
ہاجرہ مسرور حقوق نسواں کی علمبردار
منگل 18 جنوری 2022

اقبال حسین اقبال
(جاری ہے)
یہ کہانی مجھے اتنی پسند تھی کہ خود پڑھنے کے شوق میں الف،ب پ کی مصیبت برداشت کر لی۔
سکول کے زمانے میں مجھے ڈرامے میں ایک پارٹ ادا کرنا تھا۔جب ایکٹنگ کرنے کا وقت آیا تو میں تماشائیوں کے سامنے گم سم کھڑی تھی۔میں کانپتی رہی اور بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ہاجرہ مسرور کی یہ باتیں ابھی بھی ریکارڈ میں موجود ہیں۔ہاجرہ مسرور 17 جنوری 1929ء کو لکھنو میں پیدا ہوئیں۔ان کے والد ڈاکٹر تہور علی خان برٹش آرمی میں ڈاکٹر تھے اور علم و ادب سے لگاؤ رکھتے تھے۔ان کا تبادلہ مختلف شہروں میں ہوتا رہتا تھا۔اس لیے ہاجرہ کی تعلیم مختلف قصبوں اور شہروں میں ہوئی۔آٹھ برس کی عمر میں والد کا انتقال ہوا تو عزیزوں نے منھ پھیر لی۔مگر ان کی والدہ ایک باہمت اور خوددار خاتون تھیں۔انھوں نے بڑی صبر آزما زندگی گزاری۔وہ اپنے بچوں کو لے کر میکے چلی آئی۔انھوں نے تمام بچوں کو رکھ رکھاؤ سے پالا۔ماں کی اچھی تربیت کا یہ نتیجہ نکلا کہ انھوں نے اپنے اپنے شعبوں میں خوب ترقی کی۔
گھر میں ادبی ماحول میسر تھا۔ہاجرہ کی بڑی بہن خدیجہ مستور اعلیٰ پائے کی ناول نگار تھیں اور ہاجرہ مسرور میں فطری صلاحیت بھی موجود تھی۔ہاجرہ نے لکھنے کا آغاز بچپن ہی سے کیا تھا۔انھوں نے محض تیرہ برس کی عمر میں "لاوارث لاش" لکھی۔یہ ان کی پہلی ادبی تخلیق تھی جو بچوں کے ایک رسالے میں شائع ہوئی۔ادبی حلقوں میں ان کے افسانوں کو پسند کیا جاتا تھا۔کم عمری میں ہی اتنی مقبولیت حاصل کی کہ ایک پبلشر نے ماہوار پندرہ روپے کے عوض چار افسانے لکھنے کی فرمائش کی۔قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور تشریف لے آئیں اور لاہور کو اپنا مسکن بنا لیا۔وہ احمد ندیم قاسمی کی منھ بولی بہن تھیں۔وہ مل کر رسالہ "نقوش" کی ادارت کرتے تھے۔وہ ترقی پسند مصنفین کی اجلاس میں باقاعدہ شریک ہوتی تھیں۔
چونکہ ہاجرہ نے اپنی زندگی دیہاتوں،قصبوں اور مختلف شہروں میں گزاری۔انھیں سماجی برائیوں کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔ہاجرہ مسرور کو زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس حاصل تھی۔انھوں نے ہر صنفِ ادب میں طبع آزمائی۔یہ وہ افسانہ نویس تھی جنھوں نے سماج میں خواتین پر ہونے والی ناانصافیوں،ظلم و زیادیتوں،ناہمواریوں،طبقاتی کشمکشوں اور چھوٹی بڑی الجھنوں کو اپنے افسانوں میں بیان کیا۔وہ عمر بھر حقوق نسواں کی علمبردار رہی۔ایک شعلہ جوالہ جس نے ظلم و جبر کے ایوانوں کو لزہ بر اندام کر دیا۔
ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں چاند کے دوسری طرف،تیسری منزل،اندھیرے اجالے،چوری چھپے،ہائے اللہ،چرکے قابل ذکر ہیں۔ان تمام افسانوں کا ایک مجموعہ "سب افسانے میرے" کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔انھوں نے ناول نگاری میں بھی قلم فرسائی کی مگر اس میں خاطر خواہ کام یابی نہ مل سکی۔ہاجرہ نے کہانیوں،افسانوں،ڈراموں کے علاوہ فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے۔اس معروف ادیبہ کو حکومتِ پاکستان نے ادب کے شعبے میں بے پناہ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔یہ عظیم ادیبہ 15 ستمبر 2012ء کو ادبی محفل سوگوار کر کے پاکستان کے شہر کراچی میں انتقال کر گئیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
اقبال حسین اقبال کے کالمز
-
ویلنٹائن ڈے سے انکار،حیا ڈے سے پیار
بدھ 16 فروری 2022
-
بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022ء
ہفتہ 5 فروری 2022
-
نسلِ نو کو منشیات سے کیسے دور رکھیں؟
جمعہ 28 جنوری 2022
-
ہاجرہ مسرور حقوق نسواں کی علمبردار
منگل 18 جنوری 2022
-
اُردو شاعری میں غزل کی اہمیت
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
جون ایلیا ایک منفرد شاعر
منگل 14 دسمبر 2021
-
بانو قدسیہ اُردُو ادب کی ماں!
منگل 30 نومبر 2021
-
تعلیمی اداروں میں ثقافتی یلغار
پیر 22 نومبر 2021
اقبال حسین اقبال کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.