کیا بحیثیتِ قوم ہم گدا گر ہیں؟

بدھ 15 ستمبر 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

میں اکثر ایک بات سوچتا ہوں کہ مملکتِ پاکستان کو اللؔہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا،یہاں وسیع و عریض میدان ،پہاڑ،سمندر،صحرا ،جنگل ہیں ۔چاروں موسم ہیں، پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں یہ ایک ایٹمی ملک ہے ، اس میں نمک کی دوسری بڑی کان،دنیا کی پانچویں بڑی سونے کی کان ،تانبے کی ساتویں ، دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم، اور پیداوار کے لحاظ سے کپاس ،چاول ،آم ،مٹر ، خوبانی اور گنے میں خود کفیل اور دنیا میں دوسرے ،تیسرے ،چوتھے نمبر پر ۔

پاکستان دنیا میں زرعی پیداوار کے لحاظ سے 25 ویں اور صنعتی لحاظ سے 55ویں نمبر پر ہے ۔اس کے علاوہ پاکستان میں گیس کے وسیع ذخائر ہیں ۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے زرعی ،صنعتی ،معدنی اورافرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

یہ ساری نعمتیں اللہ نے پاکستان کو دی ہیں مگر بد قسمتی سے ان سب کے باوجود اکثر فلاحی اداروں اور ہسپتالوں کے نمائندے بیرونِ مُلک جا کر “بھیک کیمپ” لگاتے ہیں یا بیرونِ مُلک مقیم پاکستانی مختلف تنظیمیں بنا کر چندا اکٹھا کر کے اپنے ُملک میں موجود مفلس اور نادار افراد کی امداد کرتے ہیں اور پھر اس عمل کی مختلف ذرائع ابلاغ کے اداروں کے ذریعے یا سوشل میڈیا کے ذریعے خوب مشہوری کرتے ہیں جو میرے خیال میں اُن مستحق افراد کی غربت کو تماشا بنا دینے کے مترادف ہے۔

یہ سب دیکھ کر جہاں دِل کی کیفیت عجیب سی ہو جاتی ہے وہیں ذہن میں بہت سے سوال جنم لیتے ہیں۔ مثلاً، کیا بحیثیتِ قوم گدا گری ہی ہمارا مقدر ہے؟ پاکستان میں جو معاشی بگاڑ ہے وہ کیوں ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں ؟اور اس کا حل کیا ہے؟ انہیں حل کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ یوں لگتا ہے کہ کسی کو کوئی علم نہیں ہے سب ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے نظر آتے ہیں ۔

ہر آنے والی نئی حکومت اس معاشی بگاڑ کا ذمہ دار پچھلی حکومت پر ڈال کے اس سے بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ مگر اس مسئلے کے حل کو تلاش کرنے کے لیئے کوئی حکومت کچھ نہیں کر پاتی۔ اس ُملک کو حاصل کرتے وقت بر صغیر کے مسلمانوں نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے ۔ یہ عہد ہمارے آباؤ اجداد نے کیا تھا اس کو خواب کو پورا ہم نے کرنا تھا مگر کیا اس وعدے کا احساس ہمیں ہے؟ ہمارے قائد کو اس کا مکمل احساس تھا، انہوں نے فرمایا تھا ،ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں ۔


ریاستِ مدینہ کے نعرے لگانے والے حکمرانوں کو یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ اسلام کے وہ اُصول جنہوں نے دنیا کے پورے سیاسی ومعاشی نظاموں کی بنیاد بنا رکھی ہے،جیسا کہ سوشلزم اور کمیونزم کہتا ہے کہ ضروت پوری کر نے کے بعد سب کچھ ریاست کا ہے ،جبکہ ہمارا مذہب کہتا ہے کہ زکوٰۃ دے کر سب کو معاشی طور پر اپنے برابر کرلو۔ یورپی ممالک اگر اسلام کے ایک ایک عمل سے اپنے سیاسی ومعاشی نظاموں کی بنیاد بنا کر دنیا میں اپنا نام بنا سکتے ہیں تو پھر ملاں کا حقہ خالی کیوں ہے؟ ہمارا اپنا ملک جو اسلام کے نام پر بنا اس میں عملا اسلام کہیں نظر نہیں آتا،یہاں میں یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام صرف پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کا نام ہی نہیں ہے بلکہ اسلام تو شروع ہی نماز کے بعد کے آداب معاشرت سے ہوتا ہے۔

جس میں اقتصادی فلاح ایک اہم جزو ہے اور جس کےحصول کےلیےضروری ہےکہ معاشرےمیں معاشی مساوات قائم کی جائے۔ایسےعوامل کی روک تھام کی جائےجن کی وجہ سےدولت چندافرادکے ہاتھوں سمٹ کررہ جائےاوراس کےثمرات سےلوگ مستفید نہ ہوسکیں۔ترقی کےمحرک کوکچلنے کی بجائے فردی ملکیت کااحترام اوراقتصادی مسابقت کی فضابرقراررکھی جائے تاکہ معاشرے کے تمام افرادکوضروریات باآسانی دستیاب ہوں۔

معاشرے کے نادارافرادکی کفالت اوربے روزگارافرادکے لیے روزگارکے مواقع پیداکرنابھی ریاست کی معاشی ذمہ داریوںمیں شامل ہے کیونکہ بیروزگاری کی شرح میں اضافہ معاشی عدم ِاستحکام کی علامت سمجھی جاتی ہے۔آپ ﷺکافرمان بھی ہے کہ:
’’کادالفقران یکون کفرا‘‘
’’قریب ہے کہ غربت کفرکاسبب بن جائے۔‘‘
کفرابدی خسران کاسبب اوراس کاانسدادحصول ِفلاح کی طرف پہلاقدم ہے۔

اس بناپرغربت کاخاتمہ اورعملی اقدامات ایسامعاشی تقاضاہے جومعاشرتی استحکام کے ساتھ ساتھ دارین کی فلاح کاموجب بھی ہے۔کوئی بھی ریاست اس تقاضے کی تکمیل کے بغیرفلاحی مملکت کے تصورپرپورانہیں اترسکتی۔
پاکستان میں کمی ہے تو ایک مخلص رہنما کی ۔ایک حقیقی حکومت کی جو اصلاحی ،جمہوری اور اسلامی ہو اور جو محض ریاستِ مدینہ کے نعرے لگا کر عوام کو تسلی نہ دے بلکہ ایک جامع حکمتِ عملی کے ذریعے حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھے۔

ہمارے ملک میں اقتصادی بد حالی کی سب سے بڑی وجہ ناقص حکمت عملی ہے جو حکومت کے ساتھ بدل جاتی ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ترقی ایک مسلسل عمل ہوتا ہے۔ اسے رکنا نہیں چاہیے ۔حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر ملکی ترقی کا سفر نہ رکے ،اس کے لیے ایک طویل مدتی پالیسی ہونی چاہیے جو بھی حکومت میں آئے وہ اس پر عمل کی پابند ہو ۔ایسا کوئی قانون ہونا چاہیے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے جو کہ پچھلے 74 سالوں سے ہم نہیں کر پائے۔


پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی ہے اور اس کی بقا بھی اسلام ہے ، قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ۔ایک مملکت قائم کرنا ہمارا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ حصول مقصد کا ایک ذریعہ تھا کہ ہم ایسی مملکت کے مالک ہوں جہاں ہم اپنی روایات اور تمدنی خصوصیات کے مطابق ترقی کر سکیں ،جہاں اسلام کے عدل و انصاف اور مساوات کے اصولوں کو آزادی سے بر سر عمل آنے کا موقع حاصل ہو جہاں معاشی خوش حالی ہو۔

مگر بد قسمتی سے دین اسلام کی تعلیمات سے دوری نے نفسانفسی کا ماحول پیدا کر دیا ہے ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جانے لگی ہے ۔
چین پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا، اسے مخلص لیڈر مل گئے پاکستان کی بد قسمتی کہ اسے نہ ملے ۔اسلامی فلاحی ریاست کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ساری نعمتیں اللہ نے پاکستان کو دیں مگر ہم عوام ایک مخلص لیڈر کی تلاش نہ کر سکے ۔

جو وطن کے لیے ،قوم کے لیے کام کرے ۔بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر لیڈروں کی دولت و جائیداد بیرون ملک ہے ۔ہمارے ملک کے یہ حالات کب تک بدلیں گے یہ تو خُدا ہی بہتر جانتاہے- کوئی گدا گری کا کشکول توڑنے والوں سے اور ریاستِ مدینہ کے دعوے داروں سے یہ پوچھے کہ بحیثیتِ قوم ہم گداگر ہی بنے رہیں گے یا کبھی یہ کشکول ٹوٹے گا بھی؟
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
                        علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :