی وضاحت کرتی چلوں۔
اوسط درجے کے گھرانوں میں پیدا ہونے والے میرے جیسے کئ لوگ محض "عورت کا بڑا مقام ہے ،  ، ماں کی دعا جنت کی ہوا ،  مرد کی کامیابی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ، مرد کے دل تک کی رسائ عورت کے ہاتھ کے بنے لزیز کھانوں کے ذریعے ہی ممکن ہے ، عورت کے بغیر گھر گھر نہیں ، محض مکان ہوتا ہے ،جیسے کئ مقولے سنتے سنتے عمر بالکثیر کو پہنچتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان تمام جملوں کا اطلاق کس سطح پر اور کس زاویے میں ہوتا ہے؟
اس معاشرے میں عورت "بن" کے رہنا نہائت آسان ہے۔

(جاری ہے)


ہر انسان کی چند اخلاقی ذمہ داریاں ہیں۔ چند گھریلو ، معاشرتی و معاشی اقدار ہیں ، آپ کے پاس کوئ ہنر ہے ، آپ عملی زندگی میں بہتر کردار سازی کا عملی نمونہ ہو سکتے ہیں ، آپ  اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر خاصے کامیاب وکامران  ہو سکتے پیں ، اور زمانہ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گا ، جس کی پیاس ہر ذی روح کی فطرت ہے۔


بات کرتے ہیں عورت کی ، اگر آپ  خود کو "اچھی" "سمجھدار" سلجھی ہوئ" سگھڑ" اور خاموش طبع عورت کہلوانا چاہتی ہیں اور باقی "انسانوں" کی طرح خود کو بھی عزت و تکریم کے اعلی او ارفع منصب پر فائز دیکھنا چاہتی ہیں تو محض اپنے آپ کو انسانوں کی فہرست میں سے  سمجھنا چھوڑ دیں۔ پھر دیکھیں ، کیسے دنیا آپ کے آگے "سر نگو" ہوگی۔
جی ہاں۔ آپ کے والدین نے محبت اور برابری کو بروئے کار لاتے ہوئے آپ کو اعلیٰ تعلیم دلوائ ، آپ کے پاس کوئ ہنر ہے ؟ آپ اچھا بول سکتی تھیں ، کسی انسان کی طرح اپنے جذبات  کی بہتر ترجمانی کر سکتی تھیں ،اپنی بیش بہا جستجو اور خوابوں کی تکمیل کر سکتی تھیں ، اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا عزم رکھتی تھیں ؟  اپنے لفظوں کو بہتر  طور پر قلمبند کر سکتی تھیں ، نیز آپ کی ذات  بہت سی صلاحیتوں کا مجموعہ تھی ، بھول جائیں۔

سب بھول جائیں۔ کیونکہ اس دنیا کو آپ کے جذبات ، آپ کی فطرت ، آپ کے خیالات سے کوئ سروکار نہیں۔ اگر آپ میں کوئ عیب ہے تو پریشان نہ ہوں۔   محض اچھی خانساماں ، اور ہراساں کرنے والے ہر مرد کے درندہ صفت رویے اور ہوس سے لبریز نظروں  پر خاموشی اختیار کرنا آپ کو بہت معتبر بنا سکتا ہے۔
جی ہاں! جب بھی آپ  کوئ مرد آیا آپ کا شوہر یا کوئ بھی   آپ  کو ہراساں کرے ، یا آپ کے ساتھ زنا بی الجبر کا مرتکب ہونا چاہے ، تو اس بھیڑیے کی طرح آپ بھی بھول جائیں ، کہ قدرت نے آپ کو صنف ںازک پیدا کیا تھا ، جس نے کبھی گڑیوں اور چوڑیوں سے آگے کی خوفناک زندگی کا  تصور  تک نہ کیا تھا ،  کہ جس کی آنکھوں نے کئ خواب دیکھ رکھے تھے ، کہ جس کے بالوں کی چوٹی بناتے ہوئے ماں اکثر زمانے کی بری نظر کے خوف سے رو پڑتی تھی ، کہ جس کا بھائ  باہر کے بھیڑیوں کی پہنچ سے اپنی بہن کو ہمیشہ بچانا چاہتا تھا ، وہ سب اگر مل کر آپ کو کسی ناپسند شخص کے حوالے بھی کر دیں نہ تو کراہیں مت ، کیونکہ ، آپ حوا کی بیٹی صرف کتابوں میں ہیں ، آپ کی عزت و تکریم ، آپ کی مرضی ، آپ کی جھجک ، آپ کا جبر ، آپ کا صبر ، آپ کی رضا صرف کاغذوں کی حد تک معتبر ہے۔

  آپ کیوں بارہا یہ ازبر کر لیتی ہیں کہ آپ انسان ہیں ؟ آپ کی بھی روح ہے ؟ روح کی بھی کچھ غذا ہے ؟
جس طرح جانور ہماری غذا ہیں ، اسی طرح ایک بات اپنے آنچل سے باندھ لیں کہ آپ کی حیثیت بھی اس دنیا میں محض "غذا" کی سی  ہے۔ اور میری  معصوم روشن آنکھوں والی سہیلیو اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ آپ اہم ہیں ، یاد رکھیں ایک ہی غذا محض کتنے دن فقط ایک انسان کو محضوظ کر سکتی ہے ؟
دو ماہ قبل موٹروے واقعے نے ہم سب کو محاورتاً نہیں حقیقتاً لرزا دیا۔

جس  میں ہم جیسی ایک معصوم بیٹی کو اولاد کے سامنے زدو کوب کا نشانہ بنایا گیا ، یہ درندے ، یہ بھیڑیے دراصل نہ خود انسان ہیں ، نہ ہمیں انسان سمجھتے ہیں۔ یہ ہم میں سے کوئ بھی ہو سکتا تھا۔   زمیں کانپی کیوں نہیں ؟ آسمان پھٹا کیسے نہیں؟   پس سی سی پی او لاہور کے نظریے سے  ثابت ہوگیا ، کہ واقعتاً  ہم مدینے کی مہذب ، اخلاقی اقدار سے لبریز ریاست میں رہائش پزیر ہیں۔

کیا ہم اس ریاست میں محفوظ ہیں ؟ میں میرا جسم میری مرضی کے سلوگن والے "فیمنسٹ لبرلز " کی قطا  حمایتی نہیں۔  بلکہ گھر رہنے والی ، مرد کے تمام کاموں کی ذمہ داری بخوشی قبول کرنے والی ، بلا ضرورت گھر سے نہ نکلنے والی اور تمام مشرقی اقدار کو فخریہ طور پر بروئے کار لانے والی خواتین میں سے ہوں ،
لیکن اگر اپنے آپ کو ایک جیتا جاگتا انسان ، جس کے پاس جسم کے ساتھ ساتھ دل اور ایک حسین روح بھی ہے اور اس کی حفاظت کرنے اور اس کو برقرار رکھنے کی اجازت مانگنے کو اگر آپ فیمنسٹ ہونا کہتے ہیں ، تو جی ہاں ، ہم فخریہ طور پر اس حسین و جمیل زمرے کے احاطے میں آنے پر ذرا برابر بھی نارم نہیں ہیں۔

مرد کا اپنا  مقام ہے ، اور بلا شبہ برتر ہے۔  عورت اپنے اعتبار سے عزت و تکریم کی حقدار "تھی"۔ جس کو  یہ درندہ صفت انسان سمجھ ، بوجھ ، عقل ، شعور ، احساسات ، جذبات سے عاری سمجھ کر درندہ صفت معاشرہ قائم کرنے  میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :