بانو قدسیہ اُردُو ادب کی ماں!

منگل 30 نومبر 2021

Iqbal Hussain Iqbal

اقبال حسین اقبال

یہ 28 نومبر 1928ء کی بات ہے۔بدھ کا دن تھا۔موسم بڑا خوش گوار تھا۔ہلکی ہلکی بارش کی رِم جھم کے ساتھ تیز ہوا کے جھونکے چل رہے تھے۔دریں اثنا فیروز پور ہندوستان کے کسی ہسپتال میں ایک حاملہ خاتون کو زچگی کے سلسلے میں داخل کیا جاتا ہے۔تھوڑی دیر میں مولود بچی کی چیخ و پکار سے ہسپتال کے درودیوار گونجنے لگتے ہیں۔ہسپتال کے باہر ایک جوتشی رہتا تھا۔

جس نے کہا ابھی اسی وقت ہسپتال میں ایک بھگت پیدا ہوا ہے۔
جب یہ بچی تین سال کی عمر کو پہنچی تو باپ کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے۔یوں اس کی ذمہ داری ماں کے سپرد ہوتی ہے۔بچی ذہین و فطین ہونے کے ساتھ لائق و فائق تھیں۔ابتدائی تعلیم اپنے قصبے میں پائی۔انہیں بچپن ہی سے لکھنے کا بڑا شوق تھا۔جو بھی نیا موضوع ملتا فوراً قرطاس پر اتارنے کی کوشش کرتی۔

(جاری ہے)

پانچویں جماعت میں ڈرامہ نویسی کے مقابلے میں اسکول میں اول انعام کی مستحق قرار پائی۔
جی ہاں!آپ نے درست پہچان لیا۔یہ ہیں اردو اور پنجابی زبان کی نامور ادیبہ،ناول نگار،افسانہ نگار،کہانی کار اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ جنھیں ادبی حلقوں میں اُردو ادب کی ماں اور بانو آپا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس دنیائے فانی میں نہ جانے کتنے لوگ روزانہ پیدا ہوتے اور مرتے ہیں مگر کچھ لوگوں کو دنیا ان کے عظیم کارناموں کے سبب ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔

تاریخ کے اوراق میں ان کا نام ہمیشہ کے لیے ثبت ہوتا ہے۔انہی میں ایک اہم نام بانو قدسیہ کا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور پاکستان تشریف لائیں۔یہاں بھی پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ایم اے اُردو کے دوران اپنے ہم جماعت اشفاق احمد کی اصرار پر ان کا پہلا افسانہ "داماندگی شوق" ایک ادبی جریدہ "ادبِ لطیف" میں شائع ہوا۔

بعد ازاں آپ کی شادی معروف ادیب اشفاق احمد سے ہی ہوئی۔انھوں نے ہر سطح پر آپ کا بھر پور ساتھ دیا اور آپ کی شخصیت سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔بانو فرماتی ہیں کہ اشفاق کو ایک اچھے شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی ہوں۔وہ میرے بڑے معاون و مددگار رہے۔
بانو قدسیہ نے اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں قلم فرسائی کی۔ریڈیو،ٹیلی وژن اور اسٹیج کے لیے ناقابلِ فراموش ڈرامے لکھیں۔

آپ کی تصانیف کی تعداد پچیس سے زیادہ ہے جن میں معاشرتی مسائل اور الجھنوں کی مکمل عکاسی نظر آتی ہے۔انھوں نے 1981ء میں شہرہ آفاق ناول "راجہ گدھ" تحریر کیا۔جسے دُنیا کے مقبول ترین ناولوں میں شامل کیا جاتا ہے اور یہی آپ کی شہرت کا سبب بنا۔جس میں حرام اور حلال کے فلسفے کو بیان کیا گیا ہے اور انسان کو کرگس یعنی گدھ سے تشبیہ دیا گیا ہے۔بعض اوقات انسان اپنے سے کمزور انسانوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔

اس لحاظ سے انسان بہت بڑا یعنی راجہ گدھ ہے۔
آپ کا شمار اردو ادب کی قدآور شخصیات میں ہوتا ہے۔آپ نے اپنی قلم کے ذریعے اردو زبان و ادب کے لیے بہت خدمات انجام دئیے۔آپ کے اکثر اقوال زبان زدِ عام ہیں اور کُلیہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔جیسے آپ فرماتی ہیں کہ اپنے آپ کو ماضی کا قیدی نہ بناؤ وہ زندگی کا سبق تھا کوئی عمر بھر کی سزا نہیں۔محبت کا سبق بارش سے سیکھو جو پھولوں کے ساتھ ساتھ کانٹوں پر بھی برستی ہے۔زندگی کے آدھے غم انسان دوسروں سے غلط توقعات کر کے خریدتا ہے۔الغرض اُردو ادب کی یہ ملکہ مختصر علالت کے بعد 4 فروری 2017ء کو رحلت کر گئیں۔یوں اُردو ادب کا ایک باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا مگر آپ کا نام ادبِ عالیہ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :