سقوطِ ڈھاکہ، زمینی حقائق کیا تھے؟

جمعہ 17 دسمبر 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

16 دسمبر2021 کو مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کو مغربی پاکستان جدا ہوئے جسے سقوطِ ڈھاکہ بھی کہا جاتا ہے کو 50 سال پورے ہوگئے۔ اس المیے کے حوالے سے اہل دانش آج بھی سوچتے رہتے ہیں کہ بنگلہ علیحدگی پسند تحریک سیاسی قیادت کی ناکامی کا نتیجہ تھی، عسکری قیادت کی سیاسی خواہشات کا عکس تھی یا پھر کوئی بین الاقوامی سازش تھی؟ 16 دسمبر 1971کو ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر کمانڈر ایسٹرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کے دستخط ہیں جو اس وقت زون بی کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔


اگر ہم حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کریں تو اس کے مطابق ایسٹرن کمانڈر جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی زیرِ قیادت فوج مزید دو ہفتے تک دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی مگر کیا وجہ تھی کہ اچانک فوج کا مورال اس قدر گر گیا کہ اُس نے بجائے بہادری کے ساتھ بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے سرینڈر کرنے کو ترجیح دی جبکہ فوج کو ہر طرف سے یہی حکم تھا کہ ’آخری گولی آخری آدمی‘ کے آرڈر پر عمل کرتے ہوئے وہ آخری قطرہ خون بہنے تک لڑیں گے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس جواں مردی کے ساتھ لڑتے ہوئے جانیں قربان کے تاریخ رقم کی جاتی جو آنے والی نسلوں کے لئیے باعثِ فخر ہوتا اور اُن شہدا کو عظیم ہیرو کے طور پر یاد رکھا جاتا، مگر بدقسمتی سے ایسا نا ہو سکا اور قوم کو پاکستان کے دولخت ہونے کا غم سہنا پڑا۔

(جاری ہے)

ایسا کیوں ہوا؟ ہتھیار کیوں ڈالنے پڑے؟ یہ بات آج تک کوئی نہیں سمجھ سکا اور نا ہی اصل ذمہ داروں کا تعین ہو سکا۔
زمینی حقائق کیا تھے؟
اگر ہم اس وقت کے زمینی حقائق کو سمجھنا چاہتے ہیں تو وہ فوجی کی بجائے سیاسی تصفیے کے حق میں تھے لیکن اس وقت ملک کے کچھ داخلی اور خارجی معاملات کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب تھے جیسے سیاسی چپقلشیں، طاقت کی بھوک اور حالات سے آگاہی کے باوجود بروقت فیصلوں کا فقدان۔


اگر ہم ان سب معاملات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو ہمیں یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہو گی کہ بنگالی علیحدگی پسند تحریک کوئی راتوں رات نہیں ابھری تھی۔ اس کی جڑوں کو پاکستان کی ابتدائی حکومتوں کے غلط اور غیر منصفانہ فیصلوں نے گہرا ہونے کا موقع دیا۔ اگر آپ “پاکستان جرنل آف ہسٹری اینڈ کلچر” کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کے سامنے بہت سے حقائق آشاکار ہوتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند رجحانات پیدا ہونے کا ایک بڑا اور پہلا سبب اردو کو سرکاری زبان قرار دئیے جانے کی مخالفت کے علاوہ 1947 کی مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں مقبول لیڈر حسین شہید سہروردی کو پارلیمانی سربراہ کی حیثیت دینے سے واضح انکار تھا جسکی وجہ لیاقت علی خان صاحب کا یہ ڈر تھا کہ حسین شہید سہروردی پارٹی میں ان کی پوزیشن کو چیلنج کرسکتے ہیں اس لیے انہوں نے عوام میں جڑیں نہ رکھنے والے خواجہ ناظم الدین کو مشرقی پاکستان کا وزیر اعلیٰ مقرر کردیا۔

ان غلط فیصلوں کے باعث پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی جس کی وجہ سے مولانا عبدالحمید بھاشانی اور فضل الحق جیسی شخصیات نے مسلم لیگ چھوڑ دی اور 1949 میں انہوں نے دی ایسٹ پاکستان عوامی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ مولانا عبدالحمید بھاشانی اس نئی پارٹی کے صدر اور شیخ مجیب الرحمن، جو اس وقت طالب علم رہنما تھے، جوائنٹ سیکریٹری مقرر کیے گئے۔


دوسرا بڑا اختلاف آئین کے حوالے سے 12 مارچ 1949 کو اس وقت سامنے آیا جب قرارداد مقاصد منظور کرکے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کو حوالے کی گئی تھی۔ بنگالی رہنماؤں نے قرارداد مقاصد کے چند نکات اور بنیادی اصولوں کی کمیٹی کے بارے میں یہ اعتراض کیا کہ آئین میں ایسی حکومت کی گنجائش بنانا صحیح ہے کہ جس میں مرکز بہت مضبوط ہو اور صوبائی خود مختاری برائے نام ہو؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو مشرقی پاکستان رفتہ رفتہ مغربی پاکستان کی نو آبادی بن کر رہ جائے گا کو شاید سب کے لئیے قابلِ قبول نا ہو۔

آئین سازی کے حوالے سے دو معاملات غیر معمولی طور پر حل طلب تھے۔ اول قانون ساز اسمبلی میں نمائندگی کا تناسب اور دوم مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم۔ بنگالی کو سرکاری زبانوں میں تسلیم کرلیا گیا تھا تاہم مشرقی پاکستان کے رہنما برابری کے اصول کو قبول کرنے پر رضامند نہ ہوئے ۔ وہ مزید صوبائی خودمختاری کے مطالبے پر قائم رہے اور اسی مطالبے نے بالآخر شیخ مجیب الر حمن کے چھ نکاتی پروگرام کی راہ ہموار کی۔


پھر گورنر جنرل غلام محمد کا خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرنے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جس سے بنگالیوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی جس پر غلام محمد نے بنگالیوں کو رام کرنے کے لیے ایک اور بنگالی محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کردیا تاہم بوگرہ کی بھی بنگالی عوام میں جڑیں نہ تھیں اور نتیجتاً وہ غلام محمد کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئے۔


اس کے بعد پھر ایک اور غلطی کی گئی جب اگست 1955 میں گورنر جنرل غلام محمد نے چوہدری محمد علی کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ بنگالیوں کو اس فیصلے سے بہت دکھ پہنچا کیونکہ یہ طے تھا کہ گورنر جنرل مغربی پاکستان سے ہوگا تو وزیر اعظم مشرقی پاکستان سے لیا جائے گا اور اسی طور اگر وزیر اعظم مغربی پاکستان کا ہوگا تو گورنر جنرل مشرقی پاکستان سے ہوگا۔

ستمبر 1956 میں حسین شہید سہروردی کو مرکز میں کابینہ تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی۔ اکتوبر 1957 تک حالات اس قدر خراب کردیے گئے کہ حسین شہید سہروردی کو برطرفی کی ذلت سے خود کو بچانے کے لیے مستعفی ہونا بہتر سمجھا۔ ان کے استعفے کو مشرقی پاکستان کے لوگوں نے اپنے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی ایک اور کوشش کے طور پر لیا۔
اگر حالات و واقعات اور اعداد و شمار کی روشنی میں جائزہ لیا گیا تو مشرقی پاکستان کے لوگوں کا شکوہ بجا تھا۔

1947 سے 1958 تک، حسین شہید سہروردی کے استثنیٰ کے ساتھ، مرکز میں مشرقی پاکستان کو 42 فیصد اور مغربی پاکستان کو 58 فیصد نمائندگی ملی۔ صرف حسین شہید سہروردی کی کابینہ میں بنگالیوں کو 57 فیصد نمائندگی دی گئی تھی۔ اس حق تلفی اور عدم مساوات کا مداوا پہلے جنرل ایوب خان اور پھر یحیی خان کی حکومتوں کی طرف سے کیا گیا مگر اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔


حسین شہید سہروردی جو کہ مشرقی پاکستان کے سب سے مقبول اور با اثر سیاست دان تھے۔ ان کے انتقال سے شیخ مجیب الرحمن کو میدان خالی مل گیا اور یوں وہ اپنی شخصیت کا طلسم قائم کرنے میں آسانی سے کامیاب ہوگئے۔ 1960 کے عشرے میں بنگالیوں کی سوچ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کے لیے بہتر حالات اسی وقت پیدا ہوسکتے ہیں جب مرکز میں قائم مضبوط حکومت کو ختم کرکے صوبوں کو غیر معمولی اختیارات دے دیے جائیں۔

شیخ مجیب الرحمن نے 6 فروری 1966 کو اپنے مشہور چھ نکات پیش کیے جنہیں مغربی پاکستان نے علیحدگی پسند ایجنڈے سے تعبیر کیا جو شائد تھا تو نہیں مگر علیحدگی کا سبب بن ہی گیا۔ اگر ان نکات کو سنجیدگی سے مذاکرات کے ذریعے کسی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرکے حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو شاید نتائج کچھ اور نکلتے اور شاید ہمارا بازو ہم سے جدا نا ہوتا مگر طاقت کی بھوک اور اقتدار کے نشے میں بدمست حکمرانوں نے تو جیسے کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھنے میں ہی عافیت جانی اور رتی برابر بھی معاملات کو حل کرنے کی کوشش بھی کرنے میں دلچسپی نا دکھائی اور ُآخرکا ملک کو دو لخت ہی ہونا پڑا۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیاکبھی اس کے ذمہ داروں کا تعین ہو پائے گا؟ کیا قوم کبھی اپنے بنگالی بھائیوں کی آنکھوں میں موجود اُن سوالوں کے جواب سے پائے گی کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیوں اتنی محبت کے باوجود ہم جدا ہوئے؟ کیا کوئی حکمران کبھی یہ جرأت کر پائے گا کہ جو غلطیاں ہم سے بڑا بھائی ہونے کے ناطے سرزد ہوئیں اُن کی معافی ہی مانگ پائے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :