اسلام ہی میری نظریاتی اساس ہے

جمعرات 25 مارچ 2021

Javeria Aslam

جویریہ اسلم

عام طور پر دین اور مذہب کو ایک دوسرے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے، جبکہ ان دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ دین کل ہے اور کسی بھی نظام کے اصول و ضوابط کا نام ہے۔  اس کے برعکس مذہب جزو ہے جو شرعی عبادات احکامات سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں دین سے مراد ہے نظام اور مذھب سے مراد ہے عقائد-
اللہ چاھتا ھے زمین پر اسلام کا نظام ھو اور مخالفین و منکر اور کفار چاھتے ہیں زمین پر اللہ کا نظام نہ ہو  عقائد بھلے اسلامی ھوں مگر نظام غیر اسلامی ھو-
دین کی  لازم شرط یہ ھے کہ دین کا غلبہ ھو، آپ غور کریں جتنے غیر اسلامی ممالک ہیں وہ مسلمانوں کو اُن کے عقائد کی حد تک عبادت کی اجازت دیتے ہیں، مثلاً نماز ادا کرنا، زکوٰۃ دینا، روزہ رکھنا، قرآن کی تلاوت کرنا، عیدیں منانا، وغیرہ وغیرہ.. مگر اسلامی قوانین کے پھیلاؤ کی اجازت نہیں دیتے... حتٰی کہ مسلمانوں کے اپنے ممالک میں بھی وہ اسلامی قوانین کا نفاذ نہیں ھونے دیتے، جیسا کہ شرعی قوانین اور شرعی سزائیں، چور کا ھاتھ کاٹنا، کفار کو مسلمان ممالک میں سربراھی دینا، وغیرہ وغیرہ، جبکہ دین اسلام کی پہلی شرط ھے زمین پر ھر طرف اسلام کا غلبہ ھو اور اگر یہ غلبہ نہیں ھو سکتا تو پھر اسلام محض ایک مذھب ھے صرف عقائد کی پیروی اس کے آگے کچھ نہیں. پاکستان جیسے ممالک میں دین اور اسلام کے رایج نہ ہو پانے کی وجہ شاید یہی ہے . مسلمانوں کو اپنے مذہب اور دین کے بارے میں بنیادی معلومات کے حصول کی طلب ہونی چاہیے، بےشک اللہ پاک آپ تک ہدایت پہہچاتے ہیں اگر آپ ہدایت چاہتے ہوں-
ہمارے ہاں مذہب ٹچ می ناٹ کے پودے جیسا کیوں ہے؟
ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں، سوشل میڈیا اور سوشل اجتماعات میں مذہب پر تبصرے سے  یا تو گریز نظر آتا ہے کہ کوئی تنازعہ نہ ہو جائے-حالانکہ اس کی بنیادی تعلیمات تو بطور مسلمان مجھے معلوم ہونی چاہییں اور اگر نہیں تو اس پر مجھے شرمندہ ہونا چاہیے ناکہ دوسروں کو شرمندہ کر نا چاہیے جبکہ آپ دیکھ بھی رہے ہوں کہ پوچھنے والے کا مقصد آپ کو زچ کرنا ہرگز نہیں-
فیس بک پر شئیر کرنے کے لیے کتنا کچھ ہے مگر پھر بھی لوگ مذہب کے بارے میں متنازعہ چیزیں لگانا اپنا مشغلہ سمجھتے ہیں اور اگر کوئی وضاحت کر دے تو اسے شدت پسند کا لقب فوراً دے دیتے ہیں-
یہ میڈیم ایکدوسرے سے خیالات شئیر کرنے ہی کے لیے ہے تو پھر حوصلے سے ایکدوسرے کی بات سن لینے میں کیا حرج ہے، آخر یقین تو ہم اپنی ہی مرضی سے کرتے ہیں-
مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگوں میں قوت برداشت نہ ہونے کے برابر ہے، نہ جانے اس کی کیا وجہ ہے اور اچھے خاصے لوگ مذہب کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کر کے نہ جانے خود کو کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں- مذہب تو خالصتا ذاتی مسئلہ ہے، اسے ہماری ذات کا حصہ ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے اور یہ معاملہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے، پھر اس پر علمی بحث کو بھی طبل جنگ کیوں سمجھ لیا جاتا ہے-
فیس بک کا معاملہ بھی عملی زندگی جیسا لگتا ہے، جس کسی کو اسکی علمیت اور بڑے پن کیوجہ سے ہم سوچ کی اونچی مسند پر بٹھا دیں، خدا اسکا ایک نرالا ہی روپ ہمارے سامنے لے آتا ہے-
مذہب کو چھوئی موئی ان لوگوں نے بنایا ہے جنہوں نے اسلام کا ٹھیکہ لیکر اپنا کاروبار چمکا رکھا ہے۔

(جاری ہے)


عام مسلمان تو اپنے دین کو سمجھنا چاہتا ہے۔ مگر یہ لوگ اپنے کاروباری فائدے کو مدنظر رکھتے ہیں اور اصل معلومات عوام تک نہیں پہنچنے دیتے ۔
اگر یورپ کے تاریک زمانے (Dark ages of Europe ) اور آج کے دور کا تقابل کریں تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے پادری اور آج کے ملا اللہ کی آیات کو سستے داموں بیچنے میں ایک جیسی مارکیٹنگ سکلز اور سٹراٹیجیز اختیار کیئے ہوئے ہیں۔


یہاں اسلام کے ٹھیکے دار جگہ جگہ مل جائیں گے جبکہ مسلمانوں کے ٹھیکے دار خال خال ہی ملیں گے۔ ٹھیکیدار ہماری اپنی ہی کمزوری کی وجہ سے زورآور ہیں۔قرآن جب خود کہتا ہیے کہ مجھے سمجھنا ہے تو میری زبان کو پہلے سمجھو، تو عربی کو ہم عوام الناس نے خود دیس نکالا دیا ہوا ہے، جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے کوئی قرآنی بات پوچھنا ہوتو ٹھیکیدار کے پاس ہی جاتے ہیں، پھر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہر ٹھیکیدار کا  تخمینہ الگ الگ  ہوتا ہے، جبکہ اگر ہم خود مذہب سے آشنا رہنےکی روائت قائم رکھتے تو اپنے بچے کی پیدایش پر اذان، نکاح خوانی، تجہیز و تکفین کنٹریکٹ پر نہ دیتے۔

کسی کے عقائد پر رطب السان ہونا کوئی اچھی بات نہیں۔ ہاں البتہ مسلم ہونےکےدعویدار ہوتے ہوئے اسکے ضابطہ حیات کو نظرانداز کرنے کے رویے نے ہی ہمیں ٹھیکیدار کا محتاج بنایا ہے-
میرے خیال میں تفسیر کی چھ جلدیں  (تفہیم القرآن) اور  معارف القرآن، فی ظل القرآن، اور ابن کثیر کی پہلی جلدیں ُپڑھ لینے سے آپکو قرآن پاک کی بنیادی سمجھ آ جاتی ہے، بہت سے عربی زبان بولنے والوں کا بھی دین کا علم بہت محدود ہے حالانکہ ان کی مادری زبان عربی ہے۔

آجکل تو آپ کو بہت اچھے ترجمے اور قرآن پاک کی تفسیر کی کتابیں مل جائیں گی۔ صرف اگر قرآن پاک کی ابتدائی بیس آیات پڑھ اور سمجھ لیں تو آپ کو اس کتاب سے رہنمائی مل سکتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے روایت یے کہ انھوں نے فرمایا " میں نے سورہ بکرا پانچ (چھ) سال میں یاد کی" وہ اپنے وقت کے چند اچھے علماء دین صحابہ رسولؐ میں سے تھے۔

مفسرین کہتے ہیں یہاں پر ان کی مراد یاد کرنے سے یہ ہے کہ انھوں نے اس سورۃ  میں جو احکامات ہیں ان پر پانچ یا چھ سال میں عمل کیا۔ ویسے ایسے بھی واقعات ہیں جورسول پاک ﷺ کے دور میں پیش آئے کہ صحابہ کرام نے آپ کے پاس آکر قرآن پاک کی آیات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کی۔ جیسے سحری کے وقت ختم ہونے کے بارے میں " کالا دھاگہ سفید دھاگے میں تبدیل ہو جائے " اور ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے تکیہ کے نیچے دھاگہ رکھنا شروع کر لیا تھا، اگر آپ کے پاس مواقعے اور وقت ہو توعربی زبان بھی سیکھ لینا چاہیئے، کم از کم نماز پڑھتے یہ تو معلوم ہو کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔


ہماری سب سے بڑی کمزوری ہماری قوم کی پراگندہ سوچ ہے جو بےحد خطرناک ہے۔ پاکستان کی سیاسی و نظریاتی تفریق خطرناک ہوتی جا رہی ہے جو فوری توجہ اور حل طلب ایشو ہے۔ہماری نظریاتی تفریق اور نظریات سے عاری موجودہ سیاسی نظام ان مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو کہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں نظام حکومت منتخب کرنے کااختیار دیا ہے جس کی بنیاد قرآن و سنہ کے اصول ہیں ۔

یہی ہمارا نظریہ حیات ہے جس کی تشریخ 1973ء کے آئین میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:
‘‘پاکستان کا نظام حکومت جمہوری ہوگا جس کی بنیادقرآن و سنہ کے اصولوں پرقائم ہو گی۔’'
لیکن بدقسمتی سے ہم نےقرآن و سنہ کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف جمہوریت کو ہی ترجیح دی ہے۔ اب تک کی کسی حکومت کو’ نہ موجودہ اور نہ گزشتہ اور نہ ہی متعدد مذہبی جماعتوں میں سے کسی کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ وہ قوم کی نظریاتی شناخت کو محفوظ بنانے کی طرف توجہ دیتے- ہم اپنی قوم کو مسلم شناخت دینے میں ناکام ہوئے ہیں کیونکہ ہمارا نظام تعلیم قرآن و سنہ کے اصولوں سے یکسر عاری ہے اور  اس جرم میں ہماری عدلیہ’ انتظامیہ’ کچھ سیاسی و دینی جماعتیں اور اشرافیہ برابر کے شریک رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :