
اُردو شاعری میں غزل کی اہمیت
ہفتہ 15 جنوری 2022

اقبال حسین اقبال
اُردو میں غزل گوئی کی ابتدا کے متعلق محققین کی مختلف رائیں سامنے آتی ہیں۔مولانا محمد حسین آزاد کی بیس برس کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں منظرِ عام پر آنے والی تصنیف "آب حیات" میں ولی دکنی کو اردو غزل کا باوا آدم قرار دیا ہے۔مولانا کی رائے کو دوسرے محقیقن نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ولی دکنی سے قبل بھی غزل گوئی کے دو ادوار گزر چکے ہیں جن کے نمونے بھی ملتے ہیں۔
(جاری ہے)
غزل گوئی کی ابتدا عربی صنف قصیدہ میں موجود تشبیب سے ہوئی ہے۔عربی سے فارسی میں اور فارسی سے اُردو میں داخل ہوئی ہے۔اسی لیے اُردو غزل پر فارسی غزل کا زیادہ اثر ہے۔فارسی شعرا نے غزل کی وسعتوں میں اضافہ کر کے اسے اوجِ کمال تک پہنچایا ہے۔غزل عربی زبان کا لفظ ہے۔بادی النظر میں اس کے معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کے متعلق باتیں کرنے کے ہیں۔دوسرے معنوں میں غزل ہرن کے اس دردناک چیخ کو کہتے ہیں جب اسے شکار کے حصار سے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔اسی طرح جب شاعر درد و الم کی کیفیت میں گرفتار ہوتا ہے تو اس کی زبان سے بے ساختہ اشعار ادا ہوتے ہیں تو اسی کیفیت کو غزل کا نام دیا گیا ہے۔غزل دراصل شاعر کی داخلی کیفیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔اس کے لیے سوزوگداز لازمی ہے۔غزل میں عموماً عورت کے حُسن و جمال اور عشق و محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
زمانے کی گردش کے ساتھ غزل کی وسعتوں میں اضافہ ہونے لگا اور اس میں فسلفہ،مذہبی،سیاسی، معاشی،معاشرتی،اخلاقی،بے ثباتی غرض ہر طرح کے مضامین شامل ہونے لگے۔اس کے ہر شعر میں ایک الگ دنیا سمائی دکھائی دیتی ہے۔غزل کے ہر شعر میں الگ موضوع بیان کرنے کی روایت کو اکثر لوگوں نے ناپسند کیا ہے لیکن یہ غزل کی عیب نہیں بلکہ حُسن ہے۔غزل میں اشعار کی تعداد معین نہیں۔قدیم شعراء کے ہاں طویل غزلیں بھی ملتی ہیں'مگر موجودہ زمانے میں لمبی غزل کو پسند نہیں کیا جاتا ہے۔اسی لیے غزل پانچ سے سترہ اشعار کے مابین لکھی جاتی ہے۔بعض دفعہ اُنیس اشعار تک بھی پہنچ جاتی ہے۔
غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے۔جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔جن شعروں میں یہ التزام نہ ہو وہ مطلع نہیں کہلاتا ہے۔باقی اشعار کے ہر دوسرے مصرعے میں قافیہ اور ردیف موجود ہوتا ہے۔غزل کا دوسرا شعر یعنی جو شعر مطلع کے بعد آتا ہے اسے حسنِ مطلع یا زیبِ مطلع کہتے ہیں۔اسی طرح غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے'جس میں شاعر اپنا تخلص لازماً استعمال کرتا ہے۔اگر شاعر اپنا تخلص استعمال نہ کرے تو وہ مقطع نہیں بلکہ غزل کا آخری شعر ہو گا۔
جو اشعار مطلع اور مقطع کے درمیان ہوتے ہیں انہیں شکمی اشعار کہتے ہیں۔جس غزل میں ردیف نہ ہو صرف قافیے ہوں اسے غیر مردف غزل کہتے ہیں۔غزل کے سب سے بہترین شعر کو بیت الغزل کہتے ہیں۔غزل میں بحر،ردیف و قافیے کی پابندی کو غزل کی زمین کہتے ہیں۔غزل کی ایک قسم مسلسل غزل ہے' جس میں شاعر ایک ہی خیال کو تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔نظم،قصیدہ،مثنوی،رباعی،مرثیہ اور غزل شاعری کی اہم اصناف ہیں۔ہر صنف کا مختلف لب و لہجہ ہے'مگر ان تمام میں غزل کو انفرادی مقام حاصل ہے اور اُردو شاعری میں غزل کی اہمیت برقرار رہی گی۔
مجھے لیلِ زمستاں یاد آئے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
اقبال حسین اقبال کے کالمز
-
ویلنٹائن ڈے سے انکار،حیا ڈے سے پیار
بدھ 16 فروری 2022
-
بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022ء
ہفتہ 5 فروری 2022
-
نسلِ نو کو منشیات سے کیسے دور رکھیں؟
جمعہ 28 جنوری 2022
-
ہاجرہ مسرور حقوق نسواں کی علمبردار
منگل 18 جنوری 2022
-
اُردو شاعری میں غزل کی اہمیت
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
جون ایلیا ایک منفرد شاعر
منگل 14 دسمبر 2021
-
بانو قدسیہ اُردُو ادب کی ماں!
منگل 30 نومبر 2021
-
تعلیمی اداروں میں ثقافتی یلغار
پیر 22 نومبر 2021
اقبال حسین اقبال کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.