کشمیر کانفرنس بزنس

اتوار 18 جون 2017

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

سوچنے کی بات ہے کشمیر کے نام پر کانفرنسوں میں پاکستانی سیاستدانوں ، چیئرمین کشمیر کمیٹی اور دیگر نے حصہ کیوں نہیں لیا ؟ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ نوجوان طبقے کو ان کانفرنسوں میں بولنے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا اور کانفرنسیں آزادکشمیر میں کیوں نہیں ہوتیں ۔ شاہد اس کی وجہ آرام دہ ماحول، اچھا کھانا اور دیگر سہولیات ہوں جو آزادکشمیر میں میسر نہیں ۔


ایک کانفرنس جس میں چیئرمین پالیسی اینڈ ریسرچ فورم جناب ڈاکٹر محمدخان کا نام سامنے آیا ۔ لگتا ہے چیئرمین صاحب ماہر کشمیر یات ہیں اورکسی بڑے پروجیکٹ پر کام کرنیکا ارادہ رکھتے ہیں ۔ وہ کام کیا ہو سکتا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے۔ پالیسی اینڈ ریسرچ فورم کیا ہے اور اس کے ممبران کی تعداد اورتعلیمی قابلیت کا بھی کچھ پتہ نہیں ۔

(جاری ہے)

چیئرمین صاحب کو چائیے کہ وہ آزادکشمیر کے کالجوں اور ہائی سکولوں میں جا کراس کی وضاحت کریں اور اپنے ممبران کی تعداد، قابلیت اور تجربے سے عوام کو آگاہ کریں ۔

لگتا تو یوں ہے کہ یہ فورم بھی کشمیر لبریشن سیل کی طرح کھانے پینے اور سیر سپاٹے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود حکومت پاکستان کی ہی کوئی کشمیر پالیسی نہیں ۔ مولانا مفتی محمود کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ 1947ء کی تحریک آزادی کشمیرتخریب کاری تھی اور پاکستان کا وجو د ایک گناہ ہے ۔ حال ہی میں اکابرین دیوبند نے بیان جاری کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل بھارتی آئین کے دائرے میں ڈھونڈا جائے ۔

جناب آصف علی زرداری اورمحترم نواز شریف کی کشمیر سے محبت کا یہ حال ہے کہ پچھلے دس سالوں سے جناب مفتی محمود کے فرزند ارجمند کو کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی سونپ رکھی ہے۔ کیا یہ کشمیر دشمنی نہیں۔۔؟
کیا ڈاکٹر محمد خان صاحب کی کوئی الگ پالیسی ہوگی اور وہ کس موضوع پر ریسرچ کرینگے۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو دنیا میں سب سے قدیم اور مستند تاریخ کشمیر کی ہے جوساڑھے پانچ ہزار پرمحیط ہے۔

پنڈت کلہن اور جون راج کی راج ترنگینوں اور موجود ہ دور میں جسٹس یوسف صراف اور محقق کشمیر جناب جی ایم میر کے تحقیقاتی کام کے بعد اب کسی من گھڑت قصے کی گنجائش ہی نہیں ۔ پونچھ سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کا زور اس بات پر ہے کہ آزادکشمیر کا وجود انقلاب پونچھ کا نتیجہ ہے جو سراسر غلط اور منفی پراپیگنڈہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو چترال ، گلگت و بلتستان اور یاغستان کے علاوہ میرپور اور کوٹلی کے مجاہدین کا علم ہی نہیں یا پھر تنگ نظری کی بیماری لاحق ہے۔

کرنل حسن مرزا ، میجر بابر ، دیر کے میجر تیمور ، سپہ سالار حضرت عالی ، سوات کے بخت شاہ ، میرپور کے راجہ اکبر خان، میجر محمد افضل ، بریگیڈئر راجہ حبیب الرحمان،کرنل اکمل،کرنل کیانی اور لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہید کا ذکر نہ کرنیوالوں کے تعصب و بغض پر افسوس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔
آج سب سے زیادہ آزادکشمیر میں کرپشن ، سیاسی آلودگی ، ذہنی پستی ، برادری ازم اور انتظامی بد حالی پر کنٹرول اور کرپٹ عناصر کو جیلوں میں ڈالنے کی ضرورت ہے ۔

آج کشمیری قوم برادری ازم کی لعنت کی وجہ سے ٹکڑوں میں تقسیم ہے جنھیں متحد کرنے کے لیے کسی ڈاکٹر کی نہیں بلکہ معلم اور ایک مدبر کی ضرورت ہے۔
جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے اب اسکا فیصلہ خدائی قوتیں کرینگی ۔ کوئی شاہ میر ، عبدالرحمن بلبل شاہ ، کوٹا رانی اور شاہ ہمدان آکر مودی اور مجاوروں کا صفایا کریگا ۔ جب قومیں اخلاقی لحاظ سے پست اور قائدین کرپٹ اورناہل ہوں تو انا اللہ علی کل شیٍ قدیر اور انا اللہ علی کل شیٍ محیط کا مشاہد ہ کرنیوالے محقق حرکت پذیر ہوتے ہیں ۔

جب قومیں بے ہمت اور بے حرکت ہو جائیں تو مہر گل ، ذوالچو خان ، اچل ، شیخ عبداللہ ، مودی اور بلیک لیبل کرپٹ اور بے حس حکمران اُن کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔
وزیراعظم آزادکشمیر کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ ایک قدیم کشمیری قبیلے کے حکمران خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ناگ قبیلہ کشمیر کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا قدیم ترین قبیلہ ہے۔ ناگ ، کھش ، اور کھگہ ایک ہی ذات اور قبیلے کے نام ہیں جنکا ذکر راج ترنگنی میں بھی موجود ہے۔

وزیراعظم کو اپنے خاندانی اور قبائلی اعزار کا دفاع کرنے اور ایسے کام کرنے کی ضرورت ہے جو تاریخ میں رقم کیے جانے کے قابل ہوں۔ آزادکشمیر سے پٹواری راج اور تھانیداری جبر کا خاتمہ ضروری ہے جس کے لیے کسی ڈاکٹر کی نہیں بلکہ جرات مندمنتظم کی ضرورت ہے۔ کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ عناصر پر گرفت موجود ہ حکومت کی پہلی ترجیح ہونا ضروری ہے۔ اگر کرپٹ سیاسی ٹولے نے لوٹ مار اور برادری ازم کی آڑ میں حرام مال کو ہضم کرنیکا سلسلہ جاری رکھا تو آزادکشمیر سے بھی نام نہاد آزادی کا سورج جلد غروب ہو جائیگا ۔

انتظامیہ کی چیرہ دستوں کے سامنے عدلیہ بھی بے بس ہے جبکہ مقننہ مافیا کا روپ دھار چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور مودی کی پالیساں ظلم کی آندھی بن کر عوام کو بے گھر اور بے سہارا کر رہی ہیں تو آزادکشمیر کی انتظامیہ مہرگل بن کر عوام کو بے گھر اور بے سہارا کر رہی ہے۔ آزادکشمیر کی انتظامیہ کا واحد مقصد عوام کو باہم لڑا کر اُن کی جیبیں خالی کر ناہے۔

ہر پٹواری اور تھانیدار کے پیچھے ایک ایم ایل اے اور وزیر کھڑا ہے۔ عدالتیں ! ان پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتی ہیں اور عام آدمی بے بس و مجبور ہے۔ آزادکشمیر کا سارا بارڈر میدان جنگ بنا ہوا ہے مگر حکومت کی کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی ۔
وزیر اعظم آزادکشمیر کو چائیے کہ وہ شہری دفاع کے محکمہ کو متحرک کریں اور بارڈر ایریا کے مکینوں کو بتایا جائے کہ وہ اپنے گھروں کے قریب محفوظ جگہوں پر رہائشی بنکر بنائیں ۔

اپنے گھروں کا رخ بارڈر کی جانب نہ رکھیں اور گھروں کا رنگ علاقے کی رنگت کے مطابق رکھیں تاکہ نظری حفاظت ممکن ہو سکے۔
ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو حکم جاری کیا جائے کہ وہ ہفتہ میں دو دن بارڈر ایریا کادورہ کرے اور بارڈکے قریب ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں جان بچانے والی دوائیں موجود ہوں اور عملہ حاضر رہے ۔ محکمہ ہیلتھ کو حکم جاری کیا جائے کہ بارڈر ایریا کے لوگوں کے علاوہ سکولوں اور کالجوں کے طلباء و طالبات کو مرہم پٹی اور خون بند کرنے کے طریقے بتائیں ۔

ہڈی ٹوٹنے کے صورت میں مریض کے متاثرہ حصے کی پیکنگ اور اُسے ہسپتال تک بھجوانے اور لوکل میٹریل سے سٹریچر بنانے کا طریقہ بتائیں ۔ لوگوں کو یہ بھی بتایا جائے کہ وہ اپنے گھروں میں کون کون سی دوائیں ایمرجنسی کے لیے رکھیں اور طبی عملے یا رضاکاروں کی آمد سے پہلے مریض کو کسطرح ٹریٹ کریں۔
ریاست کی تمام مساجد کے خطیبوں کو بتایا جائے کہ وہ عوام کو جہادآزادی کے اسلامی ، انسانی اور روحانی پہلوؤں سے روشناس کروائیں اور ہر جمعہ کی نماز کے بعد مقبوضہ کشمیر کے عوام سے یکجہتی کے لیے ایک جلوس کی شکل میں نکلیں ۔

جس سے اندرون ریاست اور بیرون ملک اچھا پیغام جائیگا۔
وزیراعظم اور صدر ریاست جہاں بھی ہوں وہ اس تقریب میں خود شریک ہوں اور کابینہ کو اس کا پابند کریں ۔ ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر اور ایس پی حضرات اور تحصیل سطح کے افسر بھی ان جلوسوں میں شرکت کریں تاکہ دلوں سے غبار نکل جائے ۔
سرکاری وسائل پر کھلے لبریشن سیل کی بظاہر ہر کوئی افادیت نہیں ۔

اسمبلی ممبران اور وزیروں کو بھی سکولوں اور کالجوں کے طلباء و طالبات کو آزادی کشمیر کی تاریخ اور اہمیت پر بات کرنے کا حصہ ہونا چاہیے ۔ بڑی بڑی گاڑیوں کے لمبے جلوس غلام قوم کے قائدین کو زیب نہیں دیتے اور نہ ہی اسلام آباد میں کانفرنسوں کے انعقاد سے آزادی کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد بے حس لوگوں کا شہر ہے جہاں بیٹھ کر ہر سرکاری اہلکار مال کمانے اور ملک سے باہر لیجانے کی ترکیب سوچتا ہے۔

جو لوگ اپنا ملک تباہ کرنے اور قومی خزانہ لوٹنے کی سازشوں میں شریک ہوں وہ کشمیر یوں کو کیا دے سکتے ہیں؟وہ کشمیری جو اسلام آباد میں محل نما کوٹھیوں کے مقیم ہیں اور آزادی بزنس کلب کے ممبر ہیں اُن کے دوست اور ہم خیال یہی کام دہلی میں کرتے ہیں۔
وزیراعظم آزادکشمیر کو پتہ ہونا چاہیے کہ حکمران شراب نوشی ، بدکاری کرپشن اور عوام کو برادریوں میں تقسیم کرنے سے نہیں پہچانے جاتے ۔

چک خاندان کی ذلت و ر سوائی اور بربادی ان ہی عوامل کی وجہ سے ہوئی ۔ حکمرانوں کے وطیرے وہ نہیں ہوتے جو مجید حکومت اور ٹن قائدین کے نامہ اعمال میں لکھے ہیں ۔ نیو میرپو رسٹی اور جناح ٹاؤن جیسے منصوبوں میں ہونے والی کرپشن پر اگر موجود ہ حکومت نے گرفت نہ کی تو آئندہ دور میں کرپٹ سیاسی ٹولہ آزاد کشمیر سے شرافت ، انسانیت اور نام نہاد آزادی کا وجو د ہی مٹا دے گا ۔

انتظامیہ کی چیرہ دستیوں سے عوام اسقدر تنگ ہیں کہ سول نافرمانی یا قبائلی جنگ جیسا حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔
مظفرآباد ریاست کا دارالحکومت ہے مگر صفائی کے لحاظ سے ایشیا کا گندہ ترین شہر ہے۔ وزیراعظم سے درخواست ہے کہ مظفرآباد قلعے کی تعمیر اور بحالی کے کام کے لیے ورلڈ ہیری ٹیج سے مدد لیں ۔ یہ قلعہ چک خاندان نے تعمیر کیا تھا جو کشمیر کی عظمت رفتہ کی نشانی ہے۔

قلعے سے لیکر مدینہ مارکیٹ تک ساری پلیٹ سے آبادی کو بشمول خواجہ محلہ کے کسی دوسری جگہ شفٹ کیا جائے اور والئی مظفرآباد راجہ مظفرخان کا مقبرہ شایان شان طریقے سے تعمیر کیا جائے۔ میر واعظ اور جناب کے ایچ خورشید کی قبریں بھی اسی بلندی پر شفٹ کی جائیں چونکہ جس چوک میں یہ دونوں ہیرو آسودہ خاک ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے موزوں جگہ نہیں۔
مجید حکومت نے جس قدر جنگلات اور آثار قدیمہ کی تباہی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

بڑوجن کا قلعہ چوہدری مجید کے رشتہ داروں نے مسمار کیا اور پتھر تک بیچ ڈالے ۔ جیالوں کو جنگل کاٹ کر زمینیں الاٹ کی گئیں اور ریاست کے قدرتی حسن کو پامال کیا گیا۔ ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت بغیر کسی خوف کے کرپٹ سیاستدانوں اور اُن کے کارندوں کا احتساب کر ے اور قوم کو صاف ستھرا سیاسی اور انتظامی ماحول مہیا کر ے ۔ مگر آذاد کشمیر میں انتظامیہ میں کیسے بھرتیاں کی جا رہی ہیں ان پر تفصیل سے اپنے اگلے کالم میں بات کروں گا اور موجودہ حکومت کی گزشتہ دور کی کرپشن زدہ نظام کو گلے لگانے کا حالات سے لیکر عدلیہ کے مشکوک کردار کو بھی عوام کی نظر کروں گا۔

انشااللہ
یاد رکھیں! آزادی بڑے بڑے ہوٹلوں اور آرام دہ ماحول میں قیمتی سوٹ پہن کر تقریر یں کرنے ، کانفرنسوں اور سیمناروں میں جلوہ افروز ہونے اور میڈیا پروجیکشن سے نہیں ملتی ۔ آزادی کردار، اخلاق ، جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرنیوالے خاک نشینوں اور خون کا عطیہ دینے والوں کے نصیب میں ہوتی ہے۔ پنڈت کلہن نے صدیوں پہلے لکھا تھا کہ کشمیر فتح کرنے کے لیے ہتھیاروں کی نہیں روحانی قوت کی ضرورت ہے۔ کرپٹ اور بد کردار لوگ جب حاکم بن جائیں تو آزادی چھین جاتی ہے۔
ہماری سینہ فگاری کوئی تو دیکھے گا
نہ دیکھے اب تو نہ دیکھے کبھی تو دیکھے گا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :