حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ

اتوار 30 اگست 2020

Javed Ali

جاوید علی

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت 5 شعبان چار ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی- حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے کان میں اذان میں دی اور منہ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا- ساتویں دن سر کے بال منڈواۓ اور ان کے برابر چاندی صدقہ کی اور آپ کا اسم گرامی حسین رکھا اور آپ کے لئے دعا فرمائی- آپ اکثر حسن وحسین رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے وہی دعا فرمایا کرتے جو حضرت ابراہیم اسماعیل اور اسحاق علیہ السلام کے لئے کیا کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لیے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہارے بزرگ دادا  ( ابراہیم علیہ السلام )  بھی ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ اسماعیل اور اسحاق علیہ السلام کے لیے مانگا کرتے تھے۔

«أعوذ بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومن كل عين لامة» ترجمہ ”میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے۔

(جاری ہے)

“( البخاری) نبی کریم آپ سے اس قدر محبت کیا کرتے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حسین کے رونے کی آواز سنی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کیا تمھیں معلوم نہیں کہ مجھے حسین کے رونے کی آواز غمگین کر دیتی ہے- حضور حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو کھیلاتے اور حسین آپ کے کندھوں پر سواری کیا کرتے- حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی طرف سے حسن وحسین کے عقیقہ کےلئے دنبہ ذبح کیا- تمام صحابہ آپ سے بہت محبت کیا کرتے- جب خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے دربار میں خدمت کے لئے شہربانو کو بھیجا گیا تو حضرت عمر نے ان کے لئے حضرت حسین کو ہی نکاح کے لئے پسند کیا- آپ تقریبا دس سال منصب امامت  پر فائز رہے اور واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔

آپ حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے دوسرے بیٹے اور نواسہ رسول ہیں۔تاریخی کتب کے مطابق پیغمبر خداؐ نے آپؑ کی ولادت کے دوران آپ کی شہادت کی خبر دی اور آپ کا نام حسین رکھا۔ رسول اللہؐ حسین کو بہت چاہتے تھے اور ان سے محبت رکھنے کی سفارش بھی کرتے تھے۔ امام حسینؑ اصحاب اور اہل بیت رسول میں سے ایک بھی ہیں جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے۔

امام حسینؑ کی فضیلت میں آنحضرتؐ سے بہت ساری روایات بھی نقل ہوئی ہیں انہی میں سے یہ روایات بھی ہیں؛ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور حسین چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہے۔
 ایک شخص نے حضرت ابن عمر سے ( حالت احرام میں )  مچھر کے مارنے کے متعلق پوچھا  ( کہ اس کا کیا کفارہ ہو گا )  ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا کہ تم کہاں کے ہو؟ اس نے بتایا کہ عراق کا، فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو،  ( مچھر کی جان لینے کے تاوان کا مسئلہ پوچھتا ہے )  حالانکہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ کو  ( بےتکلف قتل کر ڈالا )  میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ یہ دونوں  ( حسن اور حسین رضی اللہ عنہما )  دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

(صحیح بخاری, 5994) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا حسین رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔(البخاری 3748)
ایک دفعہ آپ گھوڑے پر جا ریے تھے راستے میں غرباء زمین پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے انہوں نے عرض کی نواسہ رسول ہمارے ساتھ کھانا کھاۓ- آپ گھوڑے سے اترے اور ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا اور فرمایا تکبر اللہ کو ناپسند ہے- سید نا حسین نے ان کو اپنے کھانے کی دعوت دی- سید نا حسین رضی اللہ تعالی عنہ  نے کبھی صدقہ اور زکوتہ میں سے نہیں کھایا- ایک دفعہ حسن و حسین دونوں حضور نبی کریم کے سامنے بیٹھے کھیل رہے تھے اور ساتھ صدقہ کی کچھ کھجوریں پڑیں تھی تو دونوں نے اٹھا کر منہ میں ڈال لیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے منہ میں سے انگلی مبارک سے نکال کر باہر پھینکیں اور فرمایا کہ تمھیں معلوم نہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد زکوتہ کا مال نہیں کھا سکتی-(البخاری 1485)
حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے حضرت فاطمہ اور حسن و حسین کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ جس نے حسن و حسین سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی-سرورکائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا:  ”حسین منی وانامن الحسین“حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں ۔

خدااسے دوست رکھے جوحسین کودوست رکھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :