’میں‘ میں ہوں

پیر 8 جون 2015

Jahid Ahmad

جاہد احمد

ایسے شفاف اور نفیس بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر ٹھیک انتخابی نشان جیسا عمدگی سے تراشیدہ بلا خان صاحب کو بطور تحفہ یقینا پیش کیا جانا چاہیے کیونکہ بہر حال خان بھائی ایک عظیم کھلاڑی رہ چکے ہیں اور پھر انہوں نے 1992 میں کرکٹ کا عالمی کپ بھی تو جیتا تھا۔ البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ کائنات اور انسانی حماقتوں کی کوئی حد نہیں لیکن میں کائنات کے بارے میں پُر یقین نہیں ہوں! اعتراض کسی کھلاڑی کے سیاست دان ہونے پر نہیں لیکن بہرطور گر ذہنیت کھلاڑی اور دل کھلنڈرا ہی رہے اور سونے پہ سہاگا کہ اختیارات بھی ہاتھ لگ جائیں تو سیاسی معاملات کا کھیل کے میدان میں تبدیل ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں۔

ایسا کھیل جو تشدد ، بد انتظامی ، غنڈہ گردی، پروپیگنڈا اور دھاندلی کی بنیاد پر کھیلا جائے۔

(جاری ہے)


خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں بد انتظامی وبددیانتی اپنی جگہ لیکن زیادہ تشویش کا باعث تحریکِ انصاف کے کارکنان کا فسطائیت سے بھرپور وہ رویہ ہے جس کو انقلاب اور تبدیلی کے نام پر پچھلے دو برسوں میں چیئر مین صاحب نے باقائدہ پروان چڑھایا ہے۔

اس رویہ کے پیچھے ’میں‘ میں ڈوبا نازی طرز کا جو فلسفہ کارفرما ہے ذرا ملاحظہ کیجئے کہ میں صحیح ہوں کیونکہ میں نیک نیت ہوں، میں نے ہسپتال بنایا ہے، میں پاکستان کے لیے کرکٹ کھیلتا تھا، میں نے ہاری ہوئی ٹیم کو اٹھا کر ورلڈ کپ جیتا تھا، سیاست میں عوام کے لئے آیا ہوں، باقی سب جھوٹے ہیں، لٹیرے ہیں ،چور ہیں، دس دس باریاں لے چکے ہیں، میں سچا ہوں، میں ہی آخری امید ہوں، جو میں کہتا ہوں وہی اول و آخر ہے، میں تبدیلی لاؤں گا، میں آخری حب الوطن ہوں،میرا غلط بھی ٹھیک اور میرا جھوٹ بھی سچ ہے کیونکہ ’میں‘ ’میں‘ ہوں!!!میں نے ورلڈ کپ جیتا، میں نیک نیت ہوں، میں تبدیلی لاؤ ں گا۔

۔۔۔۔۔۔۔
فسطائیت اور پاور پالیٹکس کا عملی نمونہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں کیا خوب دیکھنے میں آیا ہے۔ کیا کیا مناظر ہیں کہ پولنگ سٹیشنز کے اندر غنڈہ گردی کی جارہی ہے، خاص انتخابی نشان پر مہریں لگانے پر زبردستی مجبورکیا جا رہا ہے ، انقلابی کارکنان مخالفین سے گتھم گتھا ہیں، گولیاں چل رہی ہیں، ڈنڈے برس رہے ہیں، کارکنان ڈھیر ہو رہے ہیں، مار کوئی رہا ہے، گرفتار کسی کو کیا جا رہا ہے، ہجوم بے قابو ہے، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، پولیس معتبر سیاسی قائدین پر قتل کی ایف آئی آریں کاٹ رہی ہے، تحریکِ انصاف کے نشے میں دھت قائدین و جوشیلے کارکنان بیلٹ بکسے اٹھا کر ایسے دوڑیں لگا رہے ہیں جیسے اگلے اولمپکس میں یوسین بولٹ کے خلاف 100 میٹر دوڑ میں حصہ لینا ہے ۔

ایسے بد انتظام انتخابات سو سو سال کے بزرگوں نے بھی اپنی زندگی میں نہیں دیکھے ۔
’لیکن بہرحال اس صورتحال کی مکمل ذمہ دار الیکشن کمیشن ہے نہ کہ صوبائی حکومت و انتظامیہ کیونکہ یہ ’میرا‘ صوبہ ہے، یہ بلدیاتی انتخابات ہیں، یہاں نگران حکومت بھی نہیں تھی اور ’میں‘ ’میں‘ ہوں۔ میں نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا ہے، ہسپتال بنایا ہے، یونیورسٹی بنائی ہے اور میں نے دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف 126 دن تک ریکارڈ ساز کنٹینر دھرنا بھی دیا ہے جس کے باعث میرا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اگر درج نہیں ہے تو درج ہونا چاہیے ۔


ایسے متشدد اور غیرمعیاری انتخابات کے انعقاد کے بعد سیاسی جماعتوں کو انتخابات دوبارہ منعقد کرانے کی پیشکش کرنے سے پہلے چیئرمین بھائی صاحب صرف ماضی قریب میں دھاندلی سے متعلق اپنے پر مغز افکار و بیانات پر ہی سنجیدگی سے نظر دوڑا لیتے تو شاید ان بلدیاتی انتخابات کوسرے سے کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ انتخابات اس وقت تک موخر کر دیتے تاقت کہ صوبائی حکومت انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مکمل انتظامی اہلیت حاصل نہ کر لے اور انقلابی کارکنان کی مناسب سیاسی و اخلاقی تربیت مکمل نہ کر لی جائے! ان بنیادی اجزا کے بغیر ایسی شاہانہ پیشکش اول تو اس بات کی غمازی ہے کہ چیئرمین صاحب انتخابات کی مکمل ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں اور دوم یہ پیشکش آنکھوں میں دھول جھونکنے اور حقیقی مسئلے سے چشم پوشی کے مترادف ہے کیونکہ ان انتخابات کے اس حد تک متشدد صورت اختیار کرنے میں بنیادی کردار انقلابی کارکنان میں صبر و تحمل و برداشت کی کمی اور مارو ،مر جاؤ، بھڑ جاؤ ، ہم ہار نہیں سکتے، ہم سچے ہیں جیسے فسطائی افکار کی تلقین ہے جو کارکنان کو مخالفین کے خلاف کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ رکھتی ہے۔


چیئر مین صاحب کو اپنے اور اپنے کارکنان کے رویوں پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دوہرے و دوغلے معیار اور جذباتی نعرے اپنا کر وقتی ہیجان ضرور پیدا کیا جا سکتا ہے لیکن طویل مدتی کامیابی نہیں جس کی واضح مثال حالیہ ریکارڈ ساز کنٹینر دھرنا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی نوجوان چیئر مین صاحب کو بڑی تعداد میں گرو سمجھتے ہیں اور ان کے معتقد ہیں۔

ان کی ہر بات کو دماغ بند کر کے سچ مانتے ہیں، ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں تو چیئر مین صاحب پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے نوجوان کارکنان کو فسطائیت کا رویہ اپنانے کی ترغیب دینے سے گریز کریں۔ آزاد انتخابات جمہوریت کے جسم میں خون کا درجہ رکھتے ہیں۔ انتخابات میں فتح کارکردگی یا نظریہ کی بنیاد پر ہونی چاہیے نہ کہ دھونس و تشدد کی بنیاد پر۔

پاکستان تحریکِ انصاف عام انتخابات سے پہلے اور بعد میں طالبان کو پاکستان کا نجات دہندہ قرار دینے اور پشاور میں ان کے باقائدہ دفاتر کھلوانے جیسے سنجیدہ مطالبات کرنے کے باعث طالبان کے حقیقی سیاسی بازو کی حیثیت سے اپنا تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔ اگلا اہم موڑ 126 دن پر محیط انقلابی دھرنے میں فسطائیت کی علمبردار جماعت کے طور پر ابھر کر اپنی شناخت کا قائم کرنا تھا اور اب ان حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اس تاثر کو مزید گہرا کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے!!!
تحریکِ انصاف کے انقلاب کے نعرے سے لے کر بلدیاتی انتخابات تک بیسیوں نوجوان جلسے جلوسوں اور احتجاجوں میں ہلاک ہو چکے ہیں جس کی ذمہ داری ہر مرتبہ خان صاحب نے مخالفین پر تھوپ دی۔

آج ان تمام ہلاک شدہ نوجوان افراد کا کہیں ذکر تک موجود نہیں۔ حبیب الله بلدیاتی انتخابات کے روز ہلاک ہوئے کئی افراد میں سے ایک شخص کا نام ہے جس کی موت کو بھی ان کی جماعت نے سیاسی مقاصد پورے کرنے کے لئے بھرپور طریقہ سے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ان تمام معاملات میں خان صاحب بالواسطہ خود شامل تھے یا نہیں لیکن ان کی فسطائیت پر مبنی سیاسی تربیت نے اپنا رنگ ضرور دکھایا ہے ۔ حبیب الله بھی دیگر اپنے جیسے افراد کی طرح چند دنوں میں بھولی بسری یاد بن کر رہ جائے گاجبکہ فسطائیت ایک بار پھر پروپیگنڈے کے سہارے لاشوں پر پاؤں رکھتی آگے بڑھ گئی ہے! ان اموات کا حقیقی ذمہ دار کون ہے اور فسطائیت کب تک یوں ہی اپنا زور دکھاتی ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :