
بانو قدسیہ اُردُو ادب کی ماں!
منگل 30 نومبر 2021

اقبال حسین اقبال
جب یہ بچی تین سال کی عمر کو پہنچی تو باپ کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے۔یوں اس کی ذمہ داری ماں کے سپرد ہوتی ہے۔بچی ذہین و فطین ہونے کے ساتھ لائق و فائق تھیں۔ابتدائی تعلیم اپنے قصبے میں پائی۔انہیں بچپن ہی سے لکھنے کا بڑا شوق تھا۔جو بھی نیا موضوع ملتا فوراً قرطاس پر اتارنے کی کوشش کرتی۔
(جاری ہے)
جی ہاں!آپ نے درست پہچان لیا۔یہ ہیں اردو اور پنجابی زبان کی نامور ادیبہ،ناول نگار،افسانہ نگار،کہانی کار اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ جنھیں ادبی حلقوں میں اُردو ادب کی ماں اور بانو آپا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس دنیائے فانی میں نہ جانے کتنے لوگ روزانہ پیدا ہوتے اور مرتے ہیں مگر کچھ لوگوں کو دنیا ان کے عظیم کارناموں کے سبب ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔تاریخ کے اوراق میں ان کا نام ہمیشہ کے لیے ثبت ہوتا ہے۔انہی میں ایک اہم نام بانو قدسیہ کا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور پاکستان تشریف لائیں۔یہاں بھی پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ایم اے اُردو کے دوران اپنے ہم جماعت اشفاق احمد کی اصرار پر ان کا پہلا افسانہ "داماندگی شوق" ایک ادبی جریدہ "ادبِ لطیف" میں شائع ہوا۔بعد ازاں آپ کی شادی معروف ادیب اشفاق احمد سے ہی ہوئی۔انھوں نے ہر سطح پر آپ کا بھر پور ساتھ دیا اور آپ کی شخصیت سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔بانو فرماتی ہیں کہ اشفاق کو ایک اچھے شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی ہوں۔وہ میرے بڑے معاون و مددگار رہے۔
بانو قدسیہ نے اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں قلم فرسائی کی۔ریڈیو،ٹیلی وژن اور اسٹیج کے لیے ناقابلِ فراموش ڈرامے لکھیں۔آپ کی تصانیف کی تعداد پچیس سے زیادہ ہے جن میں معاشرتی مسائل اور الجھنوں کی مکمل عکاسی نظر آتی ہے۔انھوں نے 1981ء میں شہرہ آفاق ناول "راجہ گدھ" تحریر کیا۔جسے دُنیا کے مقبول ترین ناولوں میں شامل کیا جاتا ہے اور یہی آپ کی شہرت کا سبب بنا۔جس میں حرام اور حلال کے فلسفے کو بیان کیا گیا ہے اور انسان کو کرگس یعنی گدھ سے تشبیہ دیا گیا ہے۔بعض اوقات انسان اپنے سے کمزور انسانوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔اس لحاظ سے انسان بہت بڑا یعنی راجہ گدھ ہے۔
آپ کا شمار اردو ادب کی قدآور شخصیات میں ہوتا ہے۔آپ نے اپنی قلم کے ذریعے اردو زبان و ادب کے لیے بہت خدمات انجام دئیے۔آپ کے اکثر اقوال زبان زدِ عام ہیں اور کُلیہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔جیسے آپ فرماتی ہیں کہ اپنے آپ کو ماضی کا قیدی نہ بناؤ وہ زندگی کا سبق تھا کوئی عمر بھر کی سزا نہیں۔محبت کا سبق بارش سے سیکھو جو پھولوں کے ساتھ ساتھ کانٹوں پر بھی برستی ہے۔زندگی کے آدھے غم انسان دوسروں سے غلط توقعات کر کے خریدتا ہے۔الغرض اُردو ادب کی یہ ملکہ مختصر علالت کے بعد 4 فروری 2017ء کو رحلت کر گئیں۔یوں اُردو ادب کا ایک باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا مگر آپ کا نام ادبِ عالیہ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
اقبال حسین اقبال کے کالمز
-
ویلنٹائن ڈے سے انکار،حیا ڈے سے پیار
بدھ 16 فروری 2022
-
بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022ء
ہفتہ 5 فروری 2022
-
نسلِ نو کو منشیات سے کیسے دور رکھیں؟
جمعہ 28 جنوری 2022
-
ہاجرہ مسرور حقوق نسواں کی علمبردار
منگل 18 جنوری 2022
-
اُردو شاعری میں غزل کی اہمیت
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
جون ایلیا ایک منفرد شاعر
منگل 14 دسمبر 2021
-
بانو قدسیہ اُردُو ادب کی ماں!
منگل 30 نومبر 2021
-
تعلیمی اداروں میں ثقافتی یلغار
پیر 22 نومبر 2021
اقبال حسین اقبال کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.