اقبال کا تصور عشق

منگل 4 مئی 2021

Javeria Aslam

جویریہ اسلم

عشق وہ والہانہ جذبہ ہے جو حضرت انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ جذبہ بناوٹ، عیاری اور لالچ سے ماورا ہوتا ہے۔ یہ جذبہ انسان کو ایک جست میں اس بلندی اور آفاقیت تک لے جاتا ہے۔جس کا ہم خیال بھی نہیں کر سکتے ۔ اس قوت سے یقین و ایمان میں پختگی آتی ہے۔ اور اسی جذبہ کے تحت ایمان بالغیب پر یقین آجاتا ہے۔ حضرت سید محمد ذوقی شاہ اپنی کتاب ” سر ِ دلبراں “ میں لکھتے ہیں:
” عشق ایک مقناطیسی کشش ہے: کسی کو کسی کی جانب سے ایذا پانا، وصال سے سیر ہونا ، اس کی ہستی میں اپنی ہستی کو گم کر دینا __ سب عشق و محبت کے کرشمے ہیں۔


عاشقی چیست؟ بگو بندہ جاناں بودن
دل بدست دگرے دا دن و حیراں بودن
اور جب یہ تعلق یا کشش سیدنا محمد مصطفیﷺ سے ہو تو پھر کیا کہنا ۔

(جاری ہے)

ان کی ہستی تو ایک بحر زخار کے مانند ہے جس کی موجیں آسمان کو چھوتی ہیں۔ جس کی تعلیمات محبت ، اخوت، مساوات اور رواداری کا درس دیتی ہیں ۔ جو لوگوں کو حیات نو عطا کرتی ہیں۔ جن کو نبوت سے پہلے امین اور صادق کے خطاب دئیے گئے رشک کی بات ہے کہ اقبال کو اس عظیم بندے سے عشق تھا اور اس آفتاب کے نور سے اقبال کی شاعری منور ہے۔


می ندانی عشق و مستی از کجا ست؟
عشق و محبت کا یہ مرتبہ ایمان کا خلاصہ ہے ۔ اتباع رسولﷺ کے بغیر محبت رسولﷺ ناممکن ہے۔ آپ کی ذات گرامی رحمتہ اللعالمین تھی۔ اس لئے مومن کو بھی رحمت و شفقت کا آئینہ ہونا چاہیے۔
مثلِ بو قید ہے غنچے میں ، پریشاں ہو جا
رخت بردوش ہے ہوائے چمنستاں ہو جا
ہے تنک مایہ ، توذری سے بیاباں ہو جا
نغمہ موج سے ہنگامہ طوفاں ہو جا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم ِ محمد سے اجالا کر دے
اقبال کے نزدیک مسلمان کی سرشت ایک موتی کی طرح ہے جس کو آب و تاب بحر ِ رسولﷺ سے حاصل ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اقبال اسوہ حسنہ کی تقلید کا سبق دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
غنچہ از شاخسار ِ مصطفی
گل شو از باد بہار مصطفی
اقبال کے نزدیک خالق کائنات نے جب اس دنیا میں اپنی کاریگری کا آغاز کیا اور حضرت انسان کی شکل میں اپنے چھپے ہوئے خزانے کو عیاں کیا پھر جب ارتقاءکے منازل طے ہوتے گئے اور قوائے انسانی اپنے پورے کمال پر آگئے تو رب العالمین نے محمدﷺ کو معبوث فرمایا ۔

جو سب کے لئے رحمت ، ہادی ، راہ نما ، اور مہربان تھے۔
خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست
رحمتہ للعالمینی انتہا ست
کلام اقبال میں عشق رسولﷺ کے اظہار میں شیفتگی و وارفتگی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ اقبال ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی تمام تر عقل اور فلسفہ دانی کو نبی کریمﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دیا ہے۔ اقبال کے ذہن میں عشق و مستی کا اوّل اور آخری محور ایک ہی ہونا چاہیے اور وہ محور ہے نبی کریمﷺ کی ذات جو ذات ِ تجلیات ہے-
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
اقبال حضورﷺ کو اپنے کارواں کا سالار قرار دیتے ہوئے ان کی تقلید میں لبیک کہتے ہیں اور تن ، من ، دھن ، ان کی محبت میں قربان کرنے کو اولیت دیتے ہیں اور انہی کی لیڈر شپ میں زندگی کی قربانی کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس لئے اپنی مشہور نظم ”ترانہ ملی“ میں لکھتے ہیں:
سالار کاروا ں ہے میر حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
جس طرح ہر شاعر اپنے عشق کا اظہار اپنے محبوب کے حسن و جمال کے بیان سے کرتا ہے اسی طرح اقبال بھی اپنے محبوب کےحسن و جمال میں حضورﷺ کی خوبی و محبوبی، پر وقار انداز ، شگفتہ گفتگو ، خوبصورت چہرہ، مناسب قد الغرض ہر چیز اور ہر زاویے کو اپنی شاعری میں لاے ہیں- علامہ نے حضور پاکﷺ کی خوبصورتی کو یوسف ، عیسیٰ اور موسیٰ پر ترجیح دی ہے۔


حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ ید بےضا داری
آنچ خوباں ہمہ دارند تو اتنہا داری
اقبال کے ذہن میں انسانی زندگی کے دو بڑے دھارے ہیں۔ نیکی اور بدی : وہ نیکی کو محمدﷺ سے منسلک کرتے ہیں جبکہ بدی کو ابولہب سے وہ ابو لہب کو بدی کا خدا تصور کرتے ہیں اور نیکی کی علامت کے لئے پیکر جمیل کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عشق اور عقل کی تقسیم میں عشق کو محمدﷺ اور عقل کو عیاری کی بناء پر ابولہب کے حصے میں رکھتے ہیں۔

وہ فرماتے ہیں:
تازہ میر ے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب
اقبال کے خیال میں نیکی اور بدی کی قوتوں کے درمیان یہ معرکے ازل سے جاری ہیں اور بدی کی قوتوں کا انداز ابتداء سے مکارانہ اور عیارانہ ہے۔ جس کے مقابلے میں نیکی معصوم اور پاک ہوتی ہے۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا اِمروز
چراغِ مصطفوی سے شرار بو لہبی
یہ عشق نبویﷺ کا ہی فیض تھا کہ یورپ میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود اقبال دین ِ محمدی سے منحرف نہ ہوئے اور نہ ان کے اقدار میں تبدیلی ہوئی۔

اس لئے جب وہ لوٹے تھے اسی طرح عشق رسولﷺ سے سرشار تھے۔
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہء دانشِ فرنگ
سرمہ ہے مری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
جس دور میں اقبال نے شکوہ اور جواب شکوہ جیسی نظمیں تخلیق کیں وہ مسلماناں عالم کے لئے ایک عالمگیر انحطاط و انتشار کا زمانہ تھا اقبال مسلمانان عالم کی اس عمومی صورت حال پر ہمہ وقت بے تاب و بے قرار رہتے تھے۔

جواب شکوہ لکھنے سے کچھ عرصہ پیشتر اقبال نے طرابلس کے شہیدوں کے حوالے سے ایک نظم ” حضور رسالت مآب لکھی۔ یہ نظم بارگاہ نبویﷺ میں شاعری کی ایک خیالی حاضری کو بیان کرتی ہے۔ فرشتے شاعر کو بزم رسالت میں حضورﷺ کے سایہ رحمت میں لے جاتے ہیں۔ بارگاہ نبوی سے شاعر سے خطاب کیا جاتا ہے۔
کہا حضور نے اے عندلیبِ باغِ حجاز
کلی کلی ہے تری گرمئ نوا سے گداز
اقبال کا مطالعہ اسلام اور قرآن بہت ہی اچھا تھا۔

انہوں نے اپنی شاعری میں آیاتِ قرآنی کو جگہ دی ہے۔ کیونکہ اقبال کو پتہ تھا کہ اللہ کے کتابوں میں یہ آخری اور واحد کتاب ہے جس میں تبدیلی اور غلط بیانی کسی کی بس کی بات نہیں ۔ اور اس کی خالص شکل لوح محفوظ میں موجود ہے اور اسی قرآن میں اللہ تعالٰیٰ فرماتے ہیں کہ،
ترجمہ:۔ اے نبی کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تا بعداری کرو
کیونکہ اللہ تک رسائی کے لئے حُب نبی ہی اصل زینہ ہے۔

جس پرصحابہ کرام نے عمل کیا۔ صدیق، عمر، عثمان اور علی نے عمل کیا۔ اقبال اس لئے نصیحت کرتے ہیں کہ اللہ سے وہی سوز طلب کرو جو صحابہ نے طلب کیا تھا۔ جو ان کو عشق نبویﷺ سے حاصل ہوا۔
سوز صدیق و علی از حق طلب
ذرہ عشق نبی از حق طلب
اقبال کے نزدیک اسوہ نبویﷺ کے اتباہ کے بدولت ہی ہم مکارم الاخلاق سے آراستہ ہو سکتے ہیں اسی وجہ سے ہمارے دلوں میں کشادگی اور نور اور تجلیات خداوندی جگہ پا سکتی ہے۔

اقبال فرماتے ہیں :
درد دل مسلم مقام مصطفےٰ است
آبروئے ماز نامِ مصطفی است
اقبال کے نزدیک اس دنیا کی تخلیق کی اصل وجہ ذات نبیﷺ ہے کیونکہ آپﷺ ہی کی وجہ سے اس دنیا میں اصل خالق یعنی اللہ کی ذات کی پہچان ، صحیح معنوں میں ممکن ہوئی۔ آپ ہی تھے جنہوں نے خدا تعالٰیٰ کی حقیقت کے بار ے میں لوگوں کو آگاہ کیا اور ان کے راز آشکار کئے۔


 اصل میں عشق رسولﷺ ہی وہ زینہ ہے جس پر چڑھ کر اقبال محرم راز درونِ مے خانہ کا دعویٰ کرتے ہیں اسی ذات کو اقبال آخرت اور دنیا دونوں میں نجات دہندہ خیال کرتے ہیں۔ اسی ذات ِ با برکات نے امت مسلمہ کی صحیح داغ بیل ڈالی ان لئے تکالیف برداشت کیں اور احسانات کا ایک انبار اپنی قوم پر ڈال دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اللہ تعالٰیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اے خدا قیامت کے دن میرے اعمال نامہ کو تو اپنے رسولﷺ کے سامنے پیش کر کے مجھے رسوا مت کر۔ مجھے شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ اس عظیم ذات کے سامنے مجھ خطا کار کی خطائیں جب آشکار ہوں۔
مکُن رسوا حضورِ خواجہ مارا
حساب من ز چشم ِ او نہاں گیر

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :