بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022ء

ہفتہ 5 فروری 2022

Iqbal Hussain Iqbal

اقبال حسین اقبال

چند دن پہلے مجھے چائنا بیجنگ سے ایک کال موصول ہوئی۔ایک خاتون چائنا ریڈیو اُردُو انٹرنیشنل سروسس سے بات کر رہی تھیں۔انھوں نے کہا کہ 4 فروری سے بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022ء کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔جس میں محمد کریم پاکستان کی نمائندگی کرنے والے واحد ایتھلیٹ ہیں جن کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقے نلتر سے ہے۔چونکہ ہمیں ان سے ایک انٹرویو کرنا ہے۔

مگر ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہیں۔یہاں چائنا ایمبسی کو بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔خاتون نے کہا کہ چونکہ ہم وہاں گلگت میں آپ کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے۔اگر آپ اس سے رابطہ کرانے میں ہماری کچھ مدد کریں تو شکر گزار رہوں گی۔میں نے تھوڑی کوشش کے بعد ان کا نمبر تو حاصل کیا مگر ان کا رابطہ منقطع ہو رہا تھا کیونکہ وہ اسلام آباد میں تھے۔

(جاری ہے)

ان کا رابطہ انتظامیہ کے علاوہ کسی سے نہیں تھا مگر یہ بات ہمارے لیے باعث افتخار ہے کہ جہاں دنیا کے بہت بڑے ایونٹ میں 91 ممالک کے تقریباً 2874 سے زائد ایتھلیٹس حصہ لے رہے ہوں وہاں پاکستان کی نمائندگی کرنے والا اکیلا فرزند جس کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔


بیجنگ سرمائی اولمپکس میں شرکت کے لئے فرزند گلگت سکی چیمپئن محمد کریم پاکستان سے روانہ ہو گئے ہیں۔روانگی سے دو گھنٹے قبل ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا وہ 16 فروری کو ساڑھے دس بجے کھیل میں حصہ لیں گے۔امید ہے کہ وہ کھیلوں میں غیر معمولی کارکردگی دکھا کر ملک کا نام روشن کرہں گے۔یاد رہے محمد کریم اس سے پہلے دو اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔


بیجنگ اولمپکس کی بات کریں تو اس سے قبل چین 2008ء میں اولمپک کھیلوں کا کام یاب انعقاد کرا چکا ہے۔وبا کے دوران سرمائی اولمپکس کی میزبانی چینی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے مگر چین ایک مرتبہ پھر منظم،محفوظ اور شاندار اولمپکس کے انعقاد کے لیے پرعزم ہے اور وبا سے بچنے کے لیے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔موجودہ سرمائی اولمپکس کے ساتھ بیجنگ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہو گا کہ یہ سرمائی اور گرمائی اولمپکس کی میزبانی کرنے والا دنیا کا پہلا شہر بن جائے گا۔

بیجنگ سرمائی کھیلوں کا موٹو ہے "مشرکہ مستقبل کے لیے ایک ساتھ۔"مشترکہ مستقبل کا مطلب بہتر مستقبل کے لیے امید اور اعتماد کا اظہار کرنا ہے اور ایک ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کس طرح مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے مضبوط رہتا ہے؟
چین اولمپکس کی انعقاد کے لیے فائیو جی ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال کر رہا ہے اور یہاں فراہم کی جانے والی سہولیات حیرت انگیز ہیں۔

یہاں ستر فیصد آؤٹ ڈور کھیلیں ہوتی ہیں۔جس میں برف تک مصنوعی بنایا جا رہا ہے۔تماش بینوں کی نشستوں میں ہیٹگ سسٹم  کی ہے تاکہ سردی ان کی مزے میں خلل پیدا نہ کر سکے۔کھیل کے میدان عارضی بنائیں جا رہے ہیں تاکہ انھیں بعد میں آسانی سے اٹھایا جا سکے۔اولمپکس میں کھانا پیش کرنے کے لیے روبوٹس کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔یہ روبوٹس کھانا،مشروبات،برگر اور آئس کریم سمیت کئی اشیاء بنانے اور مہمانوں کو پیش کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔

دراصل چین دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں اس نے کس قدر ترقی کی ہے؟ٹیکنالوجی کی وہ رنگ دکھانا چاہتا ہے جو دنیا نے اس سے قبل نہیں دیکھی ہو۔
یہ ایک میگا ایونٹ ہوتا ہے۔جس میں دنیا بھر کے ایتھلیٹس حصہ لیتے ہیں۔اس کی افتتاحی تقریب میں عالمی رہمنا اور ممتاز شخصیات شرکت کریں گی۔دنیا بھر کے مقتدر شخصیات میں روس کے صدر ولادیمیر پیوتن،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئتریس اور دیگر کئی عالمی رہنما شامل ہیں۔

مگر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو بنیاد بنا کر اس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنے سفارت کاروں کو نہیں بھیجیں گے صرف کھلاڑیوں کو بھیجیں گے۔امریکا چین کی سرکوبی کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے جو کہ محض سیاسی پروپیگنڈا ہے'مگر اس سے ان کھیلوں پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ چین کھیلوں کو ہر طرح کی سیاست سے پاک کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اگر تمام ممالک کھیلوں میں سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے سے تعاون کریں گے تو اختلافات اور رنجشیں ختم ہو سکتی ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہماری شمولیت چین کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے۔دوسری جانب چین کے صدر شی جن پھنگ نے وزیر اعظم عمران خان کو دورہ چین کی خصوصی دعوت دی ہے جسے انھوں نے خوش دلی سے قبول کیا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین کا کہنا ہے کہ چین پاکستان کے فیصلے کو سراہتا ہے اور اس کا خیر مقدم کرتا ہے۔وزیر اعظم عمران خان چین کا تین روزہ سرکاری دورے پر بیجنگ پہنچ گئے ہیں۔وزیراعظم کے ہمراہ اعلیٰ سرکاری افسران بھی ہیں۔اس دوران چینی قیادت سے علاقائی و عالمی امور بالخصوص سی پیک کے پیش رفت پر تبادلہ خیال کریں گے اور متعدد معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔یہ کھیلیں جہاں عالمی یکجہتی،افہام و تفہیم اور قیامِ امن کے لیے ضروری ہیں وہیں پاک چین لازوال دوستی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :