
اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں
بدھ 16 جولائی 2014

جاہد احمد
عمران خان اگر سابق چیف جسٹس پر انتخابات میں دھاندالی کرانے اور ذاتی فوائد اٹھانے کے الزامات عائد کر سکتے ہیں تو ارسلان افتخار عمران خان پر وار کرنے کا موقع کیوں جانے دے گا؟ بھائی صاحب یہ تو وہ ملک ہے جہاں جرنیل سیاستدانوں کی خرید و فروخت کرتے رہے، ایک خاص سیاسی جماعت کو اقتدار سے دور رکھنے کی خاطر مخالف سیاسی اتحاد بنانے میں ملوث رہے، سڑیٹجک ڈیپتھ کے نام پر ناسور باقائدہ پالا گیا، مذہب، اسلام اور پاکستان کے نعرے لگا کر اقتدار کے مزے لوٹے جاتے رہے ۔
(جاری ہے)
انقلابیوں اور سونامیوں کو اسلام آباد تہہ و بالا کرنے سے پہلے ملکی حالات پر نظر ِ ثانی ضرور کرنی چاہیے۔ شاید وہ دیکھنے کے قابل ہوں کہ پاکستان ایک جانب شمالی وزیرستان میں اپنی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے تو ساتھ ہی اس جنگ سے متاثرہ لاکھوں افراد کی باعزت بحالی کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ملکی معیشت کی صورتحال بھی ان کے سامنے ہے تو ایسے موقع محل پر انتخابی عمل میں اصلاح پرسیر حاصل بحث کرنے کی حقیقی جگہ پارلیمان ہے نہ کہ کوئی چوراہا۔ اسی مقصد سے 32 رکنی کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے اور ذمہ دار جمہوریت پسند سیاسی جماعتیں اس عمل پر مطمئین و راضی بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اگر طریقِ کار جمہوری نظام کے تحت وضع کیا جا رہا ہے تو پھر ایسے کسی مسئلے پر انارکی و بد امنی کی فضاپیدا کرنے کی کوئی وجہ سجھائی نہیں دیتی!
14 اگست کو لانگ مارچ کی کال دینے والوں کو ماؤ زِ تنگ کی اکتوبر1934 میں جیانگ زی صوبے سے شروع کی گئی قریباٌ ایک لاکھ افراد کی لانگ مارچ بہت لبھاتی ہے۔ یہ لانگ مارچ ایک سال چل کراکتوبر 1935 میں شانزی صوبے میں اختتام پذیر ہوئی۔ایک لاکھ افراد میں سے محض سات سے آٹھ ہزارافراد زندہ بچ سکے۔ یہ لانگ مارچ چین کی 1927 سے 1949 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کا ایک مختصر سا حصہ ہے مزید براں یہ اس عرصہ کے دوران چلنے والی واحد لانگ مارچ نہیں تھی۔ یہ لانگ مارچ کْومِن ٹانگ کی فوج کے چنگل سے نکل جانے کا چین کی کمیونسٹ جماعت کی ریڈ آرمی کا ایک عسکری فیصلہ تھا۔درحقیقت فوجی زباں میں اس وقت کمیونسٹ جماعت کی جانب سے پسپائی اختیار کی گئی تھی۔ خانہ جنگی چین کی کمیونسٹ جماعت اور چین کی نیشنلسٹ جماعت کْومِن ٹانگ کے درمیان قربیاٌ بائیس برس جاری رہی۔ ماؤ زِ تنگ کی لانگ مارچ کے بعد 1937 میں جاپان نے چین پر قابض ہونے کی نیت سے چڑھائی کر دی۔اس نازک موقع پر بدترین خانہ جنگی کے ماحول اور دشمنی کے باوجوددونوں فریقین نے 1923 کے بعد دوسری مرتبہ اتحاد بنانے پر اتفاق کیا تاکہ اپنی سر زمیں کو غیر ملکی حملہ آوروں سے محفوظ بنایا جا سکے۔
تمام با شعور جماعتوں کو احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان کے حالات مزید کسی انتشار کے برپا ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ انقلابوں اور لانگ مارچوں کو گلوریفائی کرنے کا وقت ہر گز نہیں ہے۔ سیاست کرنے کے بہت سے مواقع مستقبل میں میسر آئیں گے مگر شرط پاکستان کی بقاء سے مشروط ہے۔تیل ہی نہیں بچے گا تو رادھا کہاں سے ناچے گی؟ انقلابیوں اور سونامیوں کا طرزِ سیاست پاکستان کے نوزائیدہ جمہوری نظام کو جہاں ادارے ابھی اپنی اپنی جگہ کام کرنا سیکھ رہے ہیں تتر بتر کر کے ملک کو خانہ جنگی یا کسی نئی ڈکٹیٹرشپ کی جانب تو ضرور دھکیل سکتا ہے پر اس سے زیادہ کسی نتیجہ کی امید رکھنا حماقت ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف اسی انتخابی عمل اور عوام کے ووٹ سے پارلیمان تک پہنچی ہے اوراسی دھاندلی زدہ الیکشن کے باعث صوبائی حکومت قائم کرنے کے قابل ہوئی ہے تو کم از کم پاکستان تحریکِ انصاف کے چئیر مین کا سیاسی رویہ پاکستان عوامی تحریک کے خواب گو اور ہیٹ سے خرگوش نکال کر عوام سے تالیاں بجوانے والے چئیر مین سے بہر حال بہت فرق اور بہتر ہونا چاہیے! لیکن افسوس صد افسوس!!!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
جاہد احمد کے کالمز
-
روم جل رہا ہے
جمعرات 24 اکتوبر 2019
-
ایسا کیوں نہ ہوتا
جمعہ 11 اکتوبر 2019
-
پپو جونیئر کا پاکستان
جمعرات 18 جولائی 2019
-
یہ بجٹ دودھ شہد کی نہر نہیں
ہفتہ 22 جون 2019
-
گوئیبلز طرز کا پراپیگنڈا اور پاکستان
بدھ 22 مئی 2019
-
سانڈ ،ایک حیوان! میٹا ڈار، ایک ہیرو
جمعرات 10 اگست 2017
-
پاکستانیت کیا ہے
اتوار 1 جنوری 2017
-
بھلے پکوڑیوں سے آگے
اتوار 5 جون 2016
جاہد احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.