مدرز ڈے

اتوار 9 مئی 2021

Imbisat Fatima Alvi

انبساط فاطمہ علوی

جی جناب. آج میرا عالمی دن ہے. اب ہم ماوں کا بس سال میں ایک ہی دن رہ گیا ہے. مجهے آج بهی یاد ہے کہ بچپن میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر اپنی رول ماڈل اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھ کہ  ہم وی سی آر پر چارلی چپلن کی خاموش مووی دیکھ کر محضوظ ہوا کرتے تهے. تب انگریزوں کا یہ کلچر دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کرتا تها ، کہ وہ خود کہیں اور رہتے ہیں اور ان کے والدین کہیں اور.

کہنے کو تو اسے میرے لڑکپن کا تقا ضا کہیں ، یا کم علمی  ، کہ اس وقت میں ان کی ظاہری شان و شوکت دیکھ کر بہت متاثر ہوا کرتی تهی ، اور میری والدہ مرحوم ہمیشہ مجهے ان کے سحر میں مبتلا ہونے سے روک لیا کرتی تهیں. ایک دن میں نے سوال کیا کہ ، امی یہ گورے سال میں ایک دن اپنی امی کو پهول دینے ان کے گهر کیوں جاتے ہیں ؟ ہم سب تو ساتھ رہتے ہیں ، میں تو آپ کے بغیر کبهی نہ رہ پاوں.
میرے معصوم سوال پہ امی مسکرایں اور جواب دیا کہ بیٹا ، ان کا اپنی اولاد کے ساتھ رہنے کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے ، بہت جلد ان کے بچے خود مختار ہو جاتے ہیں .

اور پہلے بستر ، پهر کمرے ، پهر گهر اور پهر شہر بدل لیتے ہیں. ان کی زندگیاں بہت مصروف ہوتی ہے ، کیونکہ ان کے پاس معاشرتی تعلقات  نبهانے کے لئے رشتے نہیں ہوتے. زرا سوچو ، جس کے پاس نہ ماں ہو ، نہ باپ ، نہ بہن ، نہ بهائ اس کی کل کائنات محض کاروبار ہے ، نوکری  ہے، تعلیم ہے ، ترقی ہے ، ٹیکنالوجی ہے، غربا کی مدد ہے. ہاں مگر اس مصروف زندگی میں وہ ایک دن اپنے ماں باپ کے لئے مختص کر دیتے ہیں ، اور ان کو احساس دلاتے ہیں کہ ابهی بد قسمتی سے آپ زندہ ہیں .


اور یہ ہی ہمارے کلچر کی فتح ہے کہ ہم جڑے ہوئے ہیں.
یہ قریبآ آج سے پچاس سال قبل کی بات ہے. جب ماں بیٹی کے پاس وقت ہوا کرتا تها.
 خیر ، میں اپنا تعارف کروا دوں، میں بهی ایک ماں ہوں. میرے شوہر انتہائ اچهے ، نیک ، نظم و ظبط کے پابند ، نفیس اور صوم و صلوت کے پابند آدمی تهے. جی نہیں ! یہ میں نہیں کہ رہی. میرے والد کے دوست کے دور کے رشتہ دار سے سنا تها.


والدہ کی خواہش تهی ، بیٹی میڈیکل کر جائے لیکن تنگ دستی کی بدولت بی اے ،  ایم اے ، اور پهر ہر مشرقی لڑکی کی طرح شادی کو غنیمت جانا. شادی کے کچھ ہی عرصے بعد والد چل بسے. رہ گئیں والدہ. میں روز صبح اپنے شوہر کو دفتر اور بچوں کو سکول بهیجنے کے بعد امی کی طرف چلی جایا کرتی ، اور گهر کے ضروری کام کر آتی. کیونکی شوہر نامدار کی آمد سے پہلے میری گهر پر موجودگی لازمی تهی ورنہ زدو کوب کی آوازیں ماری پور سے لسبیلا تک جایا کرتی تهیں ، لیکن کیا کرتی ؟ مجبور تهی نہ.

ماں اکیلی ہے یہ خیال کاٹ کهانے کو دوڑتا تها. میرے نفیس شوہر کا خیال تها کہ عورت کو محض "چادر" اور "چار دیواری" میں رہنا چاہئے.
وہ ایک امیر کاروباری مگر ان پڑھ انسان تهے. ان پڑھ تو تهے ہی ، ساتھ ہی شعور ، دل ، محبت ، انسانیت ، ہر جزبے سے عاری تهے.
میں تعلیم یافتہ تهی نہ، لہذا ایک ان پڑھ سے بحث نہ کر پائ .
جب میرے ہاں میرے پانچویں بیٹے کی ولادت کو ایک مہینہ بامشکل گزرا تو انہوں نے مجهے طلاق کے تین لفط کہ کر، بمعہ پندرہ ہزار حق مہر مجهے میری تمام اولادوں سمیت چلتا کر دیا.

وجہ جاننا  چاہیں گے ؟ ان کی نیند میں خلل پڑا کرتا تها. خیر میں امی کی طرف آگئ. عدت کے بعد میں نے نوکری کی.شادی سے پہلے ایم اے کیا تها، طلاق کے بعد اس کا فائدہ اٹهایا. سکول میں دوسروں کے بچے پڑهایا کرتی تهی اور گهر میں اپنے بچے. گزارہ نہ ہوا تو ٹیوشنز بهی دینا شروع کی.
طلاق مجھ پر ایک حادثہ کی طرح آئ اور گزر گئ. زندگی تب بدلی ، جب ماں چل بسی ، اور حوصلہ ، امید اپنے ساتھ  لے گئ.

. اللہ پہ چهوڑ دو. وہ رحیم ہے ، اس نے کچھ  اچها سوچا ہو گا. تم سو جاؤ ، تم نے صبح جانا ہے ، بچوں کو کهانا دے کہ میں سلا دوں گی. آج بہت دیر کر ڈالی ، بچے کب سے یاد کر رہے ہیں. جیسے تمام طاقت ور جملے اپنے ساتھ  لے گئ.
اس وقت اس پورے گهر میں ، میں ایک اکیلی ماں ، اپنی ماں کو یاد کر کہ اپنی آپ بیتی لکھ رہی ہوں. جی؟ میرے بچے؟ بڑے ہوگئے. نوکریاں لگ گئیں، شادیاں ہوگئیں ، سب بیٹے اپنے اپنے گهروں کے ہو گئے.

چهوٹا جو بہت ہی لاڈلا تها ، نوالا منہ میں نہ ڈالو تو نہ کها ئے گا ، بیگ شانوں پہ نہ دهرو ، تو نہ تانے گا ، رات کو ماں کے بال نوچ نوچ کے سوتا تها ، اور انگلی کس کے مقید رکهتا تها ، کہ کہیں ماں چلی نہ جائے. اس لاڈلے نے تو شادی کی اطلاع بهی نہیں دی. مل جاتے ہیں کہیں راہ چلتے تو کہتے ہیں ، ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے آپ کو ویگن میں سفر کرتا دیکھ کہ.پنشن کے لیے خوار ہوتا دیکھ کہ ، کمی۔

(جاری ہے)

بتا دیا کریں بنک جانا ہو تو ،  یہ بهی کہتے ہیں کہ یہ گهر چهوڑ دوں اور وہاں رہائش اختیار کرلوں جہاں باقی بے سہارا مائیں رہتی ہیں تاکہ میرا دل بہلا رہے.

کتنا خیال ہے نہ میرے بیٹوں کو میرا. اللہ نے مجھے بیٹی نہیں دی ورنہ شاید وہ بهی اپنے سخت دل شوہر سے چهپ کر ماں سے دو دعائیں لے جاتی. میرے بیٹے سمجهتے ہیں میری تنہائ دور کر کہ ، مجهے اپنی جیسی بے وقت عورتوں کے پاس بهیج کہ ، یا مجهے سال میں ایک بار "ہیپی مدرز ڈے" کا میسج بهیج کر وہ میرے عمر بهر کے احسانات اور ریاضتوں کا صلہ دے دیں گے. لیکن میں نے تو ان پر کوئ احسان کیا ہی نہیں.

محبت میں تو کوئ رٹرن ہوتا ہی نہیں. اس کے باوجود نہ جانے کیوں میرا بڑا بیٹا گلاب کا پهول دے گیا.
وہ کہتے ہیں میرے پاس گاڑی ہوگی تو وہ مجهے دیکھ کہ شرمندہ نہیں ہوں گے. لیکن انہیں کون سمجهائے کہ مجهے اب ان سہولیات زندگی کی قطعاً کوئ ضرورت نہیں. اب تو بس فرصت ہی فرصت ہے. نہ لنچ بنانا ہے ، نہ بریک فاسٹ. نہ کسی کے دفتر جانے کی خوشی ہے نہ کسی کا انتظار.

نہ رات کو اٹھ کر کسی کو دیکهنا ہے ، نہ کسی کے پہلی مرتبہ  امی بلانے کی خوشی . اب جب میں اپنے بچوں کو ان کے مطلوبہ عہدوں پر فائز دیکهتی ہوں ، تو امی مرحوم کی بات بہت یاد آتی ہے، کہ ان لوگوں کے پاس ترقی کرنے کیلئے بہت وقت ہے ، لیکن فقط ایک رشتہ نبهانے کا موقع محل نہیں.  اب میں سوچتی ہوں جب مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی خاندانی نظام پوری طرح ٹوٹ جائے گا ، تب ہم بھی بہت ترقی کرلیں گے۔ ٹوٹ ہی جائے ، ٹوٹ ہی جائیں سب رشتے ، ہمیں بھی بہت چھوٹی عمر میں اپنی اولاد سے علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے۔  کم سے کم میرے جیسی لاچار مائیں دروازے تکتے تکتے تھوڑی سوئیں گی۔ مجھے امی کی ایک بات سے اختلاف ہے انہوں نے بتایا تها بہت ہی چهوٹی عمر میں والدیں بچوں کو الگ کر دیتے ہیں لہذا دونوں  فریقین میں ہم آہنگی ہو ہی نہیں پاتی ، جب والدین بچوں کو اپنے کرئیر کی راہ میں رکاوٹ سمجهتے ہیں تو جواب میں بچوں کا بهی بوڑهے ماں باپ کیلئے اچهے اولڈ ہومز کا تلاش کرنا جائز ہے.

لیکن میں ؟ میں نے تو کبهی انہیں خود سے الگ نہ کیا. مجهے ابهی بهی یاد ہے ، میرا تیسرا بیٹا تو میرے بغیر نوالہ تک نہ لیتا تها. نہ جانے ایک دم سب کو کیا ہوا؟ میں نے تو نہ بستر علیحدہ کیا ، نہ کمرہ ، نہ گهر تو پهر ماں صرف ماں کیوں علیحدہ کر دی گئ. جی. بالکل درست سوچا آپ نے، بہت مضبوط ہوں میں. اور مضبوط روتے نہیں. لیکن کیا کروں، ماں بهی تو ہوں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :