علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے طلبہ کے مسائل

جمعرات 21 اکتوبر 2021

Iqbal Hussain Iqbal

اقبال حسین اقبال

مکرمی! پاکستان کی جامعات میں ریگولر پڑھنے والے طلبہ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں۔اسائنمنٹس دی جاتی ہیں۔فلیڈ ورک اور تھیسسز کرایا جاتا ہے۔طلبہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لے کر اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔علاوہ ازیں یونی ورسٹی کی لائبریری،انٹرنیٹ اور جُملہ سہولیات سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔اس کے باوجود ان کی فیسیں بھی معقول ہوتی ہیں۔

علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی جو کہ فاصلاتی نظام کے ذریعے ایسے طلبہ کی دہلیز پر تعلیمی سہولیات مہیا کرنے کے لیے سرگرداں ہے'جو کسی بھی مجبوری کی وجہ سے رسمی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔بالخصوص غریب اور پسماندہ طبقے کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے "تعلیم سب کے لیے" کے مشن پر کام کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

جس میں میٹرک سے لے کر ڈاکٹریٹ لیول تک کے متنوع تعلیمی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔

سالانہ تقریباً ایک لاکھ طلبہ 250 سے زائد مضامین میں داخلہ لے کر اپنی تعلیمی استعداد بڑھا رہے ہیں۔مگر چند سالوں میں یونی ورسٹی نے باقاعدہ کاروباری صنعت کا روپ دھار لیا ہے۔دیگر جامعات کے مقابلے میں زیادہ فیسیں اور تعلیم برائے فروخت کے بڑھتے رجحان سے تعلیم طلبہ کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔جامعہ کی ناقص پالیسیوں اور سالانہ کے حساب سے بڑھنے والی ہوش رُبا فیسیں غریب طلبہ کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو رہی ہیں۔

جب طلبہ پہلے سمسٹر کے اسائنمنٹس،ورک شاپس اور پیپرز کے کرب سے نہیں نکلے ہوتے ہیں انہیں دوسرے سمسٹر کا بوجھ بھی ڈال کر پریشر ککر بنا دیا جاتا ہے۔ان سے اگلے سمسٹر کی بھاری بھرکم فیسیں ایڈوانس میں لی جاتی ہیں،وقتِ مقررہ پر ادا نہ کی جائے تو منافع خوری کے لیے ناجائز چارجز لگا دیئے جاتے ہیں۔جس سے طلبہ کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اسی وجہ سے اکثر طلبہ اگلے سمسٹر میں داخلہ بھی نہیں لے سکتے۔طلبہ کی آسانی کے لیے ڈیجیٹلائز سسٹم متعارف کرایا گیا ہے۔طلبہ آگاہی پورٹل کے ذریعے گھر بیٹھے اسائنمنٹس متعلقہ ٹیوٹر کو ارسال کرتے ہیں۔آن آلائن ورک شاپس اٹینڈ کرتے ہیں۔جس کے لیے انٹرنیٹ کی بھاری پیکیجز کرانے پڑتے ہیں اور چارجز طلبہ کو ادا کرنے ہوتے ہیں۔جب تمام اخراجات طلبہ خود اٹھا رہے ہیں تو اتنی بھاری فیسیں لینا کہاں کی عقل مندی ہے؟انٹرنیٹ کی سست روی سے طلبہ تذبذب کا شکار ہیں۔

کتابوں کی عدم دست یابی بنیادی اور اہم مسئلہ ہے۔جب یونی ورسٹی کتابیں ہی نہیں بھیجیے گی تو ایک طالب علم موبائل کی سکرین دیکھ کر کئی صفحات پر مشتمل کتابیں کیسے پڑھ کر امتحان کی تیاری کر سکتا ہے؟طلبہ کو ارادتاً کتاب سے دور رکھا گیا ہے بدیں وجہ طلبہ کو اسائنمنٹس لکھتے وقت کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور طلبہ بغیر کتابوں کے امتحانات دینے پر مجبور ہیں۔

سب کچھ آن لائن ممکن ہے مگر کتب بینی قدرے پیچیدہ عمل ہے۔لہٰذا وائس چانسلر صاحب سے مطالبہ ہے کہ طلبہ کو درپیش مشکلات کے ازالے کے لئے فوری اقدامات کریں تاکہ کتابیں سمیت مطلوبہ مواد بروقت پہنچ سکیں۔اگر کتابیں بھیجنا مقصود نہیں تو فیسوں میں خاطر خواہ کمی کی جائے تاکہ کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔امید ہے ادارہ طلبہ کے غور طلب مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :